سورۃ الزخرف مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 43 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے63نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 89آیات ہیں جو7 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام آیت نمبر 35 کے لفظ وَزُخْرُفاً سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورة جس میں لفظ زُخْرُفْ آیا ہے۔اس سورۃ میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ عقائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے، اور نہایت محکم و دل نشین طریقے سے ان کی نامعقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے، تاکہ معاشرے کا ہر فرد، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے، اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئی ہے۔
:سورة الزخرف کا سورۃ الشوری سے ربط
سورة شوری میں ذکر کیا گیا ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہی متصرف و کارساز ہے۔ اس لیے حاجات میں صرف اسی کو پکارو انبیاء (علیہم السلام) کی متفق علیہ تعلیم کے خلاف کتب سابقہ میں جو مواد ملتا ہے، وہ باغی اور گمراہ کن پیشواؤں کی تحریفات ہیں جو انہوں نے محض ضد سے لکھ کر ان میں شامل کردیں اور اس طرح لوگوں کو گمراہ کردیا۔ اب سورة زخر میں مشرکین کے ایک اور شب ہے کا جواب دیا گیا ہے کہ ہم نے مان لیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی متصرف و مختار نہیں اور ہمارے معبود حاجت روا نہیں ہیں کیونکہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ہم اپنے معبودوں کی عبادت اس لیے کرتے اور انہیں اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں ہمارے شفیع (سفارشی) ہیں اور اللہ سے ہمارے کام کرادیتے ہیں۔ سورت کے آخر میں ولا یملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ میں اس کا جواب دیا گیا کہ اللہ کی بارگاہ میں کوئی شفیع غالب نہیں اور قیامت کے دن صرف انہی لوگوں کے حق میں شفاعت قبول ہوگی جنہوں نے ددنیا میں توحید کی شہادت دی۔ اس لیے مشرکین کے حق میں کوئی شفاعت نہیں ہوگی۔
حم والکتب تا لعلی حکیم تمہید مع ترغیب ہے اور عظمت کتاب کا بیان ہے۔ یہ روشن اور واضح کتاب جس کا نام لوح محفوظ علی حکیم ہے، اس کو سمجھو اور اس پر عمل کرو۔ افنضرب عنکم ۔۔الخ زجر ہے۔ وکم ارسلنا من نبی تا ومضی مثل الاولین۔ تخویف دنیوی ہے۔ ہم نے گزشتہ امتوں میں پیغمبر بھیجے، انہوں نے ماننے کے بجائے ان کا مذاق اڑایا، تو ہم نے ان سرکشوں کو ہلاک کردیا جو ان مشرکین قریش سے بھی زیادہ طاقتور اور تنو مند تھے۔ ولئن سالتہم تا العزیز العلیم یہ توحید پر پہلی عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف۔ اگر ان مشرکین سے پوچھو کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے، تو کہیں گے کہ اللہ نے، جب ہر چیز کا خالق وہی ہے تو کارساز بھی وہی ہے۔ الذی جعل لکم الارض تا ماترکبون یہ دلیل عقلی پر تنویرات ہیں۔ زمین و آسمان کا خالق وہی ہے جس نے زمین کو ہموار بنایا اور اس میں راستے بنائے اور آسمان سے مینہ برسا کر مردہ زمین کو زندہ کیا اور ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا اور سواری کے لیے کشتیاں اور چوپائے پیدا کیے یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ تم کائنات کو دیکھ کر اس میں غور و فکر کر کے سمجھ لو کہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی ہیں اور تم اس کی طرف رجوع کرو۔ وجعلوا لہ من عبادہ جزءا تا غیر مبین (رکوع 2) یہ زجر ہے۔ دلیل عقلی اور اس کی تنویر سے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے مشرکین کے اس عقیدے کا رد کیا گیا ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور کائنات میں اللہ کی طرف سے نائب متصرف ہیں اور پھر اللہ کی طرف نسبت کی تو بیٹیوں کی، حالانکہ خود بیٹیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ وجعلوا الملئکۃ ۔۔الخ یہ اعادہ زجر ہے اور پہلے جعلوا کی تفسیر ہے۔ وقالوا لوشاء الرحمن ۔۔الخ یہ شکوی ہے۔ مشرکین سے جب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو مشیت ایزدی کا سہارا لیتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ حالانکہ یہ دلیل نہیں۔ شریعت دلیل عقلی، دلیل نقلی یا دلیل وحی سے ثابت ہوتی ہے۔ مالہم بذلک من علم ۔۔الخ لیکن ان کے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں۔ ام اتینہم کتابا ۔۔الخ اور ان کے پاس کوئی نقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ بل قالوا انا وجدنا اور دلیل وحی تو ان کے پاس ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کے پاس اگر کوئی دلیل ہے تو صرف یہ کہ ہمارے باپ دادا چونکہ اسی دین (شرک) پر تھے، اس لیے ہم بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ وکذلک ما ارسلنا من قبلک الخ یہ شکوے سے متعلق ہے، آپ سے پہلے ہم نے جس بستی میں مسئلہ توحید پہنچانے کے لیے اپنا پیغمبر بھیجا، وہاں کے دنیا دار اور دولتمند لوگوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی دین پر پایا ہے، اس لیے ہم انہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔ فانتقمنا منہم۔۔ الخ یہ تخویف دنیوی ہے۔ ہم نے ان معاندین سے دنیا ہی میں انتقام لے لیا اور ان کا انجام بد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ واذ قال ابراہیم لابیہ۔۔ الخ (رکوع 3) ۔ یہ پہلی دلیل نقلی تفصیلی ہے، ابراہیم (علیہ السلام) سے اس دعوے پر کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت، دعا اور پکار کے لائق نہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میں تمہارے معبودان باطلہ کی عبادت اور پکار سے بیزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعوت ابراہیمی (دعوت توحید) کو ان کی اولاد میں جاری فرما دیا اور اس کی تبلیغ کے لیے پیغمبر مبعوث کیے۔ بل متعت ھؤلاء ۔۔الخ یہ اہل مکہ کی طرف التفات ہے۔ دلائل ہرہ سے اہل مکہ پر مسئلہ توحید واضح ہوچکا ہے، اس لیے اب شب ہے کی تو کوئی گنجائش نہیں، بلکہ ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو دنیا میں متاع عیش سے مالا مال کردیا، تو دنیوی عیش اور دولت کے نشے میں مخمور ہو کر انہوں نے انکار کردیا۔ وقالوا لولا نزل ۔۔الخ یہ شکوی ہے۔ دولت دنیا نے انہیں اس قدر مسحور کیا کہ وہ نبوت کو بھی اپنا حق سمجھنے لگے۔ اھم یقسمون رحمت ربک یہ جواب شکوی ہے۔ اگر ہم نے دنیا میں ان کو دولت زیادہ دیدی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کی رحمت (جس میں نبوت بھی داخل ہے) کی تقسیم بھی ان کے اختیار میں ہے۔ ولولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ۔۔ الخ یہ وقالوا لولا نزل۔۔ الخ (شکوی) سے متعلق ہے۔ یہ لوگ دولت دنیا پر مغرور ہو کر الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں حالانکہ اللہ کے نزدیک آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ و من یعش عن ذکر الرحمن تا فی العذاب مشترکون (رکوع 4) ۔ زجر مع تخویف اخروی ہے اور مشرکین کے نہ ماننے کی وجہ۔ جو لوگ محض ضد وعناد کی وجہ سے توحید کو نہیں مانتے، ان پر شیاطین مسلط ہوجاتے ہیں جو انہیں سیدھی راہ سے روکتے اور شرک کو مزین کر کے ان کو دکھاتے ہیں اور وہ شرک کو ہدایت سمجھتے ہیں۔ لیکن قیامت کے دن جب انہیں اپنے انجام کا پتہ چلے گا تو ان سے بیزار ہونگے۔ لیکن اس وقت اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ افانت تسمع الصم۔۔ الخ یہ زجر ہے۔ ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے، آپ ان کو راہ راست پر نہیں لاسکتے۔ فاما نذھبن بک۔۔ الخ یہ تخویف دنیوی ہے۔ یہ لوگ انتقام سے نہیں بچ سکتے، خواہ دنیا سے آپ کے رخصت ہوجانے کے بعد خواہ آپ کی زندگی میں، بہرحال وہ دنیوی عذاب اور رسوائی سے نہیں بچ سکتے۔ فاستمسک بالذی اوحی الیک۔۔ الخ یہ دلیل وحی ہے۔ آپ حق پر اور سیدھی راہ پر ہیں، اس لیے آپ کی طرف جو کچھ وحی کیا گیا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو، آپ اسی پر قائم رہیں۔ واسئل من ارسلنا ۔۔الخ یہ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے دلیل نقلی اجمالی ہے۔ اپنے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کا حال تو تم نے سن ہی لیا، بھلا یہ بتاؤ کہ ان کے علاوہ جتنے بھی رسول ہم نے دنیا میں بھیجے ہیں کیا ان میں سے کسی کو ہم نے غیر اللہ کی عبادت کرنے اور غیر اللہ کو پکارنے کی اجازت دی تھی ؟ ولقد ارسلنا موسیٰ تا ومثلا للاخرین ّ (رکوع 5) ۔ دوسری دلیل نقلی تفصیلی از موسیٰ (علیہ السلام) نیز متعلق بہ شکوی وقالوا لولا انزل ھذا القران۔۔ الخ و تخویف دنیوی جس طرح مشرکین مکہ آپ پر اعتراض کرتے ہیں، فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر اسی قسم کے اعتراضات کیے۔ آخر جب فرعون نے استکبار وعناد اور تحقیر حق و توہین اہل حق سے اللہ کے غضب کو دعوت دی، تو اللہ تعالیٰ نے اسے ساری قوم کے ساتھ غرق کر کے ان سے انتقام لیا اور پچھلوں کیلئے عبرت و نصیحت کا ایک نمونہ بنا دیا۔ ولما ضرب ابن مریم۔۔ الخ (رکوع 6) ۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے تو مشرکین مکہ تالیاں بجاتے ہیں کہ ان کی بھی تو عبادت کی گئی تھی، اس کا جواب آگے آرہا ہے کہ انہوں نے تو یہی تعلیم دی تھی کہ اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو اور انہوں نے اپنی عبادت کا کسی کو حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کے رفع کے بعد باغیوں نے ان کی عبات شروع کردی۔ ول نشاء لجعلنا منکم ملائکۃ۔۔ الخ یہ ایک شبہہ کا جواب ہے۔ مشرکین نے کہا ہمارے معبود تو فرشتے ہیں نہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ۔ تو فرمایا فرشتہ ہونا معبود ہونے کا موجب نہیں، اگر ہم چاہیں تو تم میں سے فرشتے پیدا کردیں۔ ولما جاء عیسیٰ بالبینات، تیسری دلیل نقلی تفصیلی از عیسیٰ (علیہ السلام) دلائل و بینات کے ساتھ آئے، تو انہوں نے یہی اعلان فرمایا کہ میرا اور تم سب کا مالک اور کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو اور حاجات میں مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو، یہی صراط مستقیم (سیدھی راہ) ہے۔ فاختلف الاحزاب ۔۔الخ یہ سوال مقدر کا جواب ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) صرف اللہ ہی کی عبادت کرنے کی تعلیم دے رہے ہیں اور انہوں نے اپنی عبادت کرنے کا کسی کو حکم نہیں دیا تھا۔ تو پھر ان کی عبادت کیوں کی گئی۔ تو اس کا جواب دیا گیا کہ بعد میں باغیوں نے توحید میں اختلاف ڈالا اور مسیح (علیہ السلام) کو معبود بنا لیا۔ فویل للذین ظلموا ۔۔الخ یہ تخویف اخروی ہے۔ یعباد لا خوف علیکم تا منہا تاکلون (رکوع 7) ۔ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ ایمان والوں کو قیامت کے دن کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ جنت میں ان کو ہر نعمت ملے گی وہاں ان کی ہر نعمت ملے گی اور وہاں ان کی ہر خواہش پوری کی جائے گہ۔ ان المجرمین تا انکم ماکثون یہ تخویف اخروی ہے . مجرمین عذاب جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ عذاب ان سے کبھی منقطع نہیں ہوگا اور نہ اس میں تخفیف ہی ہوگی۔ لقد جئنکم بالحق۔۔ الخ یہ اہل مکہ کی طرف التفات ہے۔ ام ابرموا امرا فانا مبرمون یہ زجر ہے۔ مشرکین پیغمبر (علیہ السلام) کو ایذا پہنچانے کے منصوبے بنا رہے ہیں اور ہم نے آپ کی حفاظت کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم ان کے پوشیدہ منصوبوں سے بےخبر ہیں۔ حالانکہ ان کی ہر بات فرشتوں کے پاس محفوط ہے۔ قل ان کان للرحمن ولدا۔۔ الخ یہ ابتداء سورۃ وجعلوا لہ من عبادہ جزءا سے متعلق ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی نائب ہوتا، تو میں سب سے پہلے اس بات کو مانتا اور اس کی اطات کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان اور عرش عظیم کا مالک ہے، وہ نائب سے پاک اور منزہ ہے۔ فذرھم یخوضوا ۔۔الخ یہ زجر مع تخویف ہے۔ وھو الذی فی السماء الہ تا والیہ ترجعون یہ دوسری عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان میں وہی معبود برحق اور متصرف و کارساز ہے، ساری کائنات اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے اور قیامت کا علم بھی صرف اسی کو ہے۔ جب ساری کائنات میں وہی معبود اور متصرف و مختار ہے تو کوئی اس کا نائب بھی نہیں۔ ولا یملک الذین یدعون یہ سورت کا مرکزی دعوی ہے اور مشرکین کے ایک شبہے کا جواب ہے کہ ہم نے مانا کہ اللہ کے سوا کوئی حاجت روا نہیں اور سب کچھ کرنے والا اللہ ہی ہے، لیکن ہم اپنے معبودوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمارے سفارشی ہیں۔ فرمایا مشرکین جن کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہیں ان کے حق میں شفاعت کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ ولئن سالتہم من خلقہم یہ تیسرے عقلی دلیل ہے علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ مشرکین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودان باطلہ کا خالق اللہ ہے، لیکن وہ پھر نہیں سمجھتے اور اللہ کیلئے ولد اور نائب تجویز کرتے ہیں۔ وقیلہ یارب الخ یہ تخویف ہے۔ یہ لوگ ایسے سرکش اور ضدی ہیں کہ ایمان لانے کا نام نہیں لیتے آپ ان سے اعراض کریں۔ وہ عنقریب ہی دنیا میں اور پھر آخرت میں اپنا انجام دیکھ لیں گے اور حقیقت ان پر واضح ہوجائیگی۔
مختصر ترین خلاصہ
تمہید مع ترغیب کے بعد تین عقلی دلیلیں جن میں سے دو علی سبیل الاعتراف من الخصم ہیں۔ ایک شروع میں اور ایک آخر میں۔ چار نقلی دلیلیں۔ تین تفصیلی اور ایک اجمالی اور ایک دلیل وحی اور آخر سورۃ میں دعوی مذکور ہے یعنی شبہہ کا ازالہ اور درمیان میں ایک نہایت اہم زجر اور ایک شکوی اس کے علاوہ تخویف و تبشریں اور عام زجریں اور شکوےمذکور ہیں۔
Download PDF