|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کیا شبِ برات میں قبروں پر جانا مشروع ہے؟

شبِ برات ایک خود ساختہ رات ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی خاص حکم قبروں پر جانے کے متعلق وارد نہیں ہوا۔ قبروں کی زیارت عام طور پر مشروع ہے تاکہ انسان آخرت کو یاد کرے، جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا
كنتُ نَهَيْتُكُمْ عن زيارةِ القبورِ، ألا فزوروها فإنها تُذكِّرُ الآخرةَ
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
(صحیح مسلم 977)

لیکن کسی مخصوص رات، جیسے شبِ برات کو قبروں پر جانا اور اسے دینی شعائر کی صورت دینا نبی ﷺ اور صحابہ کرامؓ سے بالکل ثابت نہیں۔
قرآن میں فرمایا کہ
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ
کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں وہ چیز مقرر کی جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟
(الشورى 21)

اس سے معلوم ہوا کہ دین میں کسی خاص رات کو مخصوص عمل مقرر کرنا بدعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ نے شبِ برات پر قبروں پر جا کر عبادت یا دعا کو خاص نہیں کیا، لہٰذا ایسا کرنا دین میں اضافہ ہے جو قابلِ رد ہے۔

قبروں کی زیارت عام دنوں میں مشروع ہے، مگر شبِ برات میں اسے مخصوص عبادت سمجھ کر جانا بدعت ہے۔

مزید سوال کریں / اپنی رائے دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔