غسل اور تیمم اسلامی عبادات کے لیے بہت اہم ہیں، اور ان کا حکم اور طریقہ قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ان دونوں طریقوں کو صحیح طریقے سے جانے اور عمل کرے تاکہ اس کی عبادات کو مکمل اور صحیح طریقے سے ادا کیا جا سکے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ۭ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
اے ایمان والو ! صلوۃ کےقریب نہ جاؤ جب کہ تم نشے کی حالت میں ہو یہاں تک کہ جو تم کہ رہے ہو اُسے جان لو اور نہ جنابت (ناپاکی) کی حالت میں (صلوۃکے قریب جاؤ) سوائے اِس کے کہ تم راستہ عبور کر نے والے ہو یہاں تک کہ تم غسل کرلو اور اگرتم بیمار ہو یاسفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آئے یا تم نے بیویوں سے صحبت کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹّی سےتیمّم کرلیا کرو پس اپنے چہروں اور ہاتھوں کامسح کرلیا کرو بے شک اللہ بہت معاف فرمانے والا بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
(النساء – 43)
عائشہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنابت کا غسل فرماتے تو شروع میں دونوں ہاتھ دھوتے، پھر وضو کرتے، جس طرح کہ نماز کے لیے وضو فرماتے تھے، پھر اپنی انگلیوں کو پانی میں ڈالتے اور اس سے بالوں کی جڑ میں خلال کرتے، پھر اپنے سر پر دونوں ہاتھوں سے تین چلو ڈالتے، پھر اپنے سارے جسم (مبارک) پر پانی بہاتے۔
صحیح بخاری:جلد اول:غسل کا بیان:حدیث نمبر 249
غسل پانی سے پورے جسم کی صفائی ہے اور یہ جنابت، حیض، نفاس یا موت کے بعد فرض ہوتا ہے۔
تیمم پانی کی عدم دستیابی یا پانی کے استعمال سے صحت کو خطرہ ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے اور اس میں مٹی سے ہاتھ مار کر چہرہ اور ہاتھ صاف کیے جاتے ہیں۔
دونوں کا صحیح طریقے سے کرنا ضروری ہے تاکہ صلوۃ اور دیگر عبادات کی حالت طہارت میں رہ کر کی جا سکیں۔