سورۃ النساء مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 4 چوتھے نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 92 بانوّے نمبر پر ہے۔ اس میں 176 آیات ہیں جو چوبیس رکوعات پر مشتمل ہیں۔نساء امرأۃ کی جمع ہے۔جسکے معنی عورتوں کے ہیں اس سورۃ میں خواتین کے حقوق و فرائض اور دیگر مسائل کا بیان ہے اس لحاظ سے اس سورۃ کا نام” النساء” رکھا گیا۔اسلامی معاشرہ بتدریج بڑھ رہا تھا اور معاشرے کی ضروریات بھی وسیع ہورہی تھیں۔ کاروباری، تجارتی اور سیاسی تعلقات مختلف ممالک اور مختلف اقوام سے وسیع ہورہے تھے۔جو ضروریات درکارتھیں ان میں سے بعض کو اس سورت میں پیش کیا گیا ۔غزوہ احد میں ستر اہل ایمان کی شہادت نے معاشرے اور جماعت میں ایک نئی صورت حالات پیدا کردی اور مقتولین کے ورثے کا سوال مرنیوالوں کے نابالغ بچوں کا سوال، ان کی بیوہ عورتوں کا سوال، تعداد ازواج کا مسئلہ، عورتوں کی حرمت وحلت کا مسئلہ کون کون سی عورتوں سے نکاح جائز ہے اور کون کون سی عورتوں سے نکاح ناجائز ہے ،تعداد ازواج کی صورت میں عورتوں کے باہمی حقوق ایک بیوی ہو تو اس کے ساتھ سلوک میاں بیوی کی باہمی پوزیشن، مرد کی ذمہ داری اور عورت کی ذمہ داری، عورت اور مرد کے مابین جھگڑا ہو تو اس کا تصفیہ، تصفیہ حقوق کے سلسلے میں عدل وانصاف سے کام لینا اور کسی کی سفارش اور چکنی چڑی باتوں میں نہ آجانا۔ بڑھتےہوئے اسلامی معاشرے کے پیش نظر اہل قرابت کے ساتھ سلوک، گود پیٹ کے رشتوں کی حفاظت اور باہم حسن سلوک، پھر پڑوسیوں کے حقوق، یہ سب باتیں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں پھر جماعت کی اخلاقی اصلاح کے پیش نظر نشہ بندی کی تحریک۔ اور اس طرف تدریجی اقدامات کئے گئے،اورہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہیے۔غیر جانبدار معاہد ہ قبائل کے ساتھ جو رویہ مومنوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔سب سے زیادہ اہم چیزیہ تھی کہ مسلم کا اپنا کرداربےداغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تواللہ کی رحمت سے اپنے اخلاق فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے اہل ایمان کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔دعوت و تبلیغ کا پہلو بھی اس سورة میں چھوٹنے نہیں دیا۔ جاہلیت کے مقابلہ میں اسلام جس اخلاقی و تمدنی اصلاح کی طرف دنیا کو بلا رہا تھا، اس کی توضیح کرنے کے علاوہ یہودیوں، نصرانیوں اور مشرکین، تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط اخلاق و اعمال پر اس سورة میں تنقید کر کے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی ہے۔اورصلوۃ الخوف اور صلوۃ القصر کے احکامات بیان ہوئے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم بھی نازل ہوا۔
:سورة النساء کا سورة آلِ عمران ربط
سورة البقرہ میں چار بنیادی مضامین (توحید، رسالت، جہاد، انفاق) بیان کیے گئے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ امور انتظامیہ اور امور مصلحہ بھی مذکور تھے۔ البقرہ میں توحید کا بیان اور شرک کا رد ہر پہلو سے تھا۔ نفی شرک فعلی، نفی شرک اعتقادی اور نفی شفاعت قہری۔ سورة آل عمران میں توحید و رسالت سے متعلق شبہات کا ازالہ کیا گیا اور شرک اعتقادی کی نفی کی گئی۔ جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی۔ اب اہل ایمان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر منظم کرنے کے لیے سورةالنساء میں تفصیل سے امور انتظامیہ بیان کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ایک امر مصلح یعنی صلوۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ صلوۃ امور انتظامیہ پر عملدر آمد کرنے میں ممد و معاون ہے گویا کہ سورة البقرہ کے مضامین میں سے ایک مضمون یعنی امور انتظامیہ کو سورة النساء میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
:امور انتظامیہ کی دو اقسام
سورة میں جو امور انتظامیہ مذکور ہیں وہ چونکہ دو قسم کے ہیں۔ کچھ امور ایسے ہیں جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے اور کچھ امور اقتدار سے متعلق سورۃ النساء مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 4چوتھے نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 92 بانوّے نمبر پر ہے۔اس میں 176 آیات ہیں جو چوبیس رکوعات پر مشتمل ہیں۔نساء امرأۃ کی جمع ہے۔جسکے معنی عورتوں کے ہیں اس سورۃ میں خواتین کے حقوق و فرائض اور دیگر مسائل کا بیان ہے اس لحاظ سے اس سورۃ کا نام” النساء” رکھا گیا۔اسلامی معاشرہ بتدریج بڑھ رہا تھا اور معاشرے کی ضروریات بھی وسیع ہورہی تھیں۔ کاروباری، تجارتی اور سیاسی تعلقات مختلف ممالک اور مختلف اقوام سے وسیع ہورہے تھے۔جو ضروریات درکارتھیں ان میں سے بعض کو اس سورت میں پیش کیا گیا ۔غزوہ احد میں ستر اہل ایمان کی شہادت نے معاشرے اور جماعت میں ایک نئی صورت حالات پیدا کردی اور مقتولین کے ورثے کا سوال مرنیوالوں کے نابالغ بچوں کا سوال، ان کی بیوہ عورتوں کا سوال، تعداد ازواج کا مسئلہ، عورتوں کی حرمت وحلت کا مسئلہ کون کون سی عورتوں سے نکاح جائز ہے اور کون کون سی عورتوں سے نکاح ناجائز ہے ،تعداد ازواج کی صورت میں عورتوں کے باہمی حقوق ایک بیوی ہو تو اس کے ساتھ سلوک میاں بیوی کی باہمی پوزیشن، مرد کی ذمہ داری اور عورت کی ذمہ داری، عورت اور مرد کے مابین جھگڑا ہو تو اس کا تصفیہ، تصفیہ حقوق کے سلسلے میں عدل وانصاف سے کام لینا اور کسی کی سفارش اور چکنی چڑی باتوں میں نہ آجانا۔ بڑھتےہوئے اسلامی معاشرے کے پیش نظر اہل قرابت کے ساتھ سلوک، گود پیٹ کے رشتوں کی حفاظت اور باہم حسن سلوک، پھر پڑوسیوں کے حقوق، یہ سب باتیں اس سورت میں بیان کی گئی ہیں پھر جماعت کی اخلاقی اصلاح کے پیش نظر نشہ بندی کی تحریک۔ اور اس طرف تدریجی اقدامات کئے گئے،اورہر طبقہ کے منافقوں کے متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتاؤ ہونا چاہیے۔غیر جانبدار معاہد ہ قبائل کے ساتھ جو رویہ مومنوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔سب سے زیادہ اہم چیزیہ تھی کہ مسلم کا اپنا کرداربےداغ ہو کیونکہ اس کشمکش میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تواللہ کی رحمت سے اپنے اخلاق فاضلہ ہی کے زور سے جیت سکتی تھی۔ اس لیے اہل ایمان کو بلند ترین اخلاقیات کی تعلیم دی گئی اور جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔دعوت و تبلیغ کا پہلو بھی اس سورة میں چھوٹنے نہیں دیا۔ جاہلیت کے مقابلہ میں اسلام جس اخلاقی و تمدنی اصلاح کی طرف دنیا کو بلا رہا تھا، اس کی توضیح کرنے کے علاوہ یہودیوں، نصرانیوں اور مشرکین، تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط اخلاق و اعمال پر اس سورة میں تنقید کر کے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی ہے۔اورصلوۃ الخوف اور صلوۃ القصر کے احکامات بیان ہوئے اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم بھی نازل ہوا۔
:سورة النساء کا سورة آلِ عمران ربط
سورة البقرہ میں چار بنیادی مضامین (توحید، رسالت، جہاد، انفاق) بیان کیے گئے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ امور انتظامیہ اور امور مصلحہ بھی مذکور تھے۔ البقرہ میں توحید کا بیان اور شرک کا رد ہر پہلو سے تھا۔ نفی شرک فعلی، نفی شرک اعتقادی اور نفی شفاعت قہری۔ سورة آل عمران میں توحید و رسالت سے متعلق شبہات کا ازالہ کیا گیا اور شرک اعتقادی کی نفی کی گئی۔ جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی۔ اب اہل ایمان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر منظم کرنے کے لیے سورةالنساء میں تفصیل سے امور انتظامیہ بیان کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ایک امر مصلح یعنی صلوۃ کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ صلوۃ امور انتظامیہ پر عملدر آمد کرنے میں ممد و معاون ہے گویا کہ سورة البقرہ کے مضامین میں سے ایک مضمون یعنی امور انتظامیہ کو سورة النساء میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
:امور انتظامیہ کی دو اقسام
سورة میں جو امور انتظامیہ مذکور ہیں وہ چونکہ دو قسم کے ہیں۔ کچھ امور ایسے ہیں جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے اور کچھ امور اقتدار سے متعلق ہیں۔ اس اعتبار سے یہ سورت دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ابتداء سے لیکر و نُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا تک ہے اور دوسرا حصہ اِنَّ اللہَ یَامُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمَانَاتِ اِلیٰ اَھْلِہَا سے لے کر وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطاً تک ہے۔ پہلے حصہ میں احکام رعیت اور دوسرے حصہ میں احکام اقتداریہ کا بیان ہے۔ اور ہر حصہ کے بعد اصل مسئلہ توحید بیان کیا گیا ہے۔ حصہ اول کے بعد اجمال کے ساتھ اور حصہ دوم کے بعد تفصیل کے ساتھ۔ احکام رعیت کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرو اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اور احکام اقتداریہ کا حاصل یہ ہے کہ دوسروں کی حق تلفی اور ان پر ظلم نہ ہونے دو ۔ سورت کی ابتداء میں تخویف اخروی ہے یعنی جو احکام آگے آرہے ہیں ان کو بجا لاؤ۔ ورنہ آخرت میں تمہیں عذاب دیا جائے گا۔ اس کے بعد عذاب سے بچنے کے لیے تین امور بیان کیے گئے۔ یعنی ظلم نہ کرو۔ شرک نہ کرو۔ اور احسان کرو۔ احکام رعیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلم نہ کرو اور اس کے بعد ہی باقی دونوں امور بھی مذکور ہیں۔
:احکام رعیت
:چودہ احکام رعیت جاری فرمایا
واحد: وَاٰتُوْ الْیَتٰمیٰ اَمْوَالَھُمْ تا حُوْباً کَبِیْراً ۔ یتیموں کا مال نہ کھاؤ وہ تمہارے لیے خبیث ہے
تثنیہ: وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا تا ذٰلِکَ اَدْنیٰ اَلَّا تَعُوْلُوْا۔ اگر یتیم لڑکیوں سے نکاح کرو تو ان کا مہر اور ان کے دوسرے حقوق ادا کرو۔
ثلاثہ: وَاٰتُوْ ا النِّسَاءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلۃً تا ھَنِیْئاً مَّرِیْئئاً ۔ یتیم لڑکیوں کے علاوہ دوسری عورتوں کے مہر بھی ادا کرو۔
أربعہ: وَلَا تُؤْتُوْ السُّفَھَاءَ اَمْوَالَکُمُ تا وَ کَفیٰ بِاللہِ حَسیْباً ۔ یتیم بچے جب تک سن رشد کو نہ پہنچیں۔ اس وقت تک ان کے اموال ان کے حوالے نہ کرو اور جب حوالے کرو اس پر گواہ بنا لو تاکہ معلوم ہوجائے کہ تم نے ان کا مال کھایا نہیں۔
خمسہ: لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ تا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْراً ۔ ترکہ میت میں تمام ورثاء کا حق ہے اور ان کے حصے مقرر کردئیے گئے ہیں۔ کسی وارث کی حق تلفی نہ کرو خواہ یتیم ہو یا غیر یتیم۔
ستہ: یُوْصِیْکُمُ اللہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ تا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْن ورثاء کے مقرر حصے یہ ہیں۔ ان کے مطابق ترکہ تقسیم کرو۔
سبہ: وَالّٰتِیْ یَاتِیْنَ الْفَاحِشَۃ تا اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَاباً اَلِیْماً ۔ مردوں اور عورتوں کو وراثت میں سے حصہ بیشک دو لیکن اگر ان میں سے کوئی برا فعل کرے تو اسے شرعی قانون کے مطابق اس کی سزا دو ۔
ثمانيہ: وَلَا تَنْکَحُوْا مَانَکَحَ اٰبَآء کُمْ تا کِتٰب اللہِ عَلَیْکم۔ ان عورتوں سے نکاح جائز نہیں۔
تسعہ: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ تا مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا۔ عورتوں کو زبردستی میراث نہ بناؤ،اگر دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہو تو پہلی بیوی سے جو ہدیہ و مہر
دیا ہو وہ واپس نہ لینا۔
عشرہ: وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّ وَرَاءَ ذٰلِکُمْ تا خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً ۔جن عورتوں سے نکاح جائز ہے، بصورت نکاح ان کا مہر ادا کرنا ضروری ہے خواہ آزاد ہوں خواہ اندیاں۔ باندیوں سے نکاح کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ تم ظلم (زنا) سے بچ سکو۔
أحد عشر: یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمِنُوْا لَا تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ تا وَنُدْخِلُکُمْ مُّدْخَلاً کَرِیْماً ۔ مال یتیم، وراثت اور مہر کے علاوہ بھی کسی طرح کا مال حرام نہ کھاؤ۔
اثنا عشر: وَلَا تَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ تا اِنَّ اللہَ کَانَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْداً ۔ وارثوں کے جو کم و بیش حصے مقرر کیے گئے ہیں ان میں سے کسی کا حسد نہ کرو۔ ہر ایک کو اس کا پورا حصہ دو ۔ اور اس میں کمی کر کے ظلم نہ کرو اور جس کا حصہ زائد ہے اس کی خواہش نہ کرو۔
ثلاثہ عشر: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیَ النِّسَاء ِتا اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیٍّا کَبِیْراً ۔ اگرچہ عورتوں کا وراثت میں حصہ ہے لیکن مردوں کو عورتوں پر بالا دستی حاصل ہے۔ ان پر خاوندوں کی فرمانبردی لازم ہے۔ دو وجہ سے۔ اول اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی۔ دوم مرد عورتوں پر مال خرچ کرتے ہیں۔ اگر عورت میں بدخوئی ہو تو اسے نصیحت کرو اور بقدر ضرورت اسے مار بھی سکتے ہو لیکن اس پر ظلم نہ کرو۔
أربعہ عشر: وَاِنْ خِفْتُمْ شَقَاقَ بَیْنِھِمَا تا اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیماً حَکِیْماً ۔ اگر خاوند بیوی میں اختلاف واقع ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہاں تک چودہ احکام رعیت ختم ہوئے۔ ان کے خاتمہ پر وَاعْبُدُوْ اللہَ وَلَا تُشْرِکُْا بِہٖ شَیْئاً۔۔۔ الخ سے دو چیزیں بیان کی گئیں۔ اول صرف اللہ کو پکارو۔ اس
کی پکار میں کسی کو شریک نہ کرو۔ دوم ماں باپ اور بھائی بندوں اور دوسرے حقداروں پر احسان کرو۔ احکام رعیت کے بعد اصل دعویٰ توحید کا اجمالاً ذکر فرمایا۔
اس کے بعد اَلَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ سے اِنَّ اللہَ کَانَ عَزِیْزاً حَکِیْماً تک مشرکین اور اہل کتاب کے لیے متعدد زجریں(سخت تنبیہات) اور تخویفیں (ڈراوے)ہیں۔
اور زجروں کے بعد مسئلہ توحید کی اہمیت کے پیش نظر پھر فرمایا اِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ۔۔۔ الخ۔ یعنی یہ تمام احکام مانو لیکن شرک بہت بری چیز ہے اس سے بچو۔ اور آخر میں وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰت۔۔ الخ سے مومنین کے لیے اخروی بشارت ہے۔ اس دوران میں یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوْا لصَّلٰۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی سے امر مصلح یعنی صلوۃ اور طہارت کا ذکر کیا گیا ہے ۔اور نشہ آور چیزوں کی روک تھام کا سلسلہ بتدیج شروع کیاکیونکہ طہارت بدن سے انسان صلوۃ کے قابل ہوسکتا ہے اور صلوۃ ظلم سے بچنے، احسان کرنے اور توحید پر قائم رہنے میں ممد و معاون ہے۔ کیونکہ صلوۃ میں سراسر توحید کی تعلیم ہے ۔
اب آگے نو9 احکام اقتداریہ کا بیان ہے۔ جو حکام اور صاحب اقتدار طبقہ سے متعلق ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ حاکمان وقت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ان احکام کو قائم کریں اور کمزوروں اور ضعیفوں پر ظلم نہ ہونے دیں اور نہ ان کی حق تلفی ہونے پائے۔ احکام اقتداریہ کے درمیان جا بجا مشرکین منافقین اور اہل کتاب کے لیے زجریں، تخویفیں اور شکوے بھی مذکور ہیں۔
:احکامِ اقتداریہ
واحد: اِنَّ اللہَ یَامُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمٰنٰتِ اِلیٰ اَھْلِھَا تا ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاوِیْلاً ۔ حقداروں کو ان کے حقوق دلواؤ اور فیصلے انصاف سے کیا کرو،اور باہمی اختلاف کو اللہ اور اسکے رسول کی طرف پلٹا دو۔ اس کے بعد اَلَمْ تَرَ اِلیَ الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ سے وَلَھَدَیْنٰھُمْ صِرَاطاً مُّسْتَقِیْماً تک منافقین کو جھنجھوڑا گیا کہ انکی روش بھی دیکھو جو باوجود ایمان کے اپنے فیصلے طاغوت سے کرواتے ہیں جبکہ انکو حکم دیا گیا ہے کی کفر کریں طاغوت کا اور وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ سے وَکَفیٰ بِااللہِ عَلِیْماً تک مومنین کے لیے اخروی بشارت ہے۔
تثنیہ: یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ تا فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْراً عَظِیْماً ۔ ایسے(اہل ایمان) حکمرانوں کے حکم کے تحت ہتھیار پہن کر نکلو اور اللہ کی راہ میں مشرکین سے جہاد کرو۔
ثلاثہ: وَمَالَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ تا اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفاً۔ کمزور اور ضعیف مسلمانوں کو جو کہ مکہ میں تکلیف میں ہیں، ظالم مشرکوں کے پنجہ سے چھڑاؤ۔ اس کے بعد اَلَمْ تَرَ اِلیَ الَّذِیْنَ قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ۔۔الخ سے منافقین کو زجر، وَیَقُوْلُوْنَ طَاعَۃٌ فَاِذَا بَرَزُوْا مِنْ عِنْدِکَ ۔۔الخ سے منافقین کے لیے شکویٰ ہے۔ فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ۔۔الخ سے ترغیب الی الجہاد۔ وَمَنْ یَّشْفَعْ شَاعۃً۔۔ الخ حَرِّضِ الْمُؤمِنِیْنَ سے متعلق ہے یعنی لوگوں کو جہاد کی ترغیب دینے کا اللہ تم کو اجر دیگا۔ اَللہُ لَا اِلٰہ اِلاَّ ھُوَ سے جہاد کی غرض وغایت کا بیان ہے۔ اور آخر میں لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمۃ ۔۔الخ سے تخویف اخروی ہے۔
أربعہ: فَمالَکُمْ فِیْ الْمُنَافِقِیْنَ فِئَتَیْنِ تا جَعَلْنَا لَکُمْ عَلَیھِمْ سُلْطَاناً مُّبِیْناً ۔ راستہ میں مدینہ سے باہر جو منافقین تمہیں ملیں انہیں بھی ختم کر ڈالوالبتہ معاہدہ اور غیر جانبدار کافروں کو قتل کرنے سے گریز کرو۔
خمسہ: وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یُّقْتُلَ مُؤْمِناً تا وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَاباً عَظِیْماً ۔ اگر راستہ میں کسی مسلمان کے ہاتھوں غلطی سے کوئی مسلمان قتل ہوجائے تو اس سے متعلق احکام یہ ہیں۔
ستہ: یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا ضَرَبْتُمْ تا اِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً ۔ اگر راستہ میں کوئی شخص تمہیں کہہ دے کہ میں مومن ہوں تو مال کے لالچ میں اسے قتل نہ کرو۔ اس کے بعد لَا یَسْتَوِیْ الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ سے وَکَانَ اللہُ غَفُوْراً رَّحِیْماً ۔تک جہاد کی ترغیب ہےاورمجاہدین کےلئے بشارت اخروی ہے۔
سبعہ: اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىھُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ تا وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۔ اے مکہ کے محصور اہل ایمان! تمہاری مدد کے لیے مجاہدین کی جماعت تو بھیج رہا ہوں لیکن تم مکہ سے ہجرت کرنے کی کیوں کوشش نہیں کرتے۔
ثمانيہ: وَاِذَا ضرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ تا وَکَانَ اللہُ عَلِیْماً حَکِیْماً ۔ جہاد کے لیے جا رہے ہو تو صلوۃ میں قصر کرو اور میدان جنگ میں صلوۃ کا وقت آجائے اور دشمن کے حملہ کا ڈر بھی ہو تو صلوۃ اس طریقہ سے ادا کرو۔
تسعہ: اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِا لْحَقِّ تا وَکَان فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْماً ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی احکام کی تعلیم فرما دی ہے۔ جب آپ سفر جہاد پر نکلیں تو فیصلے حسن ظن سے نہ کریں بلکہ قواعد شرعیہ کے مطابق کریں تاکہ آپ دھوکہ نہ کھا جائیں۔ جیسا کہ طعمہ کے قصہ میں آپ کو دھوکہ دیا گیا۔یہاں تک نو احکام اقتداریہ ختم ہوئے۔ اس کے بعداعلانِ عام کیا گیا کہ لَا خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوَاھُمْ سے وَسَاءَتْ مَصِیْراً تک سرگوشیوں میں خیر نہیں لہذا اب جو کوئی مخالفت کرے رسول کی اور صحابہ کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے اسکا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
احکامِ اقتداریہ کے بعد اصلی دعویٰ یعنی مسئلہ توحید کا ذکر پہلے کی نسبت قدرے تفصیل سے کیا گیا۔ اِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بہ سے مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ اِنْ یَّدْعُونَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلَّا اِنٰثاً سے وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْراً تک شرک اعتقادی اور شرک فعلی ہر دو کی نفی ہے۔ پھر اُولئِکَ مَاوٰھُمْ جَھَنَّمُ سے تخویف اخروی۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعمِلُوْا الصّٰلِحٰت سے بشارت اخروی۔ لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَلَا اَمَانِیِّ اَھْلِ الْکِتٰب سے زجر۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰت مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰ۔۔ الخ سے پھر بشارت اخروی ہے۔ احکام رعیت اور احکام اقتداریہ کے اختتام پر دو احکام رعیت یعنی دوسرے اور چودہویں اور ایک حکم اقتداریہ یعنی نویں پر ان سے متعلق بعض شبہات دور کرنے کے لیے مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔ وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِیْ النِّسَاء سے فَاِنَّ اللہَ کَانَ بِہٖ عَلِیْماً تک دوسرے حکم رعیت پر تنویرہے۔ یعنی مقصد یہ نہیں کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح ناجائز ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ یتیموں اور ضعیفوں سے انصاف کرو۔ وَاِنِ امْرَاَ ۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِھَا نُشُوْزاً سے وَکَانَ اللہُ وَاسِعاً حَکِیْماً تک چودھویں حکم رعیت پر تنویر ہے۔ خاوند بیوی کے درمیان اختلاف ونزاع کو ختم کر کے بہرحال اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ فریقین میں سے کسی ایک کو اپنے حق سے دستبردار ہونا پڑے۔ اگر خاوند پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرے تو پہلی بیوی کے حقوق بھی بدستور ادا کرے اور اسے کالمعلقہ نہ بنائے۔ وَلِلّٰهِ مَافِی السَّمٰوَاتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ سے وَکَانَ اللہُ سَمِیعاً بَصِیْراً تک تخویف ہے۔ سب کچھ اللہ کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ اس سے ڈرو۔ اس کے بعد یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ سے فَاِنَّ اللہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً تک نویں حکم اقتداریہ پر تنویر ہے۔ انصاف کا دامن کسی حال میں مت چھوڑ۔ ماں، باپ، دیگر رشتہ داروں کی رشتہ داری یا کسی غریب آدمی کی غربت کی وجہ سے سچی گواہی میں مت لحاظ کرو۔ اور ان کی خاطر گواہی میں کمی بیشی مت کرو۔ پھر یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُولہٖ سے وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَاباً مُّھِیْناً تک یہود اور منافقین کے لیے زجر و تخویف یعنی جو کتاب دفعۃً نازل ہوئی ہے مثلاً تورات اسے بھی مانو اور جو آہستہ آہستہ نازل ہوئی ہے، یعنی قرآن، اسے بھی مانو، دونوں اللہ کی وحی ہیں۔ اور وَالَّذِیْنَ اٰمِنُوْا بِا اللہِ وَرُسُلِہٖ سے ماننے والوں کے لیے بشارت ہے۔ اس کے بعد یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتٰبِ سے یہود کے ایک سوال کا ذکر ہے کہ قرآن دوسری آسمانی کتابوں کی طرح بیک وقت اکٹھا کیوں نازل نہیں ہوا۔ آگے یہود کے لیے زجروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو رکوع 22 کے آخر تک چلا گیا ہے۔ درمیان میں لٰکِنِ الرَّسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ مِنْہُمْ۔۔ الخ سے فرمایا کہ یہود میں جو راسخ فی العلم ہیں وہ تو مان چکے ہیں۔ اب اِنَّا اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمَا اَوْحَیْنَا اِلیٰ نُوْحٍ سے وَکَفیٰ بِاللہ ِ شَھِیداً تک یہود کے سوال کا جواب ہے کہ باقی انبیاء (علیہم السلام) پر بھی تمام وحی دفعۃً نازل نہیں ہوئی بلکہ سب پر وحی آہستہ آہستہ آتی تھی۔ اگرچہ بعض انبیاء (مثلاً موسیٰ (علیہ السلام)) پر کتابیں ایک دفعہ نازل ہوئیں لیکن باقی وحی ان پر بھی متفرق طور پر ہی آتی تھی۔ پھر اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْ ا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے وَکَانَ اللہُ عَلِیْماً حَکِیْماً تک یہود کے لیے تخویف اخروی ہے۔ یَا اَھْلَ الْکِتٰبِ لَاتَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ سے وَکَفیٰ بِاللہِ وَکِیْلاً تک یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتٰبِ سے متعلق ہے۔ یہود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی طعن کرتے تھے کہ وہ نبی نہیں۔ اگر نبی ہوتے تو تورات کی طرح ان پر قرآن سارا ایک ہی دفعہ نازل ہوتا۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی برا کہتے تھے کہ وہ عیاذاً باللہ ابن الزانیہ ہے۔ اس لیے فرمایا۔ نہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن کرو نہ عیسیٰ کو برا کہو۔ اگرچہ وہ الٰہ اور معبود نہیں لیکن ان کو برا بھی مت کہو۔ پھرلَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدَ اللہِ سے وَلَا یَجِدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْراً تک وَ لَا تَقُوْلُوْا ثلٰۃ سے متعلق ہے یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بھی نہ بناؤ اور ان کو برا بھی نہ کہو۔ دیکھو عیسیٰ (علیہ السلام) اور فرشتے اللہ کے بندے اور پجاری ہونے سے نفرت نہیں کرتے بلکہ سب اللہ کی عبادت کرتے اور اسے ہی پکارتے ہیں پھر ان کو کیوں معبود بناتے اور پکارتے ہو۔ آگے یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاء کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ سے وَ یَھْدِیْہِم اِلَیْہِ صَراطاً مُّسْتَقِیْماً تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لانے کی ترغیب اور ایمان لانے والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ پھر یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلۃ۔۔ الخ سورت کی آخری آیت احکام رعیت میں سے حکم وراثت پر تنویر ہے پہلے کلالہ کے اخیافی بھائی بہنوں کا حصہ بیان کیا گیا تھا۔ یہاں کلالہ کے عینی بھائی بہنوں کا حصہ بیان ہوا ہے۔ کلالہ اسے کہتے ہیں جس کے اصول و فروع میں کوئی مذکر نہ ہو۔ لیکن اس میں یہ بھی شرط ہے کہ اس کی بیٹی بھی نہ ہو جیسا کہ وَ لَہٗ اُخْتٌ اس پر قرینہ ہے۔ یعنی اس کے نہ ماں باپ ہوں نہ بیٹے اور بیٹی۔ نیز مسئلہ وراثت سے سورت کو ختم کر کے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ سورت کا مقصد احکام کا بیان ہے۔
:تنبیہ
سورة آل عمران میں شرک اعتقادی کی ایک قسم کی نفی کی گئی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کو پکار اور عبادت کے لائق اعتقاد نہ کیا جائے۔ سورة نساء میں شرک اعتقادی کی دوسری قسم کا رد کیا گیا ہے یعنی غیر اللہ کے احکام کے متعلق واجب الاتباع ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے کیونکہ غیر اللہ کے احکام کو واجب الاتباع سمجھنا شرک ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے سورة النساء میں احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ شرک نہ کرو تو اس سے معلوم ہوا کہ اگر آدمی یہ اعتقاد رکھے کہ حکم فرمایا ہے ان کے علاوہ بھی کچھ احکام کا اتباع اس پر واجب ہےجو اسکے مخالف ہیں تو یہ شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان احکام کی تعمیل نہ کرنے پر (جہنم میں ہمیشہ رہنے) کی وعید سنائی گئی ہے۔ چھٹے حکم رعیت کے بعد یُدْخِلْہ نَاراً خَالِداً فِیْھا سے اور پانچویں حکم اقتداریہ کے بعد فَجَزَاءُ ہٗ جَھَنَّمُ خَالِداً فِیْھَا سےجہنم میں ہمیشہ رہنےکی وعید مذکور ہے۔ قرآن میں ہمیشہ اطاعت اور عصیان کا درجہ کامل ہی بیان کیا جاتا ہے۔ اسی لیے مومن کے ذکر کے بعد اس کی جزاء کامل یعنی جنات نعیم کا ذکر آتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا نہ لانے کی سزا جہنم میں ہمیشہ رہنےکی بیان کی جاتی ہے۔ یعنی جو اللہ کے احکام کو نہ مانے۔ ان پر ایمان نہ لائے اور ان کے خلاف کو حلال جانے تو وہ جہنم میں ہمیشہ رہناہوگا کیونکہ یہ مرتبہ کفر کا ہے۔
:مختصر ترین خلاصہ
تشکیل اسلامی معاشرہ کے لئے جامع قوانین بیان کیے گئےہیں،لہذا اندرونی نظم و ضبط، اصلاح معاشرہ، باہمی معاملات میں عدل و انصاف۔ ایک دوسرے کے حقوق کی نگہداشت اور ایک دوسرے پر فضل و احسان کا برتاؤ کرنے سے ہے۔اسکے علاوہ منافقین اور اہل کتاب کے فریب کارانہ حربوں سے اہل ایمان کو آگاہ کیا گیا اورانکےساتھ کسی قسم کی ہمدردی ومحبت سےمکمل طور پر روک دیا گیا۔لہذا کفر بطاغوت ایمان کی اولین شرط ہے۔ہیں۔ اس اعتبار سے یہورت دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ ابتداء سے لیکر و نُدْخِلُھُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا تک ہے اور دوسرا حصہ اِنَّ اللہَ یَامُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمَانَاتِ اِلیٰ اَھْلِہَا سے لے کر وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطاً تک ہے۔ پہلے حصہ میں احکام رعیت اور دوسرے حصہ میں احکام اقتداریہ کا بیان ہے۔ اور ہر حصہ کے بعد اصل مسئلہ توحید بیان کیا گیا ہے۔ حصہ اول کے بعد اجمال کے ساتھ اور حصہ دوم کے بعد تفصیل کے ساتھ۔ احکام رعیت کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی حق تلفی نہ کرو اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اور احکام اقتداریہ کا حاصل یہ ہے کہ دوسروں کی حق تلفی اور ان پر ظلم نہ ہونے دو ۔ سورت کی ابتداء میں تخویف اخروی ہے یعنی جو احکام آگے آرہے ہیں ان کو بجا لاؤ۔ ورنہ آخرت میں تمہیں عذاب دیا جائے گا۔ اس کے بعد عذاب سے بچنے کے لیے تین امور بیان کیے گئے۔ یعنی ظلم نہ کرو۔ شرک نہ کرو۔ اور احسان کرو۔ احکام رعیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ظلم نہ کرو اور اس کے بعد ہی باقی دونوں امور بھی مذکور ہیں۔