خلافتِ راشدہ پر اعتراض کرنا کہ صحابہ کرامؓ کی نیت اور حقانیت کو جھٹلایا جائے، تو یہ کفر کی حد تک جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ
اور جو بڑے گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں، اور جب وہ غضب میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں
(الشورى: 37)
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰى لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌ
یہ وہی لوگ ہیں کہ اللہ نے تقویٰ کی خاطر ان کے دلوں کا امتحان لیا ہے، (لہذا) ان کے لیئے مغفرت ہے، اور بڑا اجر وثواب ہے۔
(الحجرات: 3)
یہ آیات اصولِ عدالت اور صبر کی اہمیت بتاتی ہیں، اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ اجماع کی روشنی میں خلافت کو قبول کرنا ایمان کی علامت ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
لا تسبوا أصحابي
میرے صحابہ کو برا نہ کہو۔
(صحیح بخاری، حدیث 3673)
چونکہ خلافتِ راشدہ کا آغاز صحابہ کرامؓ کے اتفاق اور نبی ﷺ کی ہدایت کے مطابق ہوا، اس پر اعتراض کرنا اگر صحابہ کی توہین یا حقانیت کو جھٹلانے کے مقصد کے ساتھ ہو تو حق کے خلاف ہے۔ لہٰذا اصل رہنمائی یہی ہے کہ خلافتِ راشدہ کو حق قبول کیا جائے، اور صحابہ کرامؓ کے مقام کو نظر انداز یا برا نہ کہا جائے۔