|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ النور

سورۃ  النورمدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 24 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے102 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 64آیات ہیں جو9 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام پانچویں رکوع کی پہلی آیت  اللہ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ سے ماخوذ ہے۔اس میں عائشہ ؓ پر منافقین کی طرف سے لگائی جانے والی تہمت کارد ہے اور تہمت زنی کا یہ واقعہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر پیش آیا اور یہ غزوہ ماہ شعبان پانچ ہجری میں ہوا۔اس میں زنا وقذف اور پردے کے احکام ہیں اور جہاد کا بیان ہے اور بلاشبہ اس میں مومنین کے لیے ایمانی نور ہے۔

 سورة النور کا سورۃ مومنون سے ربط

 •سورة مومنون  کی ابتدا میں فرمایا  قد افلح المومنون  یعنی ایمان والے کامیاب ہوں گے اور سورة نور میں فرمایا  اللہ نور السموات والارض۔۔ الخ  اللہ تعالیٰ کی توحید ہی سے سارا جہان روشن اور آباد ہے اور ایمان والوں کو فوز و فلاح اسی نور توحید ہی کی بدولت حاصل ہوگی۔

سورة مومنون میں دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ثابت کیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز اور حاجت روا نہیں اس لیے حاجات و مشکلات میں صرف اسی کو پکارو اور اسی کے نام کی نذریں نیازیں دو اس کے سوا کوئی پکارے جانے کے لائق نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی نذر و منت کا مستحق ہے یہ مضمون سورة مومنون کی آخری آیتوں میں بطور خلاصہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔  فتعالی اللہ الملک الحق  تا  انہ لا یفلح الکفرون ۔ اب سورة نور میں یہ مذکور ہوگا کہ اس مسئلہ توحید سے ضد کی وجہ سے مخالفین (کفار و منافقین) داعی توحید (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختلف طریقوں سے بدنام کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ مسلمانوں کا اعتماد اٹھ جائے اور وہ بد ظن ہو کر آپ کا اتباع چھوڑ دیں اور مسئلہ توحید کا انکار کردیں اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ام المومنین  عائشہ صدیقہ ؓ کی اس جھوٹی تہمت سے برأت و طہارت کا اعلان فرمایا ہے جو منافقین نے آپ کی عزت کو داغدار کرنے کے لیے اپنے پاس سے گھڑ کر اڑا دی تھی۔

 پہلا حصہ : ابتداء میں  سورة انزلنھا و فرضنھا۔۔ الخ  تمہید مع ترغیب ہے یہ ترغیب آگے دوبارہ پھر آئیگی اس کے بعد زنا اور تہمت زنا سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے چار احکام ذکر کیے ہیں۔ پہلا حکم  الزانیۃ والزانی فاجلدوا۔۔ الخ  زانی اور زانیہ کی سزا۔ دوسرا حکم  الزانی لاینکح الا زانیۃ او مشرکۃ۔۔ الخ  اور فاحشہ عورتوں کی اخلاقی پستی کا ذکر۔ تیسرا حکم  والذین یرمون المحصنت ۔۔الخ  پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے والوں کی سزا۔ چوتھا حکم  والذین یرمون ازواجھم الخ  اپنی بیویوں پر تہمت لگانے والوں کا حکم۔ اس کے بعد  ان الذین جاء وا بالافک (رکوع 2) سے لے کر  واللہ غفور رحیم  (رکوع 3) تک تہمت لگانے والوں، تہمت میں معمولی حصہ لینے والوں اور تہمت کی بات سن کر اس پر خاموش رہنے اور اس کی تردید نہ کرنے والوں کے لیے زجریں ہیں۔  ان الذین جاء وا بالافک ۔۔الخ  یہ ان منافقین پر زجر ہے جنہوں نے یہ تہمت گھڑ کر لگائی تھی۔  لو لا اذ سمعتموہ ظن ۔۔الخ  یہ ان مسلمانوں پر زجر ہے جنہوں نے بالکل خاموشی اختیار کی، نہ تہمت لگانے والوں کی تائید کی نہ تردید۔  اذ تلقونہ بالسنتکم  تا  واللہ علیم حکیم  یہ ان مسلمانوں پر زجر ہے جو ان منافقین کی باتوں سے متاثر ہوگئے اور ان کی زبانوں سے بھی کچھ نامناسب الفاظ نکل گئے۔  ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ۔۔ الخ  یہ پہلے گروہ کے لیے دنیوی اور اخروی تخویف ہے۔  ولا یاتل اولوا الفضل ۔۔الخ  جو مسلمانوں تہمت میں ملوث ہوگئے توبہ کے بعد ان سے حسن سلوک جاری رکھنے کی ترغیب۔  ان الذین یرمون  تا  ھو الحق المبین  پہلے گروہ کے لیے تخویف اخروی۔ اس کے بعد  الخبیثت للخبیثین ۔۔الخ  میں برے اور اچھے لوگوں کا کردار اور ان کی عادات کا ذکر کیا گیا ہے۔

 اس کے بعد معاشرے کی اصلاح و تطہیر کے لیے چھ قانون اور ضابطے بیان کیے گئے ہیں۔ پہلا قانون :  یا ایھا الذین امنوا لا تدخلوا الخ  (رکوع 4) جب کسی دوسرے آدمی کے گھر میں داخل ہونا چاہو تو پہلے اجازت لے لو، بلا اجازت کسی کے گھر میں مت گھسو۔  لیس علیکم جناح ۔۔الخ  البتہ جو گھر رہائشی نہ ہوں بلکہ عوامی کاروبار کے لیے ہوں مثلاً سرائیں دکانیں اور طعام خانے وغیرہ، ان میں داخل ہوتے وقت اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ دوسرا قانون :  قل للمومنین یغضوا من ابصارھم۔۔ الخ  ایمان والے اپنی نظریں نیچی کر کے چلا کریں تاکہ غیر محرم عورتوں کے چہروں اور ان کی زینت کو دیکھنے سے ان کی نظریں محفوظ رہیں اور وہ فتنہ بدکاری سے بچیں۔ تیسرا قانون :  قل للمومنات یغضضن من ابصارھن۔۔ الخ  اس میں ایمان والی عورتوں کو چار ہدایات دی گئی ہیں (ا) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں (2) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں (3)  ولا یبدین زینتھن۔۔ الخ  اپنی زینت اور بدن کے قابل ستر حصوں کو ظاہر نہ کریں بلکہ ڈھک کر رکھیں البتہ اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے ہاتھ پاؤں، چہرہ اور زیور وغیرہ ظاہر کرسکتی ہیں (4)  ولا یضربن بارجلھن ۔۔الخ  چلتے وقت زمین پر پاؤں آہستہ رکھیں تاکہ پاؤں کے زیور کی آواز غیر محرم نہ سن سکیں۔ چوتھا قانون :  وانکحو الایامی منکم۔۔ الخ  بیوہ عورتوں، غلاموں اور باندیوں کا نکاح کر ڈالو اور انہیں نکاح سے مت روکو۔ پانچواں قانون :  والذین یبتغون الکتب ۔۔الخ  تمہارے جو غلام اور باندیاں مکاتب چاہیں اگر تم اس میں بہتری سمجھو تو انہیں مکاتب کردو۔ چھٹا قانون :  ولا تکرھوا فتیتکم علی البغاء ۔۔الخ  اپنی باندیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ یا یہ باندیوں کو نکاح سے روکنے کی ممانعت ہے اس صورت میں یہ قانون رابع کے ایک حصے کی تاکید ہوگی۔  ولقد انزلنا الیک ایت ۔۔الخ  یہ ترغیب کا اعادہ ہے جو ابتداء سورت میں مذکور ہوئی اور تخویف دنیوی ہے۔

  اللہ نور السموات والارض۔۔ الخ  (رکوع 5) اس میں دعوی توحید کو ایک تمثیل کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہی سارے جہان کا مالک و کارساز ہے اس کی صفات کارسازی وصفات الوہیت ہی سے سارا جہان قائم اور آباد ہے آگے دعوی توحید پر ایک نقلی دلیل اور تین عقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔  فی بیوت اذن اللہ ۔۔الخ  یہ اللہ تعالیٰ کو متصرف و کارساز سمجھ کر پکارنے والوں اور معبودان باطلہ کو اللہ کے ساتھ شریک نہ بنانے والوں سے دلیل نقلی ہے۔  والذین کفرو اعمالھم کسراب۔۔ الخ ۔ یہ دلیل نقلی سے متعلق ایک شبہے کا جواب ہے یعنی اللہ کی عبادت تو مشرکین بھی کرتے ہیں اس میں مومنوں کی کیا خصوصیت ہے تو فرمایا مشرک چونکہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے اعمال بےفائدہ اور رائیگاں ہیں۔  الم تر ان اللہ یسبح لہ۔۔ الخ  (رکوع 2) دعوی توحید جو  اللہ نور السموات والارض  میں مذکور ہے پر پہلی عقلی دلیل زمین و آسمان کی ساری مخلوق خواہ ذوی العقول ہو خواہ غیر ذوی العقول اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتی اور ہر قسم کے شرک سے اس کی پاکی و تقدیس کا اعلان کرتی ہے  وللہ ملک السموات والارض۔۔ الخ  اور زمین و آسمان کا مالک اور سارے جہان میں متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا وہی کارساز اور مجیب الدعوات ہے۔  الم تر ان اللہ یزجی۔۔ الخ  یہ دعوی مذکورہ پر دوسری عقلی دلیل ہے بادلوں کو اکٹھا کرنا اور پھر ان سے بارش اور اولے برسانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ یہ رات دن کا انقلاب بھی اسی کے اختیار و تصرف میں ہے۔  واللہ خلق کل دابۃ من ماء۔۔ الخ  یہ دعوی توحید پر تیسری عقلی دلیل ہے تمام جاندار مخلوق کو قطرہ آب سے پیدا کیا ہے لیکن تمام انواع حیوانات شکل و صورت اور افعال و خواص کے اعتبار سے مختلف ہیں یہ اس کی قدرت کاملہ اور اس کے تصرف کا کرشمہ ہے وہی قادر اور قیوم ودانا سب کا کارساز اور قاضی الحاجات ہے۔ لقد انزلنا ایت مبینت۔۔ الخ  یہ ترغیب الی القرآن کا دوسری بار اعادہ ہے جو ابتدائے سورت میں مذکور ہوئی۔  ویقولون اٰمنا باللہ  تا  بل اولئک ھم الظلمون  (رکوع 6) یہ منافقین پر شکوی ہے جو زبان سے تو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریح احکام سے اعراض کرتے ہیں یہ منافقین پر شکوی ہے ۔یہ منافقین کا حال تھا اس کے بعد ان کے مقابلے میں مخلص مومنوں کا ذکر کیا گیا۔  انما کان قول المومنین  تا  فاولئک ھم الفائزون  (رکوع 7) وہ اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ اس کے اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی دل و جان سے پیروی کرتے ہیں۔  واقسموا باللہ  تا  الا البلاغ المبین  (رکوع 7) ۔ یہ منافقین پر زجر ہے۔  وعد اللہ الذین اٰمنوا  تا  لعلکم ترحمون ۔ یہ مخلص مومنین کے لیے بشارت دنیوی ہے۔ ’ ومن کفر بعد ذلک فاولئک ھم الفاسقون  یہ جملہ معترضہ ہے۔ ’ لاتحسبن الذین کفروا الخ  یہ منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔

 دوسرا حصہ : پہلے اصلاح معاشرہ کے لیے تین قوانین مذکور ہیں اور آخر میں مخلص مومنوں اور منافقوں کے احوال کا مقابلہ کیا گیا ہے۔ پہلا قانون : یایہا الذین اٰمنوا لیستاذنکم ۔۔الخ (رکوع 8)۔ اوقات استراحت وخواب میں غلاموں اور باشعور بچوں کو اجازت لے کر اندر داخل ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان اوقات میں اکثر زائد کپڑے اتار دئیے جاتے ہیں اور معمولی ہلکے سے کپڑوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ دوسرا قانون :  والقواعد من النساء۔۔ الخ  بوڑھی عورتوں کو اجازت ہے کہ وہ گھر میں معمولی لباس میں رہیں اور زیادہ پردے کے لیے مزید کپڑے نہ پہنیں لیکن اگر احتیاط کریں تو بہتر ہے۔ تیسرا قانون : لیس علی الاعمی حرج۔۔ الخ دوسروں کے گھروں میں جانے کی ہر حال میں ممانعت نہیں بلکہ ضروری کاموں کے لیے جاسکتے ہو۔  کذالک یبین اللہ لکم۔۔ الخ  یہ ترغیب الی القرآن ہے۔

  انما المومنون الذین اٰمنوا باللہ ۔۔الخ  (رکوع 9) مومنین اور منافقین کی صفات کا تقابل، مومنین اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پورے اخلاص کے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور جہاد ایسے نہایت اہم کاموں میں شرکت سے معذوری کی صورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر جاتے ہیں۔  لاتجعلوا دعاء الرسول۔۔ الخ  یہ زجر ہے مع تخویف دنیوی۔ نیز ادب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم ہے۔  قد یعلم اللہ الذین یتسللون ۔۔الخ  یہ منافقین کا حال ہے کہ وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر نہیں جاتے بلکہ جونہی موقعہ پایا آنکھ بچا کر کھسک گئے۔  الا ان للہ ما فی السموات والارض  آخر میں دعوی توحید کا ذکر ہے جس کی وجہ سے ضد میں آخر منافقین نے تہمت لگائی تھی۔

مختصر ترین خلاصہ

سورة نور کے ابتدائی حصے  میں تمہید، ترغیب الی القرآن اصلاح معاشرہ کے لیے چار احکام، تہمت لگانے والوں پر زجریں، پھر اصلاح معاشرہ کے لیے چھ قوانین دعوی توحید جس کی عداوت سے منافقین نے تہمت لگائی۔ دعوی توحید پر ایک نقلی دلیل اور تین عقلی دلیلیں ہیں۔ دوسرے حصے میں اصلاح معاشرہ کے لیے تین قوانین، مخلصین و منافقین کے اعمال کا تقابل، آداب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اورآخر میں دعوی توحید کا دوسری بار ذکر ہے جو جوہری مسئلہ ہے۔