Video Short Clips
اللہ رب العزت نے اپنی کتاب مقدس میں اپنے آخری نبی ﷺ سے یہ اعلان کروایا کہ (اے نبی ﷺ) کہو کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے، ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں، اور (ان ہدایات پر بھی) ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں، ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ ساتھ ہی فرمایا کہ
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ
جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا ۔(آل عمران-85)
اس دین کواللہ نے نازل کیا ہے یہ دین تمام ادیان پر غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ فرمایا
كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ
اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے، بیشک اللہ ہی قوی و عزیز ہے ۔(المجادلہ-21)
اسی دین کو غالب کرنے کے لئے انبیاء کرامؑ آتے رہے۔اور انکے مقابلے میں قوم اپنا دین منوانے کے لئے سر توڑ کوشش کرتے رہتے۔
دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر دور میں لوگوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر اپنے اپنے گھڑے ہوئے دین قائم کیے۔ فرعون، قارون، ہامان، نمرود، سامری اور مسیلمہ کذاب نے اپنے اپنے باطل دین کو منوانے کے لیے لڑائیاں کیں، خون بہایا اور فتنہ فساد برپا کیا۔ یہی روش آج بھی مختلف فرقوں اور شخصیات کے ماننے والوں میں موجود ہے، جو اپنے اپنے دین کو اصل سمجھ کر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ کبھی دیوبندی کا دین، کبھی بریلوی کا، کبھی اہلحدیث یا اہل قرآن کا دین، کبھی اہل تشیع یا کسی امام و پیشوا کا دین۔ یہی روش مرزا غلام احمد قادیانی کا دین، آیت اللہ خمینی کا دین ، احمد رضا بریلوی کا دین ، یہی قاسم نانوتوی اور عبدالوھاب نجدی کے پیروکاروں میں بھی نظر آتا ہے۔ مقصد ایک ہی رہا: اللہ کے خالص دین کو پسِ پشت ڈال کر اپنی راہ کو دین بنانا اور اسی پر دوسروں کو مجبور کرنا۔
قرآن بیان کرتا ہے کہ فرعون نے کہا
وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰى وَلْيَدْعُ رَبَّهٗ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّبَدِّلَ دِيْنَكُمْ اَوْ اَنْ يُّظْهِرَ فِي الْاَرْضِ الْفَسَادَ
اور فرعون نے کہا: مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور وہ اپنے رب کو پکارے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا زمین میں فساد پھیلائے گا۔(غافر :26)
اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے اعلان کیا
لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ
تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔(الکافرون: 6)
:اور اللہ نے فیصلہ کر دیا کہ
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کرے، اور اللہ گواہ ہی کافی ہے۔(الفتح 28)
پس اصل دین صرف اللہ کا دین ہے، باقی سب انسانوں کے گھڑے ہوئے باطل مذاہب ہیں جو ہمیشہ سے فتنہ و فساد کا سبب رہے ہیں۔ یہی فرمایاکہ
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُه ٗ ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِاَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُوْنَ لِيَجْزِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ
پس اپنا رخ دین قیم کی طرف سیدھا رکھیئے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے، اس دن یہ لوگ جدا جدا ہوجائیں گے ۔ جس نے کفر کیا ہے اس کا کفر اسی پر پڑے گا، اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے، وہ اپنے لیے ہی راستہ بنا رہے ہیں۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو اللہ اپنے فضل سے بدلہ دے گا بیشک وہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا ۔(الروم-43تا45)
:دین قیم کا حامل اللہ کے مقابلے میں غیر اللہ کے احکام نہیں مانتا
قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
کہہ دیجیے! بے شک میرے رب نے مجھے سیدھے راستے کی ہدایت دی ہے، قائم دین کی، ابراہیم کے طریقے کی جو ہر باطل سے الگ تھلگ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (الانعام-161)
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
جب اس کے رب نے اس سے کہا مسلم ہوجا تو اس نے کہا: میں نے رب العالمین کا مسلم ہوں۔ (البقرہ-131)
لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ
اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی سیدھا دین(دین قیم) ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (الروم-30)
وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ
حالانکہ انہیں حکم یہی دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھتے ہوئے یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور یہی سیدھا اور مضبوط دین ہے۔ (البینہ-5)
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَـقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں ایسے احکام مقرر کر دیے جن کی اللہ نے کوئی اجازت نہیں دی؟ اور اگر فیصلے کی ایک بات پہلے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا، اور بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (الشوریٰ-21)
فرق دین قیم اور دین ابن قیم
دین قیم
(مرنےکے بعد جسم میں قیامت سے پہلے روح نہیں آتی،مردے، زندے برابر نہیں ،مردہ نہ سنتا ،نہ دیکھتا ،نہ کسی چیز کا ادراک رکھتا ہے۔)
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ
پھر یقیناً تم اس کے بعد مرنے والے ہو، پھر بے شک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ (المومنون-12تا16)
وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ
اور وہ ان کی پکار سے غافل ہیں۔ (الاحقاف-5)
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـــعُ الصُّمَّ الدُّعَاۗءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ
بے شک آپ (ﷺ) مردوں کو نہیں سنا سکتے، اور نہ بہروں کو پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر چلے جا رہے ہوں۔ (النمل-80)
اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ۔۔۔
اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار کو نہیں سن سکتے۔ (الفاطر-14)
وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ
اور زندہ اور مردہ برابر نہیں، اللہ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ (ﷺ) قبروں میں پڑے لوگوں کو نہیں سنا سکتے۔ (الفاطر-22)
دین ابن قیم
(مرنےکے بعد جسم میں روح لوٹا دی جاتی ہے ،مردہ سنتا ہے ،دیکھتا ہے،مانوس ہوتا ہے،سلام کا جواب دیتا ہے۔)
اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے ۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر96اور 97-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
اگر کوئی مُردوں کے قریب نماز پڑھتا ہے تو وہ اسے دیکھتے ہیں اور انہیں نماز کی خبر ہو جاتی ہے۔ اور اس پر نماز کی وجہ سے رشک کرتے ہیں۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 44-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
مردہ دفن کئے جانے کے بعد جنازے میں شریک ہونے والوں سے مانوس ہوتا ہے۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر46-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
یہ امر صحیح ہے کہ ہمارے نبی ﷺ عمدہ طریقے سے اس شخص کے سلام کا جواب دیتے ہیں جو آپ کو سلام کہتا ہے۔
(الکافیہ الشافیہ فی الانتصار للفرقہ الناجیہ:صفحہ نمبر161:از ابن قیم)
دین قیم
(لوگوں کے تمام کے تمام اعمال اللہ ہی کی طرف پلٹائے جاتے ہیں)
وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ
اور تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (آل عمران-109)
اَلَآ اِلَى اللّٰهِ تَصِيْرُ الْاُمُوْرُ
خبردار! تمام امور اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔ (الشوری-53)
وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ۔۔۔
اور اسی کی طرف تمام کے تمام معاملات لوٹائے جاتےہیں۔ (ھود-123)
دین ابن قیم
(مردوں پر زندوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ،ہمارادرود و سلام نبی ﷺ پر پیش کیا جاتا ہے)
مردوں کو اپنے زندہ عزیز و اقارب کے عملوں کی بھی خبر رہتی ہے۔۔۔۔زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کئے جاتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں تو خوش ہوتے ہیں اور کِھل اٹھتے ہیں ورنہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ انہیں برےعملوں سے بچا۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 42-43-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
دین قیم
(ایصال ثواب نہیں ہوتا)
اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى وَاَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى
کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی، اور اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ (النجم-38تا40)
كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ
ہر شخص اپنے کیے ہوئے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ (الطور-21)
وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ ۭ ۔۔۔
اور جو جہاد کرتا ہے تو وہ دراصل اپنی ہی جان کے فائدے کے لیے جہاد کرتا ہے۔ (العنکبوت-6)
كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ
ہر جان اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ (المدثر-38)
اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
تمہیں صرف وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم عمل کرتے تھے۔ (الطور-16)
نوٹ!(اِنَّمَا)کامفادحصرہےاورحصر(ہی) کا فائدہ ہے۔اسکا زور كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ پر ہے۔
دین ابن قیم
(ایصال ثواب ہوتا ہے)
اگر کوئی شخص نیک عمل مثلاً نماز پڑھے یا صدقہ کر ے یا کوئی اور عمل نیک کرے اور اسکا آدھا ثواب اپنے والد کو یا والدہ کو بخش دے تو مردے کو ہر عمل کا ثواب ملتا ہے ۔نیز فرمایا کہ تین بار کہ تین بار آیتہ الکرسی اور سورۃ اخلاص پڑھ کر دعا مانگو کہ اللہ ان کا ثواب مُردوں کو پہنچا دے۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 198-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
بعض اہل کلام بدعتیوں کے نزدیک کسی بھی عمل کا ثواب نہیں پہنچتا۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 198-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
دین قیم
(دو زندگیاں اور دو موتیں ہیں ،نہ ہی اس دنیاوی جسم سے سوال ہوتے ہیں نہ ہی اس دنیاوی قبر میں عذاب و راحت ہوتی ہے۔)
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ
پھر اس کے بعد تم مرنے والے ہو، اور پھر قیامت کے دن تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔ (المومنون-12تا16)
اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ۔۔۔
اللہ ہی ہے جو جانوں کو وفات دیتا ہے موت کے وقت، اور جو نہیں مری انہیں نیند میں۔ پھر جس پر موت کا فیصلہ کر چکا اسے روک لیتا ہے، اور باقی کو ایک مقرر وقت تک واپس بھیج دیتا ہے۔ (الزمر-42)
كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر وہ تمہیں مارے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ-28)
قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ
وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو بار مارا اور دو بار زندہ کیا، تو ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا، تو کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ (المومن-11)
وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ
اور ان کے پیچھے ایک برزخ ہے، اس دن تک کہ جب وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (المومنون-100)
دین ابن قیم
(روح لوٹ آتی ہے،اسی قبر میں سوال ہوتے ہیں،قبر دبوچتی اور اسی قبر میں عذاب و راحت ہوتی ہے۔)
(مرنے کے بعد)روح اسکے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 198-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
اسی قبر میں سوال ہوتے ہیں۔قبر دبوچتی ہے۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 110-112-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
ایک مزدور کا واقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔(کتاب الروح صفحہ نمبر 82)
ایک معتبر شخص کا بیان ۔۔۔۔۔(کتاب الروح صفحہ نمبر126)
کسی کی بچی کا واقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔(کتاب الروح صفحہ نمبر 132)
ایک عورت کا واقعہ ۔۔۔۔۔۔۔(کتاب الروح صفحہ نمبر 291)
ایک کفن چور کا واقعہ۔۔۔۔۔۔(کتاب الروح صفحہ نمبر 130)
جانوروں کے پیٹ کے درد کا علاج بعض علماء کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے جب جانوروں کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو لوگ انہیں یہودیوں ،عیسائیوں اور منافقوں (جیسے (اسماعیلی،نصیریہ) قرامطہ وغیرہ جو مصر و شام میں رہتے ہیں ) کی قبروں پر لے جاتے ہیں ۔جب جانور خصوصاً گھوڑے قبر کا عذاب سنتے ہیں تو اس سے بوکھلا کر بدکتے ہیں اور ان کے پیٹ کا درد جاتا رہتا ہے۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر110-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
دین قیم
(شعائر اللہ کی بے حرمتی جائز نہیں ہے)
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ
اے ایمان والو! اللہ کی نشانیوں کو حلال نہ ٹھہراؤ (یعنی ان کی بے حرمتی نہ کرو اور ان کا تقدس پامال نہ کرو)۔ (المائدہ-2)
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ
اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ میں سے ہے۔ (الحج-32)
دین ابن قیم
(شعائر اللہ کی بے حرمتی کی گئی)
سائل نے پوچھا کہ نبی ﷺ کا حجرہ افضل ہے یا کعبہ ؟کہا اگر تمہاراس ارادہ خالی حجرہ ہے تو پھر کعبہ افضل ہے ۔اگر تمہاری مراد وہ ہے جو اس میں ہے (یعنی رسول اللہ ﷺ جہاں پر مدفون ہیں )تو پھر اللہ کی قسم نہ عرش افضل ہے ،نہ اسکے تھامنے والے فرشتے نہ جنت عدن اور نہ ہی پوری دنیا۔اگر حجرے کا وزن جسد کے ساتھ کیا جائے تو وہ تمام کائنات اور جو کچھ اس میں ہے اس سے افضل ہو گا۔
(بدائعُ الفوائد:جلد3:صفحہ نمبر 1065؛از ابن قیم)
دین قیم
( تعویذ شرک ہے)
وَتَوَكَّلْ عَلَي الْـحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ۔۔۔۔
اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہیں مرے گا۔(فرقان-58)
وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ
اور اہل ایمان کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران-122)
إِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْکٌ
بیشک تعویذ، گنڈے تَوِلہ (منتر) وغیرہ سب شرک ہیں۔ (سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 493 )
مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ
جو شخص تعویذ لٹکاتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔( مسند احمد:جلد ہفتم:حدیث نمبر 573)
دین ابن قیم
(تعویذ شرک نہیں ہے)
بخار کا تعویذ ۔۔۔،ولادت کا تعویذ ۔۔۔،نکسیر کا تعویذ۔۔۔
(زاد المعاد؛حصہ سوئم:صفحہ نمبر 572-573-نفیس اکیڈمی کراچی)
دین قیم
(روح کی تحقیق میں جانے کی ممانعت)
وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا
اور یہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے، اور تمہیں تو علم میں سے بہت ہی تھوڑا دیا گیا ہے۔)بنی اسرائیل-85)
دین ابن قیم
(روح کے بارے میں بلا دلیل پیچیدگیاں)
اجسام سے زیادہ ان میں تشخص و امتیاز ہے۔بلکہ کبھی کبھی اجسام میں تو مشابہت پائی جاتی ہے مگر ارواحوں میں قطعی مشابہت نہیں۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر93)
روحیں جنت میں ہونے کے باوجود آسمان پر بھی ہوتی ہیں اور قبر کے پاس بھی ہوتی ہیں قبر والے بدن میں بھی ہیں۔یہ اترنے چڑھنے میں انتہائی تیز رفتار ہیں۔روحیں زاد بھی ہیں محبوس بھی ہیں علوی بھی ہیں اور سفلی بھی۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 197-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
دین قیم
(علیین و سجین اعمال ناموں کے دفتر ہیں)
كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّيْنٍ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سِجِّيْنٌ كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ
یقیناً نیکوکاروں کا نامۂ اعمال علیِّین میں ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ علیِّین کیا ہے؟ وہ بھی ایک لکھا ہوا دفتر ہے۔
(المطففین-7تا9)
كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ
یقیناً نیکوکاروں کا نامۂ اعمال علیِّین میں ہے۔ اور آپ کو کیا معلوم کہ علیِّین کیا ہے؟ وہ بھی ایک لکھا ہوا رجسٹر ہے۔
(المطففین-18تا20)
دین ابن قیم
(علیین و سجین اعمال روحوں کے مقام ہیں)
علیین اورسجین روحوں کے مقام ہیں ۔۔۔ان میں روحیں ہوتی ہیں ۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر 168 اور 187-نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)
دین قیم
(اللہ مردوں کی روحوں کو قیامت تک کے لئے روک لیتا ہے ، زندوں اور مُردوں کی روحوں میں ملاقات نہیں ہوتی۔)
وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ
اور ان کے پیچھے ایک پردہ (رکاوٹ،آڑ، برزخ) ہے، اس دن تک کہ جب وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ (المومنون-100)
لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
بیشک تمہارے آپس کے سب تعلقات ٹوٹ گئے اور وہ سب کچھ غائب ہوگیا جس کا تم گمان رکھتے تھے۔ (الانعام-94)
دین ابن قیم
(زندوں اور مُردوں کی روحیں آپس میں ملاقات کرتیں ہیں)
زندوں اور مُردوں کی روحوں میں ملاقات ہوتی ہے۔۔۔۔ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں ۔۔۔۔مذاکرہ کرتی ہیں۔
(کتاب الروح صفحہ نمبر67)
ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَاۗءِ حَاجَجْتُمْ فِيْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاۗجُّوْنَ فِيْمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
دیکھو! تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ان چیزوں میں جھگڑا کیا جن کا تمہیں کچھ علم ہے، پھر ان باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں؟ حالانکہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(آل عمران-66)
دین قیم
(الزام تراشی حرام ہے۔)
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ گھڑے تاکہ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرے؟ بےشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الانعام-144)
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
بےشک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بےحیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔ (النور-19)
دین ابن قیم
(اللہ اور اسکے رسول داؤد علیہ السلام پر الزام تراشی۔)
عاشق کا نکاح معشوق سے کرادینے سے بہتر عشق کی کوئی دوا نہیں۔ اس مرض کی یہ دوا اللہ تعالی ٰ نے از رو شرع و قدر مقرر کردی ہے۔یہ دوا اللہ تعالیٰ کے پیغمبر داؤد علیہ اسلام نے بھی کی کہ حرام سے احتراز کرتے ہوئے نکاح سے کام لیا۔کسی عورت سے محبت ہوگئی تو اسے اپنے نکاح میں لے لیا۔
(دوائے شافی:صفحہ نمبر 559:از ابن قیم)
یہ ایک جھوٹا و اسرائیلی روایت پر مبنی واقعہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ اللہ کے نبی داؤد ؑ کی شان میں بدترین گستاخی ہے اور ان پر ایک بڑی تہمت ہے ۔لیکن موصوف ابن قیم نے عورتوں سے عشق ہوجانے کے استدلال میں اس کو پیش کیا ہے، اور کہہ دیا کہ اس مرض کی یہ دوا اللہ تعالی ٰ نے از رو شرع و قدر مقرر کردی ہے۔(العیاذباللہ)
لہذا نجات اور تقویٰ صرف اللہ کے بتائے ہوئے ایک سیدھے راستے (صراطِ مستقیم) میں ہے، اور جو لوگ فرقہ واریت، بدعات یا باطل نظریات کی راہوں پر چلتے ہیں وہ اصل دین سے بکھر جاتے ہیں۔
وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے، سو اسی کی پیروی کرو، اور دوسری راہوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستے سے الگ کر دیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ (الانعام-153)
وماعلینا الاالبلاغ المبین
Download PDF