|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ العنکبوت

سورۃ  العنکبوت مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 29 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے85 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 69آیات ہیں جو7 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام آیت نمبر 41 مَثَلُ الَّذِیْنَ التَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْ لِیَاءَ کَمَثَلِ العَنْکَبُوْتِ سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورۃہے جس میں   عنکبوت یعنی مکڑی کا ذکر ہے۔ اس سورۃعنکبوت میں حقوق والدین اور جو کسی کو گمراہ کرے وہ اپنا بوجھ بھی اٹھاتا ہے اور اسکا بھی،نوح علیہ السلام کی تبلیغی سرگرمیاں ابراہیم علیہ السلام کی عظمت و رفعت خصوصا وہ واقعہ جب قوم لوط کو ہلاک کرنے والے فرشتے پہلے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور بتایا کہ قوم لوط کو تباہ کرنے جارہے ہیں اور ساتھ ہی فرشتوں نے آپ کو اولاد نرینہ کی خوشخبری سنائی اس کے بعد اس صورت میں مختلف نافرمان قوموں کی ہلاکت کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے پھر صلوۃ کی اہمیت و برکت پر روشنی ڈالی گئی پھر قرآن کا پر اثر ہونا بتایا گیا اور آخر میں دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا لازوال ہونا بتایا گیا اور انسان کو متوجہ کیا گیا کہ وہ اپنی آخرت کی طرف متوجہ رہے ۔

:سورةالعنکبوت کا ماقبل سے ربط

 سورة القصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کے القصص (قصے)سے معلوم ہوگیا کہ انہوں نے مسئلہ توحید (اللہ کے سوا کوئی کارساز اور برکات دہندہ نہیں لہٰذا حاجات میں اس کے سوا کسی کو غائبانہ مت پکارو) کی خاطر کس قدر تکلیفیں اٹھائیں اور اب فرمایا غیر اللہ کو برکات دہندہ اور کارساز سمجھنا بالکل اسی طرح بےسود ہے جس طرح عنکبوت (مکڑی) کا جالا۔ جس طرح مکڑی کا گھر سردی گرمی اور طوفانِ باد و باراں سے اسے نہیں بچا سکتا اسی طرح غیر اللہ کی پناہ مصائب و بلیات میں کام نہیں آسکتی۔

 سورة الفرقان میں یہ دعوی پیش کیا گیا کہ اللہ کے سوا کوئی برکات دہندہ نہیں۔ الفرقان میں اس دعوے پر عقلی دلائل اور اس کے بعد الشعراء میں نقلی دلائل ذکر کیے گئے۔ پھر نمل میں اس کے علل بیان کیے گئے اور القصص میں بتایا گیا کہ اے پیغمبر مسئلہ توحید کی وجہ سے آپ پر مصائب آئیں گے دیکھو اس دعوے کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) پر کس قدر مصیبتیں آئیں اب عنکبوت میں بتایا جائے گا کہ اے ایمان والو ! اس دعوے کو مان لینے کے بعد تم پر بھی آزمائشیں آئیں گی اس لیے ثابت قدم رہنا۔

پہلا دعویٰ :مسئلہ توحید کی وجہ سے ایمان والوں پر مصائب آئیں گے

احسب الناس ان یترکوا۔ تا۔ ولیعلمن الکذبین۔کیا لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اللہ کی رضامندی اور نعیم جنت حاصل کرنے کے لیے دعوی توحید کو صرف مان لینا ہی کافی ہے اور اس کے بعد وہ آزاد ہیں اور آزمائشوں اور تکلیفوں کی کسوٹی پر انہیں پرکھا نہیں جائے گا ؟ استفہام انکاری ہے یعنی لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں بلکہ دعوی توحید کی وجہ سے انہیں مشرکین کے ہاتھوں مصائب و مشکلات کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ ولقد فتنا۔۔ الخ۔ جیسا کہ انبیاء سابقین (علیہم السلام) کو بھی ایسا کرنا پڑا۔ جب انہوں اپنی قوموں کے سامنے دعوت توحید پیش کی تو قوموں نے انہیں گوناگوں مصائب کا تختہ مشق بنایا اسی طرح ان کے متبعین کو بھی الآم ومصائب میں مبتلا کیا گیا۔ہم ہجرت سے، مصائب و مشکلات سے اور اقامت فرائض و واجبات سے مسلمانوں کی آزمائش کریں گے تاکہ مخلص اور منافق، راسخ الایمان اور ضعیف الایمان میں امتیاز ہوجائے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا وسزا دی جائے۔ اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ۔۔الخ

یہ دوسرا دعوی ہے۔ مشرکین کا خیال باطل ہے کہ وہ ہمارے عذاب سے بچ جائیں گے۔یعنی  جو لوگ ہر وقت کفر وشرک اور فسق و فجور میں مبتلا رہتے اور غیر اللہ کو پکارتے رہتے ہیں کیا ان کا خیال ہے کہ ہم ان کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا نہیں دے سکیں گے اور وہ ہمارے عذاب سے بچ نکلیں گے ؟ ساء ما یحکمون یہ بہت بری بات اور صریح غلط خیال ہے۔ جب اللہ کا عذاب آگیا تو وہ اس سے ہرگز نہیں بچ سکیں گے۔ مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ    تا  يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ   تک پہلے دعوے سے متعلق بشارت و تخویف ہے۔ دنیا میں جو وہ افتراء کرتے رہے اور جھوٹی باتیں بناتے رہے آخرت میں ان کے بارے میں ان کی جواب طلبی ہوگی۔مگر کفار کے ستانے پر اہل ایمان صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں۔یعنی مصائب سے تنگ آکر مسئلہ توحید بیان کرنا ہی نہ چھوڑ دیں۔اس پر تین واقعات مرتب ہیں۔ پہلا واقعہ نوح (علیہ السلام) کا ہے۔ ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ (رکوع 2) ۔ تا۔ وجعلناھا ایۃ للعلمین۔ نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال مسئلہ توحید کی خاطر مشرکوں کے ہاتھوں گوناگوں تکلیفیں اٹھائیں۔ ایمان والو ! اسی طرح تم پر آزمائشیں آئیں گی۔ دوسرا واقعہ  ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ و ابراہیم اذ قال لقومہ (رکوع 2) ۔ تا۔ وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے مسئلہ توحید کی خاطر اپنی قوم کے ہاتھوں کیسی کیسی اذیتیں اٹھائیں یہاں تک کہ انہیں آگ میں ڈالا گیا۔ تیسرا قصہ لوط (علیہ السلام) کا ہے۔ ولوطا اذ قال۔ تا۔ ایۃ بینۃ لقوم یعقلون (رکوع 4) ۔ لوط (علیہ السلام) اپنی سرکش قوم کے ہاتھوں مصائب و تکالیف میں مبتلا ہوئے۔ قوم کے طعنے سنے اور قوم نے ان کے معزز مہمانوں کی بےعزتی کا ارادہ کر کے انہیں اذیت پہنچائی۔ ایمان والو ! ان انبیاء کرام (علیہم السلام) کی طرح تم پر بھی مسئلہ توحید کی وجہ سے تکلیفیں آئیں گی اس لیے ان پر صبر کرنا ہوگا۔ یہ تینوں قصے اگرچہ بالذات اور براہ راست پہلے دعوے سے متعلق ہیں لیکن بالواسطہ دوسری دعوی بھی ان سے ثابت ہورہا ہے یعنی یہ منکرین توحید اور معاند قومیں ہماری گرفت سے بچ نہ سکیں۔ جب ہمارا عذاب آپہنچا تو انہیں ہلاک کردیا گیا۔ من کان یرجوا لقاء اللہ۔۔ الخ (رکوع 1) یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ اللہ کے دین کی خاطر جو مصائب مقدر ہیں وہ ضرور آئیں گے ان سے گھبرانا نہیں۔ ومن جاھد فانما یجاھد۔۔ الخ، توحید اور دین حق کی خاطر جو لوگ تکلیفیں اٹھاتے ہیں اس میں ان کا اپنا ہی فائدہ ہے کسی پر احسان نہیں۔ ان الذین امنوا۔۔ الخ بشارت اخروی۔ ووصینا الانسان، مسئلہ توحید کی وجہ سے تمہیں مصائب کا سامنا کرنا ہوگا یہ نہایت عظیم الشان دعوی ہے اسی لیے ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر مشرک والدین تمہیں شرک پر مجبور کریں تو اس معاملے میں ان کی اطاعت بھی جائز نہ ہوگی۔ والذین اٰمنوا ۔۔الخ، بشارت اخروی۔ ومن الناس من یقول امنا۔۔ الخ، بیان حال منافقین، یعنی بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو تھوڑی سی تکلیف ہی سے ایمان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وقال الذین کفروا۔۔ الخ، شکوی مع تخویف اخروی۔ 

 دوسری دعوی: مشرکین ہماری گرفت سے بچ نہیں سکیں گے

 ام حسب الذین یعملون السیئات ان یسبقونا ۔۔الخ۔ اس دعوے پر چار قصے متفرع ہیں۔ پہلا قصہ قوم شعیب (علیہ السلام) کا ہے۔ والی مدین اخاھم شعیبا۔ تا۔ فاصبحوا فی دارھم جثمین۔ (رکوع 4)۔ دوسرا اور تیسرا قصہ عاد وثمود و قوم ہود و صالح (علیہما السلام) کا ہے۔ وعادا وثمود۔ تا۔ وکانوا مستبصرین۔ چوتھا قصہ قوم موسیٰ (علیہ السلام) کا ہے۔ وقارون و فرعون و ھامان۔ تا ولکن کانوا انفسہم یظلمون۔ ان قوموں نے انتہائی سرکشی کی اور ضد وعناد کی وجہ سے مسئلہ توحید کا انکار کیا۔ وہ فسق وفجور اور انکار و عصیان میں اس قدر آگے بڑھ گئے گویا ان کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے ہاتھ نہیں آسکیں گے اور اس کی گرفت سے بچ جائیں گے، لیکن ہم نے سب کو مقررہ و وقت پر پکڑ لیا اور دردناک عذاب سے ہلاک کردیا اور ان میں سے کوئی بھی ہمارے عذاب سے بچ نہ سکا۔ فاستکبروا فی الارض وما کانوا سبقین۔

مرکزی دعوی: اللہ کے سوا کوئی برکات دہندہ اور کارساز نہیں۔ مثل الذین اتخذوا من دونہ اولیاء۔ تا۔ وما یعقلہا الا العلمون۔ اس کے بعد اس دعوے پر چار عقلی دلیلیں، ایک دلیل وحی اور ایک نقلی دلیل مذکور ہے۔ وخلق اللہ السموت والارض بالحق۔ یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان کو اظہار حق کی خاطر اسی نے پیدا کیا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی قدرت کاملہ، اس کی وحدانیت اور کارسازی کی دلیل ہے۔ اتل ما اوحی الیک ۔۔الخ (رکوع 5) ۔ یہ دلیل وحی ہے۔ جو کتاب آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجی جا رہی ہے آپ اس کی روشنی میں مسئلہ توحید بیان کرتے رہیں۔ واقم الصلوۃ، یہ امر مصلح ہے۔ مشرکین کی ایذاء رفع کرنے کے لیے آپ صلوۃ قائم کریں۔ ولا تجادلوا اھل الکتب، یہ طریق تبلیغ ہے۔ یعنی نرمی کے ساتھ تبلیغ کرتے رہو۔ فالذین اتینہم الکتب، دلیل نقلی از مومنین اہل کتاب۔ یعنی اہل کتاب کے انصاف پسند لوگ بھی مسئلہ توحید کو مان چکے ہیں یہ بھی اس کی سچائی کی دلیل ہے۔ و ما کنت تتلوا۔۔ الخ، یہ جملہ معترضہ ہے برائے بیان صداقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ یعنی لکھنا پڑھنا نہ جاننے کے باوجود آپ یہ علوم و معارف بیان کر رہے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور آپ پر اللہ کی جانب سے وحی آتی ہے اور جو دعوی توحید آپ پیش کر رہے ہیں اس میں آپ سچے ہیں۔ وقالوا لولا انزل علیہ۔۔ الخ۔ یہ شکوی ہے مشرکین کہتے ہیں یہ پیغمبر ہمیں منہ مانگے معجزے کیوں نہیں دکھاتا ؟ قل انما الآیت عنداللہ۔۔ الخ۔ جواب شکوہ ہے۔ معجزات اللہ کے اختیار میں ہیں میرے اختیار میں نہیں ہیں۔ اولم یکفہم انا انزلنا علیک، یہ بھی جواب شکوی سے متعلق ہے۔ کیارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی معلوم کرنے کے لیے انہیں یہ معجزہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے جو ہر لحاظ سے معجزہ ہے اور جس کی مثال پیش کرنے سے وہ عاجز ہوچکے ہیں۔ ویستعجلونک بالعذاب ۔۔الخ زجر مع تخویف دنیوی واخروی۔ یعبادی الذین امنوا ۔۔الخ یہ ابتداء سورت یعنی ومن جاھد فانما یجاھد لنفسہ میں جس چیز کی طرف اشارہ تھا یہاں اس کی صراحت ہے۔ یعنی اگر عبادت کرسکو۔ والذین امنوا وعملوا الصلحت بشارت اخروی۔ و کاین من دابۃ الخ (رکوع 6) یہ جواب سوال مقدر ہے یعنی اگر وطن سے ہجرت کر جائیں گے تور زق کہا سے آئے گا۔ فرمایا یہ بےزبان چوپائے کب اپنی روزی اپنے ساتھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ جس طرح وہ چوپایوں کو روزی دیتا ہے تمہیں بھی دے گا اس کی فکر نہ کرو۔ ولئن سالتھم من خلق السموات۔۔ الخ، یہ دعوی توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ جب مشرکین کو تسلیم ہے کہ زمین و آسمان کا خالق اور نظام کائنات میں متصرف و مختار اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ان کی کیوں عقل ماری گئی ہے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو برکات دہندہ اور کارساز سمجھ کر غائبانہ پکارتے ہیں۔ اللہ یبسط الرزق لمن یشاء۔۔ الخ، یہ تیسری عقلی دلیل ہے۔ رزق کی فراخی اور تنگی اللہ کے اختیار میں ہے اور سب کچھ جاننے والا بھی وہی ہے لہٰذا کارساز اور مستحق دعاء و پکار بھی وہی ہے۔ ولئن سالتہم من نزل۔۔ الخ یہ چوتھی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ مشرکین یہ بھی مانتے ہیں کہ آسمان سے بارش برسانا اور زمین میں سر سبز و شاداب کھیت اگانا بھی اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ قل الحمد للہ ۔۔الخ جب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے تو معلوم ہوا کہ تمام صفات کارسازی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں، اس کے سوا کوئی کارساز اور دعاء و پکار کے لائق نہیں۔ فاذا رکبوا فی الفلک ۔۔الخ (رکوع 7) زجر بر مشرکین۔ جب ان کی کشتیاں خطرات میں گھر جاتی ہیں تو وہ سب کو چھوڑ چھاڑ خالص اللہ کو پکارتے ہیں، جب اللہ ان کی کشتیوں کو صحیح سلامت کنارے لگا دیتا ہے تو پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ اولم یروا ان اجعلنا۔۔ الخ اہل مکہ پر ایک اور بہت بڑے انعام کا ذکر فرمایا یعنی وہ دلائل میں بھی غور و تدبر کریں اور ہمارے احسانات بھی دیکھیں کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کے شہر کو حرم محترم اور مقام امن بنا دیا ہے سارا عرب بیت اللہ کی وجہ سے مکہ والوں کی عزت کرتا اور ان کے مال و جان اور عزت و آبرو کو ہاتھ نہیں ڈالتا جبکہ ان کے گرد و نواح میں رہنے والے دوسرے لوگوں کا مال و جان محفوظ نہیں۔ آئے دن قتل و غارت کا بازار گرم رہتا ہے۔ مگر یہ اہل مکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات کی قدر بھی نہیں کرتا اور خود ساختہ معبودوں کو کارساز سمجھتے اور اللہ کی نعمتوں کی بےقدری کرتے ہیں۔ افبالباطل یومنون الخ کیا ان دلائل اور احسانات کے باوجود وہ باطل یعنی خود ساختہ معبودوں کو کارساز سمجھتے رہیں گے اور ہمارے احسانات کی ناشکری کرتے رہیں گے۔ومن اظلم ممن افتری ۔۔الخ زجر مع تخویف اخروی۔ والذین جاھدوا فینا ۔۔الخ یہ بھی ابتدائے سورت سے متعلق ہے مسئلہ توحید کی وجہ سے کفار کی طرف سے مصائب آئیں گے جو لوگ مردانہ وار ان کا مقابلہ کریں گے اور توحید کی خاطر وطن سے بےوطن ہونے پر آمادہ ہوجائیں ہم انہیں راہ توحید پر ثابت قدم رکھیں گے اور انہیں سیدھی راہ پر قائم رہنے کی توفیق عطا کریں گے۔

مختصر ترین خلاصہ

مسئلہ توحید کی وجہ سے ایمان والوں پر مصائب آئیں گے،اور مسئلہ توحید کا انکار کرنے والے ہماری گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ اس کے بعد سات واقعات مذکور ہیں۔   تاکہ نصحیت حاصل کرنے میں امم سابقہ معاون ہوسکیں۔