سورۃ حم السجدہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 41 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سےبھی 61نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 54آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورة کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔ ایک حٰم، دوسرے السجدہ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورة جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے۔
:سورة حم السجدۃ کا ماقبل سے ربط
سورة مومن میں یہ دعوی مذکور ہوا کہ حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب صرف اللہ ہی کو پکارو۔ اب اس سورت میں ایک شبہے کا جواب دیا جائے گا۔ شبہہ یہ ہے کہ بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے، جب وہ غیر اللہ کو پکارتا اور غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے اس کی نذر مانتا ہے تو اس مصیبت سے چھوٹ جاتا ہے۔ یا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی ایسے خواب دیکھتا ہے جن سے شرک کی تائید ہوتی ہے مثلا خوب میں کسی پیر فقیر کو دیکھا جو اسے کہتا ہے تم پر یہ سختی اس لیے آتی ہے کہ تم نے ہماری نذر و نیاز میں قصور کیا ہے وغیرہ۔ اس کا جواب وقیضنا لہم قرناء میں دیا گیا کہ یہ سب قرناء (شیاطین) کی شرارت ہے کہ وہ انسان کو مس شیطانی سے تکلیف پہنچاتے اور پھر اس سے شرک کراکر اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ یا خوابوں میں مختلف شکلوں میں آ کر انسانوں کو شرک کی تعلیم دیتے ہیں اس لیے حکم دیا فاستقیموا الیہ واستغروہ۔ کہ اللہ کی توحید پر قائم رہو اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ اسی طرح حم مومن کے بعد ہر حم میں ایک شبہہ کا جواب دیا جائے گا اور ہر سورت اپنے سے پہلی سورت کے مضامین کی موید ہوگی۔
حم تنزیل من الرحمن تا بشیرا ونذیرا (رکوع 1) ۔ تمہید، مع ترغیب یہ حکمنامہ (کتاب) بڑے مہربان بادشاہ کا ہے جس کی ہر آیت اور ہر بات نہایت واضح اور مفصل ہے، اس کی زبان نہایت فصیح وبلیغ عربی ہے۔ جو اللہ کی طرف انابت (رجوع) کرنے والوں کے لیے سراپا ہدایت ہے اور بشارت و تخویف پر مشتمل ہے یہ ایک ایسا عظیم الشان اور اہم حکمنامہ ہے کہ اسے ضرور ماننا چاہیے۔ دعوائے سورۃ: قل نما انا بشر تا واستغفروہ (رکوع 1) ۔ اس میں صراحۃً دعوائے سورۃ کا ذکر ہے اور ضمناً دلیل وحی کا۔ تم سب کا معبود اور کارساز ایک ہے اور یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا، بلکہ اللہ کی وحی سے کہتا ہوں۔ اس لیے اسی کی طرف سیدھی راہ پر چلو، توحید کو مانو اور اسی سے اب تک جو شرک کیا ہے، اس کی اور دوسرے گناہوں کی معافی مانگو۔ کسی اور سے نہ مانگو وویل للمشرکین تا ھم الکفرون یہ تخویف اخروی ہے اور جو اس کی طرف سیدھی راہ (راہ توحید) پر نہ چلا وہ مشرک ہے اور مشرکین کے لیے ویل (ہلاکت یا جہنم کا مخصوص طبقہ) ہے جو اللہ کی توحید اور آخرت کو نہیں مانتے۔ ان الذین امنوا تا غیر ممنون یہ بشارت اخروی ہے سیدھی راہ چلنے والوں کے لیے۔ جواب شبہ : اس دعوے کے بارے میں یہ شبہہ کیا جاتا ہے کہ بعض اوقات مصیبت زدہ انسان غیروں کو پکارتا ہے تو وہ مصیبت سے چھوٹ جاتا ہے۔ یا بعض خواب ایسے نظر آے ہیں جن سے غیر اللہ کو پکارنے کی تائید ہوتی ہے۔ تو اس کا جواب دیا وقیضنا لہم قرناء تا انہم کانوا خسرین رکوع 3) ۔ یعنی یہ مس شیطانی کا اثر ہے۔ نیز شیاطین خواب دکھا کر شرک کی تلقین کرتے ہیں۔ چارشکوے علی سبیل الترقی : پہلا شکوی فاعرض اکثرہم تا اننا عاملوان (رکوع 1) یہ زجر بھی ہے۔ آپ ان مشرکین کو ایسی عظیم الشان کتاب سناتے ہیں۔ لیکن وہ اس سے اعراض کرتے ہیں اور سنتے بھی نہیں اور کہتے ہیں مسئلہ توحید سے ہمارے دل پردے میں ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں یعنی تمہاری بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ ہم تو ایسی باتوں کو سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ جاؤ میاں اپنا کام کرو۔ ہم تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے ہیں۔ دوسرا شکوی وقال الذین کرو تا لعلکم تغلبون (رکوع 4) ۔ یہ شکوی پہلے شکوے سے علی سبیل الترقی ہے۔ یہ معاندین نہ صرف یہ کہ خود قرآن نہیں سنتے بلکہ دوسروں کو بھی سننے سے روکتے ہیں۔ اور کہتے ہیں جب قرآن پڑھا جائے تو شو بپا کردیا کرو، تاکہ تمہارے شور و شغب میں قرآن پڑھنے والے کی آواز دب کر رہ جائے۔اور تم غالب آجاؤ فلنذیقن الذین کفرو تا من الاسلین (رکوع 4) دوسرے شکوے بعد تخویف اخروی کا ذکر ہے کفار و مشرکین کو ان کی بد اعمالیوں کا شدید ترین عذاب دیا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان الذین قالوا ربنا اللہ تا نزلا من غفور رحیم (رکوع 4) ْ یہ اللہ کی توحید کو ماننے والوں اور اس پر قائم رہنے والوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے ان کو جنت ہر آسائش اور ہر منہ مانگی نعمت ملے گی۔ ومن احسن قولا تا انہ ھو السمیع العلیم (رکوع 5) ۔ یہ دوسرے شکوے سے متعلق ہے اور اس میں ترغیب و ترہیب اور طریق تبلیغ کا بیان ہے۔ جب آپ ان کواللہ کا حکمنامہ سنائیں گے، وہ شور مچائیں گے، اور گالیاں دیں گے، اس وقت آپ صبر کریں۔ اور ان کی سختی اور درشتی کا نرمی سے جواب دیں، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ بھی نرم پڑجائیں گے اور آپ کی بات سنیں گے۔ لیکن اگر کبھی بتقاضائے بشریت آپ کو غصہ آجائے تو شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ تیسرا شکوی : ان الذی کفرو تا تنزیل من حکیم حمید (رکوع 5) ۔ یہ تیسرے شکوے کی تمہید ہے۔ مشرکین ازراہ عناد آپ پر اعتراضات کریں گے آپ اس سے تنگدل نہ ہوں، حالانکہ یہ ایک ایسی سچی کتاب ہے یکہ اس پر اعتراض کی گنجائش ہی نہیں۔ کیونکہ باطل اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ کیونکہ وہ حکمت والے اور ہر صفت سے متصف بادشاہ کا حکم نامہ ہے۔ ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک تمہید کے بعد یہ اصل شکوی ہے۔ اور ضمنًا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے، مشرکین آپ پر جو اعتراضات کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بلکہ آپ سے پہلے انبیاء ورسل (علیہم السلام) کے ساتھ ان کے معاصر مشرکین نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ اس کے بعد تین شبہات یا اعتراضات کا جواب ہے۔ یہ شکوی دوسرے شکوے سے بطور ترقی ہے۔ اول تو وہ سنتے ہیں نہیں، خود سننا تو درکنار بلکہ وہ دوسروں کو بھی سننے سے روکتے ہیں۔ اور اگر وہ حسن تبلیغ اور نرمی گفتار سے متاثر ہو کر قرآن سن بھی لیں تو اس کا اثر قبول کرنے کے بجائے الٹے اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ لیکن آپ اس سے غم نہ کریں کیونکہ سابق انبیاء (علیہم السلام) کو بھی اس قسم کے حالات سےواسطہ پڑچکا ہے۔ تین شبہات کا جواب : پہلے شب ہے کا جواب :۔ ولو جعلنہ قرانا۔۔ الخ مشرکین کا شبہہ یہ تھا کہ قرآن کسی عجمی (غیر عربی) زبان میں کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ یہ عربی قرآن تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بنا کر سناتا ہے۔ اس کا جواب دیا کہ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو یہ لوگ اعتراض کرتے کہ یہ قرآن واضح اور مفصل کیوں نہیں، وہ ہماری تو سمجھ ہی میں نہیں آتا یہ قرآن ماننے والوں کے لیے سراسر ہدایت اور نسخہ شفا ہے۔ لیکن جو اسے سنتے ہی نہیں، اس لیے وہ گمراہی کی تاریکی ہی میں گم رہیں گے۔ دوسرے شبہے کا جواب ولقد اتینا موسیٰ الکتب ۔۔الخ شبہہ یہ تھا کہ یہ قرآن سارے کا سارا ایک ہی دفعہ کیوں نازل نہیں ہوا، معلوم ہوتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پاس سے تھوڑا تھوڑا بنا کر سناتا ہے۔ نیز اگر یہ سچی کتاب ہوتی تو اس کے بارے میں اختلاف نہ ہوتا بلکہ سب لوگ ہی اس پر ایمان لے آتے۔ تو اس کے جواب میں فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو کتاب دی تھی وہ ایک ہی دفعہ میں ساری نازل کی گئی تھی اور وہ تھی بھی سچی کتاب، لیکن پھر بھی اس میں اختلاف کیا گیا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ انکار محض عناداً ہے۔ تیسرے شبہے کا جواب ولو لا کلمۃ سبقت من ربک ۔۔الخ شبہہ یہ تھا کہ جب ہم مانتے نہیں، تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ تو اس کا جواب دیا گیا کہ عذاب کی آمد کا ایک وقت مقرر ہے وہ آئے گا ضرور، لیکن اپنے وقت پر اس سے پہلے نہیں آسکتا۔ چوتھا شبہہ لایسئم الانسان تا فذودعاء عریض (رکوع 6) ۔ انسان مشرک، معبودانِ باطلہ سے مانگتا ہوا تھکتا نہیں۔ لیکن جب اسے ان سے کچھ حاصل نہ ہو، تو فورًا ناامید ہوجاتا ہے اور اللہ کو پکارنے لگتا ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اس کی تکلیف دور کردے، تو صاف کہہ دیتا ہے بیشک میں اس انعام کا مستحق تھا، کیونکہ میں نے فلاں معبود یا بزرگ کو پکارا تھا۔ اور یہ قیامت جس کی آمد آمد کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے اول تو آئے گی ہی نہیں اور اگر بالفرض آگئی تو وہاں بھی میرا بھلا ہی ہوگا۔ کیونکہ میرے یہ معبود اور بزرگ وہاں میرے سفارشی ہونگے۔ مشرک انسان مذبذب اور ڈانواں ڈول رہتا ہے اور ایک حال پر قائم نہیں رہتا۔ جب اللہ تعالیٰ اس پر انعام فرماتا ہے تو وہ فخر و غرور سے اتراتا ہے اور اللہ کا شکر نہیں بجالاتا۔ اور اگر اس پر کوئی مصیبت آجائے تو معبودانِ باطلہ سے مایوس ہو کر اللہ کو پکارنے لگتا ہے اس شکوے کے درمیان فلننبئن الذین کفروا ۔۔الخ میں تخویف اخروی مذکور ہے۔ قل ارءیتم ان کان یہ چاروں شکو وں سے متعلق ہے، یعنی یہ بتاؤ کہ اگر یہ قرآن واقعی اللہ کی طرف سے ہو اور تم اس سے کفر کرو، نہ خود اسے سنو اور نہ کسی اور کو سننے دو اور اگر کبھی سن ہی لو تو اس سے اثر پذیر ہونے کے بجائے اس پر ازراہ عناد اوعتراضات ہی کرتے رہو اور معبودانِ باطلہ کی دعا پکار کو ترک نہ کرو کیا یہ چیز تمہارے حق میں نقصان دہ نہ ہوگی ؟ ضرور ہوگی اور ایسے معاند لوگ سب سے بڑے گمراہ ہیں۔ سنریہم ایتنا تا انہ الحق (رکوع 6) ۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ہم اپنے متصرف فی الامور ہونے کی نشانیاں اطراف والے لوگوں میں اور خود ان میں دکھائیں گے جس سے انہیں معلوم ہوجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
چار عقلی دلیلیں علی سبیل الترقی : اس سورت میں چار عقلی دلیلیں مذکور ہیں۔ پہلی دو دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور ساری کائنات میں وہی متصرف و مختار ہے اور آخری دو دلیلوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ جب وہی متصرف و مختار اور عالم الغیب ہے تو اس کے سوا کسی کو مصائب و حاجات میں پکارنا جائز نہیں۔ ہر عقلی دلیل کے بعد تخویف مذکور ہے۔ پہلی عقلی دلیل : قل ائنکم لتکفرو تا ذالک تقدیر العزیز العلیم (رکوع 6)۔ حاصل یہ کہ تم کیسے نادان ہو کہ اس ذات پاک کے ساتھ اوروں کو شریک بناتے ہو۔ جس نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، آسمان کو ستاروں سے زینت بخشی اور زمین کو رزق کے خزانوں سے مالا مال کردیا۔ لیکن تمہارے خود ساختہ معبود جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان میں سے کوئی بھی یہ کام انجام نہیں دے سکتا۔ فان اعرضوا فقل انذرتکم تا بما کانوا یکسبون (رکوع 3) ۔ یہ پہلی عقلی دلیل کے بعد تخویف دنیوی ہے۔ اگر مشرکین مکہ اس حکمنامے سے اعراض کریں تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو قوم عاد وثمود کا ہوا۔ انہوں نے بھی اس حکم (الا تعبدو الا اللہ) کا انکار کیا تو قوم عاد کو طوفان باد سے اور قوم ثمود کو آسمانی کڑک سے ہلاک کردیا گیا۔ ونجینا الذین امنوا یہ اس حکم مانے کو ماننے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ ویوم یحشر اعداء اللہ تا فماھم من المعتبین (رکوع 3) ۔ یہ تخویف اخروی ہے دنیوی عذاب کے علاوہ ان منکرین کے لیے آخرت میں بھی سخت عذاب تیار ہے۔ آخرت میں ان کے کان، ان کی آنکھیں، ان کے چہرے بلکہ ان کے تمام اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے، اس طرح ان کا کوئی جرم پوشیدہ نہیں رہے گا، اور انہیں ہر جرم اور گناہ کی پوری پوری سزا ملے گی۔ دوسری عقلی دلیل، یہ دلیل پہلی دلیل سے ترقی اور ان کی تفصیل ہے۔ اور اس میں قیامت کا اثبات بھی ہے ون ایتہ الیل والنہار تا ان کنتم ایاہ تعبدون (رکوع 5) ۔ یہ پہلی دلیل کے ایک حصے (یعنی آسمان سے متعلق) کی تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات قدرت میں سے دن، رات اور سورج و چاند ہے۔ یہ چیزیں اسی کے اختیار و تصرف میں ہیں۔ اور اس کے تابع فرمان ہیں۔ لہٰذا ان کو کارساز سمجھ کر ان کی عبادت و تعظیم بجا نہ لاؤ۔ ومن ایتہ انک تر تا انہ علی کل شیء قدیر یہ پہلی دلیل کے ارضی (زمین سے متعلق) حصے کی تفصیل ہے۔ یہ بھی اس کی قدرت کے نشانات میں سے ہے کہ بنجر اور خشک زمین کو وہ مینہ برسا کر زندہ کرتا اور اس میں لہلہاتا سبزہ پیدا کردیتا ہے جو اس مردہ زمین کو زندہ کرسکتا ہے وہ قیامت کے دن مردہ انسانوں کو بھی زندہ کرلے گا۔ یہی قادر وقیوم تم سب کا معبود اور کارساز ہے اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔ ان الذین یلحدون تا انہ بما تعملون بصیر (رکوع 5)۔ یہ دوسری عقلی دلیل کے بعد تخویف اخروی ہے اور ضمناً بشارت اخروی ہے۔ ملحد اور مومن اللہ سے پوشیدہ نہیں۔ ملحدین کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور مومنین کاملین جہنم سے محفوظ رہیں گے۔ دونوں جماعتوں میں سے وہی جماعت بہتر ہے جو قیامت کے دن جہنم کے عذاب سے محفوظ رہے گی۔ تیسری عقلی دلیل : الیہ یرد علم الساعۃ تا ولا تضع الا بعلمہ (رکوع 6) ۔ اس دلیل سے ثابت ہوتا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں غیب کی کنجیاں اس نے کسی کے ہاتھ میں نہیں دیں۔ یوم ینادیہم این شرکاءی تا مالہم من محیص (رکوع 6) ۔ یہ تیسری دلیل کے بعد تخویف اخروی ہے قیامت کے دن مشرکین کے خود ساختہ سفارشی ان کے کام نہیں آئیں گے اور انہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ چوتھی عقلی دلیل اولم یکف بربکم انہ علی کل شیء شہید (رکوع 6) اس دلیل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر نہیں۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تیرا پروردگار ہر چیز سے باخبر اور اپنے علم محیط سے ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ؟ پھر اس کے سوا اوروں کو کیوں پکارا جائے جو عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہیں۔ الا انہم فی مریۃ ۔ یہ چوتھی دلیل کے بعد تخویف دنیوی و اخروی ہے۔ ان منکرین توحید کا قیامت پر بھی ایمان نہیں۔ انہیں خبردار رہنا چاہیے کہ وہ کسی بھی وقت اس کی دسترس سے باہر نہیں ہوسکتے۔ وہ جب چاہے دنیا میں انہیں پکڑے اور قیامت کے دن بھی وہ اس کی دسترس سے باہر نہیں ہوں گے اور وہاں بھی وہ سزا پائیں گے۔
مختصر ترین خلاصہ
دعویٰ توحید برحق ہے ،ہر طرح کے دلائل سے ثابت ہے ،معاندین محض اسے از راہ عناد قبول نہیں کر رہے۔وقت مقرر تک انہیں مہلت دی جارہی ہے،جب اللہ کی گرفت آئے گی تو انہیں کوئی چھڑانے والا نہیں ہو گا۔
Download PDF