جی بالکل، عقیدۂ الٰہ واحد (توحید) کوئی فلسفیانہ یا دقیق مسئلہ نہیں جس کے لیے پیچیدہ مباحث یا طویل فلسفیانہ دلائل درکار ہوں، بلکہ یہ ہرانسان کی فطرت میں ودیعت ہے اور کائنات کی نشانیوں سے بالکل واضح ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا
سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ
ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفسوں میں بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی (اللہ) حق ہے۔
(فصلت 53)
یعنی آسمان و زمین کا نظام، ستارے، سورج، چاند، بارش، زندگی اور موت کا سلسلہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ ایک ہی خالق و مدبر ہے۔ اسی طرح انسان کے نفس میں عقل، شعور، دل اور ضمیر بھی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ واحد ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ
ہر بچہ فطرت (توحید) پر پیدا ہوتا ہے۔
(صحیح مسلم، حدیث 2658)
یعنی عقیدۂ توحید دلائلِ فطرت اور کائنات کے مشاہدے سے ہی روشن ہے، اس کے لیے گہری فلسفیانہ تحقیق کی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرامؓ اور بدوی عرب بغیر فلسفے کے آفاق و انفس کو دیکھ کر ایمان لائے۔
لہذا عقیدۂ توحید سمجھنے کے لیے آفاق (کائنات) اور انفس (انسانی فطرت و عقل) کافی ہیں۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ دیکھے، وہ ضرور سمجھ لے گا کہ اللہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں۔