سورۃ نوح مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 71 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے70نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 44 آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں۔نوح اس سورۃ کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں از اول تا آخر نوح (علیہ السلام) ہی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ سورہ نوح کے پہلے رکوع میں نوح ؑکی تبلیغی مساعی کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس قدر آپ نے پیغام حق پہنچانے میں جدوجہد کی اسی قدر قوم نے انکار کی روش اپنائی آپ نے ان کو بتایا کہ دیکھو اللہ ہی خالق ارض وسما ہے اور وہی شمس و قمر کے چراغ روشن کرنے والا ہے تو اسی کی عبادت کرو ۔جبکہ دوسرے رکوع میں بتایا گیا کہ ان کی قوم نے دعوت حق کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اپنے ود،سواع،یعوق،اور نسر وغیرہ بتوں کی پرستش مت چھوڑو تب نوح نے ان کی غرقابی کی دعا کی تو اللہ تعالی نے سب کو پانی میں ڈبو کر مار دیا اور پوری قوم نوح میں سے ایک کافر کو بھی زندہ نہ چھوڑا گیا ۔
: سورة نوح ماقبل سے ربط
سورة ملک سے لے کر سورة جن تک مضمون کے اعتبار سے گویا ایک ہی سورت ہے۔ سورة ملک میں عقلی دلائل سے ثابت کیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی اور برکات دہندہ نہیں۔ پھر سورة القلم میں فرمایا اس مسئلہ میں نرمی نہ کریں۔ اس کے بعد سورة الحاقہ میں اس دعوے کو نہ ماننے والوں کے لیے تخویفات اور ماننے والوں کے لیے تبشیرات کا بیان ہوا۔ پھر سورة المعارج میں معاندین پر زجر کیا گیا کہ وہ عذاب سے ڈر کر ماننے کے بجائے الٹا عذاب طلب کر رہے ہیں۔ اب سورة نوح (علیہ السلام) اور سورة جن میں دلائل نقلیہ کا بیان ہوگا۔ سورة نوح میں دلیل نقلی تفصیلی از نوح (علیہ السلام) مذکور ہے۔
انا ارسلنا نوحا۔ تا۔ لو کنتم تعلمون دلیل نقلی تفصیلی از نوح (علیہ السلام)۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور انکار و استکبار کی صورت میں ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ قال رب انی دعوت قومی۔ تا۔ و مکروا مکراکبارا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نوح (علیہ السلام) کی طرف سے اپنی قوم کی شکایت کی، میرے پروردگار، میں نے اپنی قوم کو ہر ممکن طریق سے توحید کی دعوت دی۔ ان کو سمجھانے میں رات دن ایک کردیا، بھری محفلوں میں بھی ان کو دعوت دی، اور فرداً فرداً بھی ان کو سمجھایا اور پھر دلائل عقلیہ کے ساتھ مسئلہ کو واضح کر کے پیش کیا۔ مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے جتنا ان کو سمجھایا وہ اتنا ہی انکار و استکبار میں آگے بڑھے۔ وقالوا لا تذرن الھتکم یہ قوم کے عناد و استکبار کا بیان ہے۔ مما خطیئتہم اغرقو تخویف دنیوی ہے۔ جب اللہ کا عذاب ان پر آیا تو ان کے مزعومہ معبودوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ وقال نوح رب لا تذر الخ آخر نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ مشرکین میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ کیونکہ وہ ایمان والوں کو بھی گمراہ کردیں گے اور ان کی نسل بھی فاجر اور مشرک ہوگی۔
:مختصر ترین خلاصہ
نوح (علیہ السلام) کی دعوت قوم کا انکار و استکبار، استیصال کفار کا ایک نمونہ اور نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کے ضمن میں دلائل عقلیہ، حاصل یہ کہ تبلیغ توحید میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔ اور مشرکین کی مخالفت اور ایذاء پر صبر کرو اور تبلیغ کا کام جاری رکھو۔
Download PDF