|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ القصص

سورۃ  القصص مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 28 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے49 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 88آیات ہیں جو9 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام آیت نمبر 25  وَ قَصَّ عَلیہ القَصَصَ سے ماخوذ ہے ، یعنی وہ سورة جس میں القصص کا لفظ آیا ہے۔ اس کا موضوع ان شبہات اور اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر وارد کیے جا رہے تھے، اور ان عذرات کو قطع کرنا ہے جو آپ پر ایمان نہ لانے کے لیے پیش کیے جاتے تھے۔ اس سورت کے ابتدائی پانچ رکوعات میں یہ موضوعات ہیں کہ موسیؑ کی ولادت آپکا شیرخوارگی کے دوران تابوت میں ڈال کر دریا میں بہایا جانا تابوت کو فرعون کے اہل خانہ کا پکڑ لینا پھر آپ کی رضاعت کے لیے دودھ پلانے والی عورتوں کا جمع ہونا اور آپکا کسی عورت کے پاس نہ جانا پھر آپ کی والدہ ہی کا کسی طرح پہنچنا اور انہیں دودھ پلانے کے ذمہ داری کا سونپا جانا پھر آپ کا فرعون کے گھر میں بچپن اور جوانی کا دور گزارنا پھر آپ کے ہاتھوں فرعونی قوم کے ایک شخص کا قتل ہونا اس طرح ساری فرعونی قوم کا آپ کے خلاف ہو جانا اور آپکا رات کی تاریکی میں مصر سے مدین کی طرف ہجرت کرنا وہاں آپ کا نکاح کرنا اور وہاں دس برس گزارنا پھر وہاں سے واپس آنا اور راستہ میں کوہ طور کے قریب حصول نبوت فرمانا اور مصر میں آکر تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ان سب امور پر روشنی ڈالی گئی ہے پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ کفار کا معاندانہ رویہ بتایاگیاہے اورپھر رد شرک کے ساتھ قصہ قارون سے عبرت دلائی گئی ہے اور آخری میں ترغیب الیٰ القرآن اور مسئلہ الہٰ کا اعادہ کیا گیا۔

 :سورة القصص کا ماقبل سے ربط

سورۃ النمل تک مسئلہ توحید اور دعوی (تبارک) عقلی و نقلی دلائل سے واضح کیا جا چکا ہے یہاں تک کہ نمل یعنی چیونٹی کی بات سے بھی معلوم ہوگیا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب داں نہیں۔ لہٰذا برکات دہندہ بھی وہی ہے اس مسئلہ کی وجہ سے آپ پر تکلیفیں بھی آئیں گی قصص موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھئے توحید کی خاطر ان پر کس قدر تکلیفیں آئیں۔ لیکن آخر غلبہ انہی کو حاصل ہوا۔

 الفرقان، الشعراء اور النمل میں عقل و نقل اور وحی کے دلائل سے واضح اور ثابت کردیا گیا کہ برکات دہندہ عالم الغیب، لائق عبادت و پکار اور متصرف و مختار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ اسی مسئلہ توحید کی وجہ سے مشرکین رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ستاتے اور ایذائیں دیتے تھے۔ اب سورۃ القصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ اور کافروں کی ایذا رسانی پر ان کے صبر و استقلال کا ذکر کیا گیا۔ مقصد یہ ہے کہ اے رسول ! مسئلہ توحید بیان کیے جاؤ۔ دعوت و تبلیغ پر مصائب آئیں گے انہیں برداشت کرنا اور ثابت قدم رہنا۔ آپ میرے سچے رسول ہیں آخر غلبہ آپ ہی کو حاصل ہوگا اور آپ کے دشمن مغلوب ہوں گے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے دعوت توحید پر مسلسل مصائب اٹھائے، کافروں نے ان کی دعوت کو نہ مانا اور انہیں بہت ستایا آخر ہم نے ان کو اور ان کے متبعین کو سربلند اور غالب کیا اور ان کے دشمنوں کو ان کے سامنے ہلاک کیا۔

 تلک ایت الکتب المبین  یہ تمہید مع ترغیب ہے۔ نتلوا علیک۔ تا۔ ماکانوا یحذرون  یہ سارے قصے کا اجمال ہے۔ اس کے بعد واوحینا الی موسیٰ ۔ تا۔ ویوم القیمۃ ھم من المقبوحین (رکوع 4) میں قصے کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ اس قصے میں چھ امور مذکور ہے۔ امر اول : ان فرعون علا فی الارض۔۔ الخ، فرعون بڑا سرکش تھا وہ محکوم قوم پر ظلم و ستم کرتا تھا۔ امر دوم : انا رادوہ الیک۔۔ الخ، موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ہم نے الہام کے ذریعہ سے بتایا کہ غم نہ کر ہم موسیٰ کو تمہارے پاس واپس لائیں گے۔ امر سوم : وجاعلوہ من المرسلین، تمہیں تو اس کا علم نہیں ہم موسیٰ کو مرتبہ رسالت بھی عطا کریں گے۔ امر چہارم : قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظہیرا للمجرمین، موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے عہد کیا کہ تو نے مجھ پر مہربانی فرمائی کہ میری خطا معاف کردی میں عہد کرتا ہوں کہ آئندہ مجرموں کی اعانت نہیں کروں گا۔ امر پنجم : وقال موسیٰ ربی اعلم بمن جاء بالہدی۔۔ الخ (کوع 4)۔ قوم کے رد و انکار کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ ہدایت پر کون ہے اور بہتر انجام کس کا ہوگا یہ سب کچھ میری پروردگار کو معلوم ہے۔ امر ششم : وھو اللہ لا الہ الا ھو ۔۔الخ (رکوع 7) ۔ اللہ کے سوا دعاء اور پکار کے لائق کوئی نہیں۔ یہ امور موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات سے متعلق ہیں۔ سورت کے آخر میں ایسے ہی چھ امور مذکور ہوں گے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے متعلق ہیں۔ ولقد اتینا موسیٰ ۔۔الخ، پہلی قوموں نے مسئلہ توحید کو نہ مانا تو انہیں ہلاک کردیا گیا پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے دعوت توحید پیش کی اور فرعون اور اس کی قوم نے انکار کیا تو انہیں بھی ہلاک کردیا گیا اب آپ کو قرآن دے کر بھیجا ہے آپ کے منکرین بھی ہلاک ہوں گے اور آخر غلبہ آپ کا ہوگا۔

 موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کرنے کے بعد بطور جملہ معترضہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا ذکر کیا گیا۔ وما کنت بجانب الغربی۔ تا۔ لعلھم یتذکرون (رکوع 5) ۔ یہ جملہ واقعات جو سینکڑوں برس آپ سے پہلے پیش آچکے ہیں ان میں آپ موجود نہ تھے۔ لیکن ہم نے اپنی مہربانی سے آپ کو رسالت کا منصب عطا کیا اور بذریعہ وحی یہ تمام واقعات آپ کو بتا دئیے۔ ولولا ان تصیبھم مصیبۃ۔۔ الخ، یہ تخویف دنیوی ہے۔ فلما جاءھم الحق  یہ شکوی ہے یعنی ہماری طرف بھی ویسی ہی کتاب نازل کی جاتی جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی۔ اولم یکفروا ۔۔الخ یہ جواب شکوی ہے۔ ان کا یہ مطالبہ محض ضد پر مبنی ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کا بھی انکار کرچکے ہیں۔ ولقد وصلنا لھم القول۔۔ الخ (رکوع 6) یہ ترغیب الی القرآن ہے۔ الذین اتینھم الکتب ۔۔الخ، یہ پچھلی کتابوں کے عالموں سے دلیل نقلی ہے۔ انصاف پسند علماء اہل کتاب قرآن پر ایمان لا چکے ہیں یہ اس کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ اولئک یوتون اجرھم۔۔ الخ، مومنین اہل کتاب کے لیے بشارت اخروی ہے۔ انک لا تہدی من احببت۔۔ الخرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) متصرف فی الامورو مختار نہیں ہیں ،لاکھ کوششوں کے بعد بھی ابو طالب مشرک مرگیا اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد:جلد نہم: مسیب بن حزن (رض) کی مرویات: حدیث نمبر 3636)۔ وقالوا ان نتبع الہدا ۔۔الخ یہ دوسرا شکوی ہے۔ اگر ہم آپ کی بات مان لیں تو دوسرے مشرکین ہمیں یہاں سے نکال دیں گے۔ اولم نمکن لھم۔۔ الخ یہ جواب شکوی ہے۔ یعنی ہم نے ان کو حرم میں پناہ دے رکھی ہے جس کا احترام سب کے دلوں میں ہے اس لیے اگر وہ ہدایت کو قبول کرلیں تو کوئی انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ و کم اھلکنا من قریۃ بطرت۔۔ الخ، یہ تخویف دنیوی ہے۔ ویوم ینادیہم فیقول۔۔ الخ (رکوع 7) تخویف اخروی ہے۔ فاما من تاب و امن ۔۔الخ بشارت اخروی ہے۔ اس کے بعد اس دعوی توحید پر پانچ عقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں جن میں سےدو علی سبیل الاعتراف من الخصم ہیں۔ پہلی عقلی دلیل، و ربک یخلق ما یشاء و یختار ۔۔الخ، سارے جہاں کا خالق اور متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا برکات دہندہ اور پکار کے لائق بھی وہی ہے۔ دوسری عقلی دلیل، وربک یعلم ما تکن صدورھم وما یعلنون، عالم الغیب بھی وہی ہے لہٰذا وہی حاجت روا اور مجیب الدعا ہے۔ وھو اللہ لا الہ الا ھو ۔۔الخ یہ مذکورہ دونوں دلیلوں کا ثمرہ ہے۔ جب متصرف و مختار اور عالم الغیب وہی ہے تو غائبانہ حاجات میں پکارنے لائق اور برکات دہندہ بھی وہی ہے۔ تیسری عقلی دلیل علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ قل ارایتم ان جعل اللہ ۔۔الخ چوتھی عقلی دلیل علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ قل ارایتم ان جعل اللہ علیکم النھار، یہ سارا نظام شمسی اللہ کے اختیار میں ہے۔ دن رات کی آمد و رفت اسی نظام کا حصہ ہے۔ جس کے قبضے میں یہ سب کچھ ہے وہی پکار کے لائق ہے۔ پانچویں عقلی دلیل یہ در اصل تیسری اور چوتھی دلیلوں کا بالاجمال اعادہ ہے۔ و من رحمتہ جعل لکم الیل والنھار ۔۔الخ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دن رات کو پیدا فرمایا رات تمہارے آرام کے لیے ہے اور دن کاروبار کے لیے۔ اس مالک، رحیم و مہربان کا شکر ادا کرو اور عبادت اور پکار میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ ویوم ینادیہم فیقول این۔۔ الخ، یہ تخویف اخروی ہے۔ ان قارون کان من قوم موسیٰ ۔۔الخ یہ تخویف دنیوی ہے قارون کا حال دیکھو کتنا بڑا دولت مند اور کس قدر وسیع وسائل کا مالک تھا لیکن انکار توحید پر اللہ کے عذاب سے اسے کوئی چیز نہ بچا سکی۔ تلک الدار الاخرۃ ۔۔الخ (رکوع 9) ، یہاں سے ان چھ امور کا ذکر شروع ہوتا ہے جو مذکور چھ امور پر متفرع ہے۔ فرعون متکبر و سرکش تھا جسے دنیا ہی میں ہلاک کردیا گیا اور یہاں فرمایا جو لوگ زمین پر سرکشی اور فساد نہیں کرتے بلکہ اللہ کی فرماں برداری کرتے ہیں آخرت میں نیک انجام صرف انہی کا ہوگا۔ ان الذی فرض علیک القرآن ۔۔الخ، یہ امر دوم پر متفرع ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے پاس واپس بھیجا اسی طرح وہ آخرت میں عظیم الشان ٹھکانے کی طرف یا بعد ہجرت مکہ مکی طرف آپ کو واپس لوٹائے گا۔ قل ربی اعلم من جاء بالھدی ۔۔الخ، یہ امر پنجم پر متفرع ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے ہدایت پر کون ہے اور نیک انجام کس کا ہوگا اسی طرح رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہی جواب دینے کا حکم دیا گیا۔ وما کنت ترجوا ان یلقی۔۔ الخ، یہ امر سوم پر متفرع ہے۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ ان کا بیٹا بڑا ہو کر پیغمبر ہوگا اسی طرح رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ آپ پر اللہ کی وحی نازل ہوگی۔ فلا تکونن ظہیرا للکفرین، یہ امر چہارم پر امر متفرع ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عہد کیا تھا کہ میں مجرموں سے تعاون نہیں کروں گا یہاں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس سے منع کیا گیا۔ ولا تدع مع اللہ ۔۔الخ، یہ امر ششم پر متفرع ہے اور سورت کا ثمرہ ہے۔ اس سورت میں مذکورہ عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت ہوگیا کہ متصرف و کارساز، عالم الغیب اور برکات دہندہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں لہٰذا حاجات و مصائب میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔

مختصر ترین خلاصہ

یہ سورۃ موسیٰ (علیہ السلام) کی قبل نبوت زندگی کے حالات، نبوت کے بعد دعوت توحید، قوم کے ردّ و انکار اور ایذا رسانی، آخر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے غلبہ اور فرعون اور اس کی قوم کی مغلوبیت وہلاکت کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد شکوے، تخویفیں اور بشارتیں مذکور ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ دعوی توحید پر پانچ عقلی دلیلیں جن میں سے تیسری اور چوتھی علی سبیل الاعتراف من الخصم ہیں اور پہلی دو کے بعد ان کا ثمرہ بھی بیان کیا گیا ہے اور ایک دلیل نقلی علماء اہل کتاب سے ذکر کی گئی ہے۔اور آخری آیت میں مسئلہ توحید کا اعادہ کیا۔ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ  ۘ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ  ۣ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ  ۭ لَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ اور نہ پکارو اللہ کے ساتھ کسی معبود کو (کیونکہ) اس کے سوا کوئی اور معبود(برحق) نہیں۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم (سب) کو لوٹ کر جانا ہے۔