دین میں ہر نیا عمل “بدعتِ ضلالہ” (گمراہی والی بدعت) ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب کسی نئے عقیدے، ذکر، طریقۂ ثواب، یا شرعی رسم کو شریعت کے نام پر ایجاد کرے۔ اگر کوئی نیا کام دینی مقصد کے ساتھ ہو مگر نبی ﷺ اور صحابہؓ سے ثابت نہ ہو، تو وہ بدعتِ ضلالہ ہی شمار ہوتا ہے۔
فرمانِ نبوی ﷺ:
“كل بدعة ضلالة، وكل ضلالة في النار”
ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
صحیح مسلم، حدیث: 867
قرآنِ مجید نے تنبیہ فرمائی کہ
ٱتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيۡكُم مِّن رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوۡلِيَآءَۗ
(جو تمہارے رب کی طرف نازل کیا گیا ہے اسی کی پیروی کرو، اس کے سوا کسی اور کے پیچھے نہ چلو)
(سورۃ الأعراف: 3)
“نئی چیز” سے مراد کیا ہے؟
“نئی چیز” سے مراد ایسی دینی رسم، طریقۂ عبادت، ذکر، دعا یا عمل ہے جسے ثواب کی نیت سے یا سنت سمجھ کر ایجاد کیا جائے، حالانکہ نبی ﷺ نے نہ فرمایا، نہ کیا، نہ صحابہؓ نے کیا۔
جیسے عید میلاد، اجتماعی دعا، ختم، قل، گیارہویں، درودوں کی محفلیں، مخصوص الفاظ کے اذکار وغیرہ
یا جیسے دین کے نام پر نئی نمازیں، نئی نیتیں، نئی دعائیں
یہ سب بدعات ہیں کیونکہ دین مکمل ہو چکا ہے
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا
(سورۃ المائدہ: 3)
جو لوگ “اچھی بدعت” کا جواز پیش کرتے ہیں، وہ دراصل نبی ﷺ کی مکمل سنت کو ناکافی سمجھتے ہیں، حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
“كل محدثة بدعة”
ہر نیا عمل بدعت ہے
(صحیح ابوداؤد، حدیث: 4607)
پس، دین وہی ہے جو نبی ﷺ نے چھوڑا، اس میں اضافہ کرنا ضلالت ہے، ہدایت نہیں۔