صلاۃ اسلام کا وہ عظیم رکن ہے جسے قرآن و سنت میں بار بار اجاگر کیا گیا ہے اور جس کی اقامت کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا گیا ہے۔ صلاۃ محض عبادت نہیں، بلکہ ایک بندے کے دل و دماغ، جسم و روح اور زندگی و معاشرت کا ایک جامع مظہر ہے۔ قرآن مجید میں سب سے زیادہ جس حکم کا تکرار کے ساتھ ذکر آیا ہے، وہ صلاۃ ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے کہ
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي
اے میرے رب! مجھے صلاۃ قائم کرنے والا بنا دے اور میری اولاد میں سے بھی۔ (ابراہیم: 40)
صلاة کا مقام اتنا بلند ہے کہ قرآن مجید نے صلاۃ کو نہ صرف دین کا رکن قرار دیا بلکہ فلاح، نجات، تقویٰ، ذکر، صبر اور نصرتِ الٰہی کا ذریعہ بھی بتایا۔ اللہ نے فرمایا کہ
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
اور صلاۃ قائم کرو، بے شک صلاۃ بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ (العنکبوت: 45)۔
گویا صلاۃ صرف عبادت نہیں بلکہ ایک تہذیبی و اخلاقی تربیت کا نظام ہے جو انسان کو فحاشی اور برائی سے باز رکھتا ہے۔ صلاۃ نہ ہو تو دل گناہوں سے کالا ہو جاتا ہے، اور جب صلاۃ پابندی سے قائم ہو تو دل صاف، روح منور اور زندگی متوازن ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صلاۃ کو دین کی بنیاد قرار دیاہے اور اس کی فرضیت کو صاف الفاظ میں بیان کیا ہے
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ
اور صلاۃ قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(البقرہ:43)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ صلاۃ صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ اجتماعی فریضہ بھی ہے۔
صلوة کی فرضیت کا حکم معراج کی رات براہ راست اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو دیا جیسا کہ صحیح بخاری حدیث 349 میں ہے کہ معراج کی رات اللہ نے پچاس صلوات فرض کیں پھر تخفیف کے بعد پانچ رہ گئیں مگر ان کا اجر پچاس کا ہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صلاۃ دین اسلام میں کس قدر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
سورۃ النساء آیت 103 میں ارشاد ہے
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا
بے شک صلاۃ اہل ایمان پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ صلاۃ کا ہر وقت متعین ہے اور اسے ٹالنا یا مؤخر کرنا جائز نہیں۔
صلاة ایمان کی علامت ہے جیسا کہ سورۃ الانفال آیت 2 اور 3 میں فرمایا گیا
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ
مومن تو بس وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دل کانپ اُٹھتے ہیں اور جب اُن پر اس (اللہ) کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو یہ (آیات) اُن کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر ہی بھروسا کرتے ہیں۔جو صلاۃ قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں عطا کیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں،
سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب مؤمنین کی صفات گنوائیں جن میں سب سے پہلی صفت خشوع کے ساتھ صلاۃ پڑھنا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
ایمان والے یقیناً فلاح پا گئے جو اپنی صلوات میں خشوع کرنے والے ہیں۔
صلوة اللہ کے ذکر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جیسا کہ سورۃ طٰہٰ آیت 14 میں فرمایا
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری عبادت کرو اور میرے ذکر کے لیے صلاۃ قائم کرو
اہل ایمان ہی صلاۃ قائم کرنے کے اہل ہیں کیونکہ صلاۃ ایمان کے بغیر قبول نہیں جیسا کہ سورۃ التوبہ آیت 71 میں فرمایا
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ
مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں برائی سے روکتے ہیں اور صلاۃ قائم کرتے ہیں
صلوة جنت میں داخلے کا سبب ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم حدیث 1 میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کے ستونوں میں سب سے اہم صلاۃ ہے اور جواپنے ایمان کو شرک سے پاک کر کے صلاۃ قائم رکھے گا جنت میں داخل ہوگا۔ان شاءاللہ
سورۃ العنکبوت آیت 45 میں صلاۃ کے اثرات بیان ہوئے ہیں
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور صلاۃ قائم کریں بے شک صلاۃ بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔
صلوة قبر کے عذاب سے بچاتی ہے اور آخرت میں روشنی بنے گی جیسا کہ صحیح مسلم حدیث 768 میں آیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے صلاۃ کا حساب لیا جائے گا۔
صلوة کا ترک کرنا منافقوں کی نشانی ہے سورۃ النساء آیت 142 میں فرمایا
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا
بےشک منافقین اللہ کو دھو کا دینا چاہتے ہیں اور وہ (اللہ) اُنھیں (ان کے) دھوکے کی سزا دینے والاہے اور جب وہ نمازکے لیے کھڑے ہو تے ہیں (تو) سُستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں لوگوں کو دکھاوا کرتے ہوئے اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ صلاۃ کی حفاظت کرتے ہیں جیسا کہ سورۃ المعارج آیت 34 میں فرمایا
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
اور وہ جو اپنی صلاۃ کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
صلوة تمام انبیاء کی شریعت کا حصہ رہی ہے جیسا کہ سورۃ مریم آیت 31 میں عیسیٰ علیہ السلام کے قول کا ذکر ہے
وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا
اور اس نے مجھے صلاۃ اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک میں زندہ ہوں۔
صلاة برکت اور رزق کے اسباب میں سے ہے جیسا کہ سورۃ النور آیت 56 میں فرمایا
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
صلاة قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
صلاة کا ترک کرنا آخرت میں وبال کا سبب ہے۔ سورۃ المدثر آیت 42 اور 43 میں مجرم جہنمی کہیں گے
لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ
ہم صلاۃ پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔
صلاة اہل ایمان کو اللہ سے جوڑتی ہے اور گناہوں کو دھوتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری حدیث 528 میں آیا کہ پانچ صلوات ایسے ہیں جیسے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرے
صلاة کا ہر رکن اللہ کی اطاعت کا عملی مظاہرہ ہے اور یہ بندے کو عاجزی سکھاتی ہے رکوع اور سجدہ دراصل اللہ کے سامنے جھکنے کا اعلان ہیں۔
صلاة کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے وفات کے وقت بھی صلاۃ کی وصیت فرمائی صحیح ابن ماجہ حدیث 1625 میں ہے
الصلاة الصلاة وما ملكت أيمانكم
صلاۃ صلاة اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھو۔
اہل ایمان ہی صلاۃ قائم کرنے والے ہیں کیونکہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اخلاص سے اس کی عبادت کرتے ہیں منافق یا کافر کی صلاۃ قبول نہیں ہوتی جب تک وہ ایمان نہ لائے۔
صلاة وہ عمل ہے جو دین کے باقی ارکان کو مضبوط کرتا ہے اور ایمان کی جڑوں کو گہرا کرتا ہے یہ ایمان کی علامت اور فلاح کا راستہ ہے اور ہر مؤمن کو اس کی پابندی کرنی چاہیے جیسا کہ قرآن اور سنت نے بار بار تاکید فرمائی ہے۔
صلاة کی روح ذکر الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (طٰہٰ: 14)۔
یہ ذکر محض زبانی تسبیح یا دعائیہ کلمات نہیں بلکہ ایک ایسا مکمل عمل ہے جس میں دل کی حاضری، زبان کی پاکیزگی، آنکھوں کی حیا، جسم کی تابع داری اور روح کی حیات شامل ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا
جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ(سنن نسائی: 3940)
یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک صلاۃ میں رکھی گئی ہے۔ جو دل صلاۃ سے جُڑ گیا، وہ دنیا کی فتنہ انگیزی سے محفوظ ہو گیا۔
قیامت کے دن صلاۃ ہی وہ پہلا عمل ہوگا جس کا حساب لیا جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا
إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَحَتْ صَلَحَ سَائِرُ عَمَلِهِ(سنن ابوداؤد: 864)۔
اگر صلاۃ درست نکلی تو باقی اعمال بھی سنور جائیں گے، اور اگر وہ بگڑ گئی تو باقی سب کچھ بیکار ہو جائے گا۔ صلاۃ گویا اعمال کی روح اور ایمان کی شہادت ہے۔ جو شخص مطلقاً صلاۃ چھوڑ دیتا ہے، وہ دین کے قلعے سے باہر نکل جاتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ(سنن ترمذی: 2621)۔
صلاة بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب لاتی ہے۔ سب سے زیادہ قربِ الٰہی کا لمحہ وہ ہے جب بندہ سجدے میں جاتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے
أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ(مسلم: 482)۔
یہی وہ مقام ہے جہاں بندہ دنیا سے کٹ کر اللہ کے دربار میں جھک جاتا ہے۔ یہ سجدہ بندے کے فخر، غرور، لالچ، حسد، کبر اور ہر دنیاوی تعلق کو مٹا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے سجدے میں دعا کرنے کی خصوصی تلقین کی۔
صلاة کو باجماعت ادا کرنا افضل ہے اور اس کی فضیلت انفرادی صلاۃ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا
صَلَاةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً(صحیح مسلم: 650)۔
:صلاة وہ ذریعہ ہے جس سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ، يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هَلْ يَبْقَى مِنْ دَرَنِهِ شَيْءٌ؟ قالوا: لا. قال: فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهَا الْخَطَايَا(بخاری: 528)۔
جیسے نہر میں نہانے سے جسم کی گندگی دور ہو جاتی ہے، ویسے ہی صلاۃ سے روح کے گناہ دھل جاتے ہیں۔
صلاة کا نظام ایک انقلابی نظام ہے۔ جب پوری امت پنج وقتہ صلاۃ کی اقامت پر متحد ہو جائے تو نہ صرف روحانی فضا پاکیزہ ہو جاتی ہے بلکہ سماجی و سیاسی میدان بھی درست ہو جاتا ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا: الَّذِينَ إِنْ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ (الحج: 41)۔
یعنی اگر ہم زمین میں کسی قوم کو اقتدار دیں تو ان کی پہلی علامت یہ ہونی چاہیے کہ وہ صلاۃ کو قائم کریں۔
صلاة انسان کے اندر تقویٰ پیدا کرتی ہے۔
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرہ: 45)۔
یہی خشوع، اللہ کے خوف اور عاجزی کی علامت ہے جو مؤمنین کی کامیابی کا سبب بنتی ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (المؤمنون: 1-2)۔
:صلاة بچوں کو سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ (سنن ابی داود: 495)۔
صلاۃ کی عادت بچپن سے پڑ جائے تو جوانی میں وہ ڈھال بن جاتی ہے۔ اس تربیت میں کوتاہی، نسلوں کو صلاۃ سے غافل بنا دیتی ہے اور معاشرے کو فتنوں کی نذر کر دیتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ صلاۃ کسی مسلمان کی زندگی کا محض جزو نہیں، بلکہ اصل بنیاد ہے۔ جو صلاۃ کو زندہ رکھتا ہے، وہ دین کو زندہ رکھتا ہے، اور جو صلاۃ کو چھوڑ دیتا ہے، وہ ایمان کی بنیاد کو کمزور کر دیتا ہے۔ صلاۃ نہ صرف اللہ سے تعلق کا ذریعہ ہے، بلکہ دلوں کی پاکیزگی، گھروں کی روشنی، امت کی وحدت اور دنیا و آخرت کی نجات کی کنجی ہے۔ صلاۃ قائم کرو، صلاۃ سے جڑو، صلاۃ کے ذریعے اپنے رب کو پکارو، کیونکہ یہی اسلام کی اصل روح ہے۔