قرآنِ مجید مؤمن مردوں اور عورتوں کو آخرت کی حقیقی کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے، اور ان کے ایمان، اعمال، تقویٰ اور صبر کے بدلے ابدی نعمتوں کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ وعدہ اللہ کی رحمت، عدل اور وفا کا مظہر ہے، جو ہر سچے مؤمن کے دل کو تسلی اور عزم عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ جَنَّـٰتٍۢ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا وَمَسَـٰكِنَ طَيِّبَةًۭ فِى جَنَّـٰتِ عَدْنٍۢ ۚ وَرِضْوَٰنٌۭ مِّنَ ٱللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
اللہ نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں سے وعدہ فرمایا ہے ایسی جنتوں کا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور پاکیزہ رہائش گاہوں کا جنتِ عدن میں۔ اور اللہ کی رضا ان سب سے بڑی ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
(سورہ التوبہ 972)
یہ آیت بتاتی ہے کہ
مؤمنین کو جنت کی دائمی نعمتیں عطا ہوں گی، ان کے لیے پاکیزہ، باعزت رہائش ہوگی۔ اور سب سے بڑھ کر، اللہ کی رضا ان کے حصے میں آئے گی، جو جنت کی ہر نعمت سے افضل ہے۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہؓ نے اسی وعدے کو مقصدِ حیات بنا لیا تھا۔ بلالؓ، خبابؓ، اور سمیہؓ جیسے صحابہؓ نے انتہائی سختیوں میں بھی دین پر ثابت قدمی اسی وعدے کی امید میں دکھائی۔
آج کے مؤمن کے لیے بھی یہ آیت ایک پیغام ہے ایمان، صبر، تقویٰ، اور اطاعت کی راہ بظاہر مشکل ہو سکتی ہے، مگر اس کا انجام اللہ کی رضا اور دائمی جنت ہے۔ دنیا کی وقتی قربانیوں کے بدلے اللہ نے عظیم کامیابی کا اٹل وعدہ کیا ہے، اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ پس، ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی رضا کو اپنا اصل ہدف بنائیں، اور ایمان و عمل صالح کے راستے پر ثابت قدمی اختیار کریں، تاکہ ہم بھی اس عظیم کامیابی کے حق دار بن سکیں۔