|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کیا گناہ کبیرہ سے ایمان ختم ہو جاتا ہے؟

گناہ کبیرہ کے مسئلے میں یہ بات واضح ہے کہ اسلام میں ایمان کا تعلق دل کے یقین، زبان کے اقرار اور عمل سے ہے، لیکن محض گناہ کبیرہ کا ارتکاب انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتا جب تک کہ وہ اسے حلال نہ سمجھے۔ توحید کے بنیادی اصول یہی ہیں کہ ایمان کا ضیاع کفر اور شرک سے ہوتا ہے، نہ کہ معصیت سے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ
بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔
(النساء 48)

اس سے واضح ہوا کہ گناہ کبیرہ ایمان کو ختم نہیں کرتے، بلکہ انسان کو فاسق اور عاصی بنا دیتے ہیں۔ خوارج نے اس کے برعکس عقیدہ گھڑا کہ کبیرہ ایمان کو ضائع کر دیتا ہے، جبکہ یہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔

سابقہ امتوں میں بھی کچھ لوگوں نے اپنے گناہوں کو حلال قرار دیا اور یوں کفر میں مبتلا ہو گئے، جیسے بنی اسرائیل نے سود اور نافرمانی کو اپنے لیے جائز کر لیا۔ یہی رویہ آج بھی بدعتی اور گمراہ فرقوں میں موجود ہے کہ گناہ کو دین کا حصہ یا مباح سمجھتے ہیں، جو حقیقتاً ایمان کے زوال کا سبب ہے۔

اسی لئے چوری کی حد ہاتھ کاٹنا ہے مرتد قرار دینا نہیں اسی طرح زنا کی حد کوڑے یا سنگساری ہے مرتد نہیں یعنی زانی جب زنا کرتا ہے تو اس وقت کامل مومن نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہ ایمان کے کمال کو کم کرتے ہیں، لیکن اصل ایمان کو ختم نہیں کرتے جب تک کہ گناہ کو حلال نہ سمجھا جائے۔

لہذا کبیرہ گناہ ایمان کو کمزور کرتے ہیں مگر ختم نہیں کرتے۔ ایمان کی حفاظت کے لیے توبہ، استغفار اور اللہ کی طرف رجوع ضروری ہے، اور توحید پر قائم رہنے والا شخص گناہوں کے باوجود دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا جب تک صریح کفر و شرک نہ کرے۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔