|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ ص

سورۃ ص مدنی دور کی سورۃ ہے، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 38 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سےبھی 38 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 88آیات ہیں جو5 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام پہلی ہی آیت سے ماخوذہے۔اور یہ حروف مقطعات میں سے ہے۔ اس سورۃ کی ابتداء  میں ردّ شرک اور مشرکین کا انجام مذکور ہے۔پھرقوم نوح، قوم عاد، فرعون، قوم ثمود، قوم لوط اور دیگر منکرین کی تباہی بتائی گئی، اور داؤد علیہ السلام پہ ہونے والے انعامات الٰہیہ کا بیان ہے اور ان پہ آنے والے ایک امتحان کا ذکر ہے۔ پھر سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے کہ کس طرح ان کو حکومت دی گئی اور انہوں نے اطاعتِ الہیٰ کا حق ادا کیا۔ پھرایوب علیہ السلام کا ابتلاء اور ان کا صبر اور صبر کا اجر بیان کیا گیا، پھر چند دیگر انبیاء کا تذکرہ ہے اور آخری رکوع میں تخلیقِ آدم، سجود ملائکہ اور انکارِ ابلیس کا بیان ہے۔

 :سورة ص کا سورۃ الصافات سے ربط

 سورة صافات میں بتایا گیا کہ جن کو مشرکین کارساز اور اللہ کے یہاں شفیع غالب سمجھتے ہیں وہ تو خود عاجز ہیں اور اپنے عجز کا اللہ کے سامنے اظہار کر رہے ہیں اور حاجات میں اللہ کو پکار رہے ہیں، بھلا وہ خود کس طرح کارساز اور شفیع غالب ہوسکتے ہیں۔ اب سورة ص میں بطور ترقی مذکور ہوگا کہ مشرکین جن کو شفیع غالب سمجھتے ہیں وہ اپنی عاجزی اور بیچارگی ظاہر کرنے کے علاوہ خود بعض جسمانی، تکلیفوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں، اس لیے وہ کسی طرح بھی کارساز اور شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔

صٓ والقرآن۔ تا۔ فی عزۃ و شقاق، تمہید مع ترغیب۔ یہ قرآن سراپا نصیحت ہے اسے مانو۔ عناد و استکبار کی وجہ سے اس سے اعراض نہ کرو۔ کم اھلکنا الخ : تخویف

دنیوی۔ ان سے پہلے منکرین کو ہم نے عذاب سے ہلاک کردیا۔ وعجبوا ان جاءہم۔۔ الخ، یہ شکوی ہے۔ مشرکین کو تعجب ہے کہ ایک بشر کو نبی بنایا گیا، اس لیے وہ نبی نہیں بلکہ جادوگر ہے۔ اور مسئلہ توحید کا ایک نیا ڈھونگ رچائے ہوئے۔ ام عندھم خزائن ربک۔۔ الخ، یہ زجر ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام خزانوں کا مالک اور زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔ اسے معلوم ہے کون نبوت کا مستحق ہے۔ کذبت قبلہم۔۔ الخ، یہ تخویف دنیوی ہے۔ ان سے پہلے بڑی بڑی طاقتور قومیں انکار حق کے جرم میں تہس نہس کردی گئیں۔ یہ مشرکین بھی اسی طرح کے انجام کے منتظر ہیں۔ وقالوا ربنا عجل لنا۔۔ الخ : (رکوع 2)۔ یہ شکوی ہے۔ یہ معاندین کس قدر بےباک ہیں کہ آخرت کا عذاب دنیا ہی میں مانگتے ہیں۔ اصبر علی ما یقولون۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ واذکر عبندا داؤد ۔۔الخ : یہ پہلی نقلی دلیل ہے۔ داؤد (علیہ السلام) کیسے عظیم المرتبت پیغمبر تھے۔ دینی اور دنیوی نعمتوں سے مالا مال تھے۔ مگر اس کے باوجود ایک لغزش پر ان کو بھی تنبیہ کی گئی۔ جس پر انہوں نے انتہائی عاجزی اور زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ اس لیے وہ کارساز اور شفیع غالب ہرگز نہیں ہوسکتے۔ وما خلقنا السماء ۔۔الخ (رکوع 3) ، یہ توحید پر عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان اور یہ ساری کائنات یونہی بیکار نہیں پیدا کی گئی۔ بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔ فویل للذین کفروا من النار، تخویف اخروی۔ ام نجعل الذین امنوا۔۔ الخ، یہ زجر ہے۔ کتب انزلنہ الیک۔۔ الخ : یہ دلیل وحی ہے۔ یہ سراپا برکت کتاب (قرآن) جس میں مسئلہ توحید اور دوسرے احکام کھول کر بیان کیے گئے ہیں ہم نے اس لیے نازل کی ہے تاکہ سمجھنے والے اس میں غور کرسکیں اور اسے سمجھیں۔ ووھبنا لداود سلیمن۔ تا۔ لزلفی و حسن ماب (رکوع 3) دوسری نقلی دلیل ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) بڑے مرتبے کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ وہ بھی ایک ابتلاء میں گرفتار ہوگئے۔ آخر اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ وزاری کی تو اس ابتلاء سے نجات پائی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کارساز اور شفیع غالب نہ تھے۔ واذکر عبدنا ایوب الخ (رکوع 4) ، تیسری نقلی دلیل، ایوب (علیہ السلام) سخت جسمانی تکلیف میں مبتلا ہوئے۔ آخر اپنے مولائے مہربان کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا کی تو اس نے محض اپنی رحمت سے انہیں شفائے کامل عطا فرمائی۔ جو خود ایسی تکلیفوں میں مبتلا ہوں اور مصائب سے اپنی حفاظت نہ کرسکیں۔ بھلا وہ کس طرح شفیع غالب اور کارساز ہوسکتے ہیں۔ واذکر عبادنا ابراہیم۔۔ الخ، یہ چوتھی نقلی دلیل ہے۔ ابراہیم، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) ہمارے مخلص اور برگزیدہ بندے تھے اور ہمیشہ آخرت کی تیاری میں مصروف رہتے تھے اس لیے وہ نہ کارساز ہوسکتے ہیں، نہ شفیع غالب۔ واذکر اسماعیل۔۔ الخ، یہ پانچویں نقلی دلیل ہے۔ اسمعیل، الیسع اور ذوالکفل (علیہم السلام) سب نیکو کار اور ہمارے فرماں بردار بندے تھے، وہ کارساز اور شفیع غالب نہ تھے۔ وان للمتقین لحسن ماب۔ تا۔ مالہ من نفاد، بشارت اخروی ہے۔ وان لطغین لش مآب۔ تا۔ ان ذلک لحق تخاصم اھل النار۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ قل انما انا منذر۔ تا۔ انتم عنہ معرضون (رکوع 5) ، دلائل عقلیہ ونقلیہ کے بعد دعوائے سورۃ کا ذکر ہے۔ جلیل القدر انبیاء (علیہم السلام) کا تو یہ حال ہے کہ بطور امتحان و ابتلاء خود مصائب و بلیات میں ماخوذ ہیں اور بارگاہ الٰہی میں عاجزی کر رہے ہیں اس لیے الہٰ واحد وقہار اور عزیز و غفار کے سوا کوئی کارساز اور متصرف ومختار نہیں۔ اور انبیاء (علیہم السلام) میں سے کوئی بھی اس کی بارگاہ میں شفیع غالب نہیں۔ ماکان لی من علم۔ تا۔ انما انا نذیر مبین، یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین کہتے تھے اگر تم سچے پیغمبر ہو تو ہمیں آئندہ حوادث کی قبل از وقوع اطلاع دو ۔ نیز بتاؤ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آئے گا۔ فرمایا جواب دو کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ ملا اعلی میں آئندہ حوادث کے بارے میں کیا طے ہو رہا ہے۔ مجھے تو جو چیز بتائی جاتی ہے وہ وحی کے ذریعے سے بتائی جاتی ہے۔ اور وحی کا تعلق بھی اکثر انہی امور سے ہوتا ہے جن کی دین و شریعت میں ضرورت ہو۔ اذ قال ربک للملئکۃ۔ تا۔ فسجد الملئکۃ کلہم اجمعون، ان آیتوں میں فرشتوں کا حال مذکور ہے کہ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے عاجز اور فرماں بردار بندے ہیں اور اس کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ اس لیے وہ بھی کسی طرح شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔ الا ابلیس استکبر وکان من الکفرین۔ تا۔ وممن تبعک منہم اجمعین۔ جنات کا یہ حال ہے کہ ان کے جد اعلی کو حکم الہیٰ سے بغاوت کی بنا پر ملعون و مردود کردیا گیا اور اس کو اور اس کی ذریت کو جہنم کا ایندھن بنایا جائے گا۔ اس لیے ایسی ملعون و مرود جماعت بھی عنداللہ شفیع غالب نہیں ہوسکتی۔ قل ما اسئلکم۔ تا۔ آخر سور، میں اس ناصحانہ تبلیغ اور ان واضح بیانات کا تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ تکلف سے اپنے دل سے باتیں بناتا ہوں۔ بلکہ اللہ کی وحی تم کو سناتا ہوں۔ اب تم نہیں مانتے قیامت کے دن غیر اللہ کو کارساز اور شفیع غالب سمجھنے کا انجام بد خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔

 مختصر ترین خلاصہ

تمہید مع ترغیب،کے بعد تخویف، زجر، شکوی۔ دعوی پر پانچ نقلی دلیلیں۔ ایک عقلی دلیل اور ایک دلیل وحی۔ آخر میں فرشتوں اور جنات کے عجز کا بیان ہے ۔جسکا نتیجہ یہ ہے کہ مشرکین جن کو شفیع غالب سمجھتے ہیں وہ اپنی عاجزی اور بیچارگی ظاہر کرنے کے علاوہ خود بعض جسمانی، تکلیفوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں، اس لیے وہ کسی طرح بھی کارساز اور شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔