نہیں، “امام” معصوم نہیں ہوتا۔ اسلام میں معصوم صرف انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچاتا ہے اور وحی کے ذریعے ہدایت عطا کرتا ہے۔ انبیاء کے بعد کسی شخص کو معصوم کہنا قرآن و سنت، صحابہؓ کے فہم، اور توحید کے اصولوں کے خلاف ہے۔ فرمایا کہ
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ ٱلرُّسُلُ ۚ أَفَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ ٱنقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَـٰبِكُمْ﴾
“محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں، ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ کیا اگر وہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم اپنے دین سے پلٹ جاؤ گے؟”
(سورۃ آل عمران: 144)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نبی ﷺ کے بعد کوئی ایسا فرد باقی نہیں جس کی اطاعت معصومانہ درجہ رکھے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي”
“تم پر میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے”
(سنن ابی داود، حدیث: 4607)
یہاں خلفاء کی سنت کی پیروی کا حکم ہے، مگر انہیں معصوم نہیں کہا گیا۔ اگر وہ معصوم ہوتے تو سنتِ نبوی کے ساتھ برابر ذکر نہ آتا، بلکہ اسی کو تنہا معیار قرار دیا جاتا۔
خلفاء راشدینؓ نے کبھی اپنی بات کو معصومانہ نہیں سمجھا، ہر اہم معاملے میں مشورہ کیا، اپنی رائے واپس لی، دوسرے کو ترجیح دی۔
بعض گمراہ فرقے (خصوصاً غالی شیعہ) کہتے ہیں کہ علیؓ اور ان کی نسل کے امام معصوم ہیں۔ وہ خطا، نسیان، یا گناہ سے پاک ہیں ان کی اطاعت فرض اور انکار کفر ہے
یہ تمام عقائد نہ قرآن میں ہیں، نہ حدیث میں، نہ صحابہؓ کے فہم میں۔ یہ عقائد اصل میں نصرانیوں کے “پادری معصوم” عقیدے سے مشابہ ہیں، جو اسلام کے توحید کے تصور کو تباہ کرتے ہیں۔
لہذا اسلام میں امام یا خلیفہ معصوم نہیں ہوتا۔ وہ ایک بشر، خطا کا امکان رکھنے والا انسان ہے۔ اس کی اطاعت مشروط اور قرآن و سنت کے تابع ہے، نہ کہ اس کے برابر یا اس سے بالا۔ جو امام کو معصوم مانے، وہ عقیدہ ختمِ نبوت، صحابہؓ کی روش، اور اسلامی توحید سے انحراف کرتا ہے۔