غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین کا رویہ مسلمانوں کی صفوں میں کمزوری، سستی اور بہانے بازی کی واضح مثال تھا۔ قرآنِ مجید نے نہایت وضاحت سے ان کی چالاکیوں اور دوغلے پن کو بے نقاب کیا، تاکہ اہلِ ایمان ہوشیار رہیں اور ان کی چالوں سے بچ سکیں۔
:نفاق، سستی اور بہانے بازی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَرِحَ ٱلۡمُخَلَّفُونَ بِمَقۡعَدِهِمۡ خِلَٰفَ رَسُولِ ٱللَّهِ وَكَرِهُواْ أَن يُجَٰهِدُواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ وَأَنفُسِهِمۡ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ
پیچھے رہ جانے والے (منافق) اس بات پر خوش ہوئے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف پیچھے بیٹھے رہے، اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنا انہیں ناگوار لگا۔
(سورہ التوبہ 81)
یہ آیت بتاتی ہے کہ منافقین نے گرمی، لمبے سفر، اور وسائل کی کمی کو بہانہ بنا کر جہاد سے انکار کیا، اور وہ اپنے پیچھے رہ جانے پر خوش بھی تھے
:مذاق اور تحقیر کا رویہ
لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالٗا لَّٱتَّبَعۡنَٰكُمۡۗ
!اگر ہمیں واقعی لڑائی کا یقین ہوتا تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے
(سورہ التوبہ 45)
یہ ان کا بہانہ تھا، حالانکہ دل میں وہ جہاد سے نفرت کرتے تھے۔
:مسجدِ ضرار کی تعمیر
منافقین نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور اندرونی سازش کے لیے ایک الگ مسجد مسجدِ ضرار بنائی، جسے اللہ نے فتنہ اور ضرر کا مرکز قرار دیا
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مَسۡجِدٗا ضِرَارٗا وَكُفۡرٗا وَتَفۡرِيقَۢا بَيۡنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ
اور (ان میں سے) وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے، کفر اور اہل ایمان میں تفرقے کے لیے…
(سورہ التوبہ 107)
غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین کا کردار دوغلا، سازشی، اور کمزور تھا۔ انہوں نے جہاد سے بچنے کے لیے جھوٹے عذر تراشے، مسلمانوں کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش کی، اور خود کو دین کی خدمت سے علیحدہ کر لیا۔ قرآن نے ان کے اس رویے کی مذمت کر کے ہمیں خبردار کیا کہ دین کے کام میں کوتاہی، عذر سازی، اور دل کی کمزوری نفاق کی علامتیں ہیں۔ اہلِ ایمان کا راستہ خلوص، قربانی، اور اطاعت کا ہے، نہ کہ پیچھے ہٹنے یا حیلے بہانے بنانے کا۔