|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  الرعد مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 13تیرویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 96 چھیانویں نمبر پر ہے، اس سورۃ میں 43آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ کا نام اسی سورۃ کی آیت نمبر 13 وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهٖ وَالْمَلٰىِٕكَةُ مِنْ خِيْفَتِهٖ  کے لفظ الرعد کو اس سورة کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورة میں بادل کی گرج کے مسئلے سے بحث کی گئی ہے، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ سورة ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے، یا جس میں رعد کا ذکر آیا ہے۔اسلام کی دعوت  کے دوران ،اس میں رکاوٹ  ڈالنے اور آپ ؐکے مشن کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایا جائے، اور اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر شمنان حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس سے تم گھبرا اٹھو۔  پھر آیت31 سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہوچکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سےمردے بھی اٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔

 :سورة الرعد  کا سورۃ یوسف سے ربط

مسئلہ توحید اس قدر اہم، ضروری اور واضح ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے قید خانے میں بھی اس کی تبلیغ کی اور خواب کی تعبیر پوچھنے والوں کو پہلے مسئلہ توحید سمجھایا اور بعد میں خوابوں کی تعبیر بتائی اور رعد فرشتہ اور دوسرے تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں ہیں اور ہر وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہتے اور ہر قسم کے شرک سے اس کی پاکیزگی بیان کرتے رہتے ہیں۔

 سورة یوسف میں ایک بہت بڑی اور مفصل نقلی دلیل سے ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پیغمبر، کوئی ولی، کوئی فرشتہ اور کوئی جن و بشر عالم الغیب اور کارساز نہیں۔ سورة یوسف تک یہ دونوں دعوے دلائل عقلیہ و نقلیہ سے ثابت کردئیے گئے یہاں تک کہ اب مسئلہ توحید نظری (دلیل کے زریعے مزید قابل بحث )نہیں رہا بلکہ بدیہی (اب مزید ثبوت کی ضرورت نہیں)ہوگیا۔ معاندین اب محض ضد وعناد کی وجہ سے نہیں مانتے لیکن اس کے باوجود احتمال تھا کہ یہ دعوے اب تک کسی پر مخفی رہ گئے ہوں اس لیے ان دونوں دعو وں کی مزید توضیح و تفہیم کے لیے سورة رعد میں گیارہ دلائل بطور تنبیہ ذکر کیے گئے ہیں۔

سورة رعد میں مذکورہ بالا دونوں دعو وں (یعنی غیب داں اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے) پر بطور تنبیہ گیارہ دلائل ذکر کیے گئے ہیں آٹھ دلائل عقلیہ دو وحی اور ایک دلیل نقلی مومنین سابقین سے۔

 پہلی عقلی دلیل:  اَللہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ ۔ تا۔  اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن  (رکوع 1) ۔ یہ دلیل اللہ تعالیٰ کے کارساز اور متصرف و مختار ہونے پر قائم کی گئی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں علویات مثلاً آسمان، عرش، سورج اور چاند کا ذکر ہے اور دوسرے حصے میں  وَھُوَالَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ الخ  میں سفلیات مثلاً زمین، پہاڑوں، دریاؤ، میووں اور پھلوں کا ذکر ہے۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ تمام کائنات علوی و سفلی میں متصرف ہے وہی سب کا حاجت روا اور کارساز ہے۔  وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ الخ  منکرین بعث و نشور(مر کر دوبارہ جی اٹھنے کے منکرین) پر شکویٰ ہے۔  وَ یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالسَّیِّئَۃِ  زجر ہے۔  وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا  یہ شکویٰ ہے۔ بات بالکل صاف اور واضح ہونے کے باوجود معجزہ طلب کرتے ہیں۔  اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ الخ  جواب شکویٰ ۔ آپ کا کام پیغام ہدایت پہنچانا اور نہ ماننے پر عذاب کی وعید سناناہے معجزہ لانا آپ کا کام نہیں۔

 دوسری عقلی دلیل:( برائے نفی علم غیب از غیر اللہ)۔  اَللہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی  تا  وَ سَارِبٌ بِا لنَّھَارِ  (رکوع 2) ۔ مادہ کے پیٹ میں کیا ہے ؟ نر یا مادہ، کالا یا گورا، ناقص یا کامل یہ صرف اللہ ہی جانتے ہے۔ وہ ظاہر و باطن کا عالم ہے۔ کوئی چھپ کر بات کرے یا علانیہ کرے اس سے سب کچھ معلوم ہے۔  لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ الخ  تخویف اخروی ہے۔

 تیسری عقلی دلیل۔  ھُوَ الَّذِیْ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ تا  وَ ھُوَ شَدِیْدُ الْمِحَالِ  (رکوع 2)۔ زمین و آسمان کے درمیان (فضاء آسمانی) میں جو کچھ ہے مثلاً بادل، بارش، بجلی اور ان اشیاء پرمامور فرشتے سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ و تصرف میں ہیں اور وہی سب کا مالک و مختار ہے اس لیے عاجز اور بےبس انسان اور دوسری مخلوق کا کارساز بھی وہی ہے۔  لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ  یہ پہلی تینوں عقلی دلیلوں کا ثمرہ (نتیجہ)ہے یعنی جب مذکورہ دلائل سے ثابت ہوگیا کہ عالم الغیب اور کارساز اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں لہٰذا دعاء اور پکار کا مستحق بھی وہی ہے۔  وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۔۔ الخ  یہ مشرکین کے معبودانِ باطلہ کے عجز اور ان کی بیچارگی کی تمثیل ہے جس طرح ایک پیاسا آدمی پانی کو بھلائے تاکہ وہ اس کے منہ میں آجائے مگر ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ پانی میں نہ اس کی پکار کا شعور ہے نہ اس کے پاس آنے کی قدرت اسی طرح مشرک لوگ حاجت و تکلیف میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں مگر وہ ان کی پکار نہیں سنتے ہیں اور ان کی مدد کرنے سے عاجز و درماندہ ہیں۔

 چوتھی عقلی دلیل۔  وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ ۔ تا۔  بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ  (رکوع 2) ۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق اس کی مطیع اور فرماں بردار ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے زیر تصرف و اقتدار ہے اس لیے سب کا کارساز بھی وہی ہے۔

پانچویں عقلی دلیل: (علی سبیل الاعتراف من الخصم)۔  قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔الخ ۔ مشرکین بھی مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر اس کے سوا کوئی کارساز بھی نہیں ہوسکتا۔  قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ۔۔ الخ  یہ دوسرا ثمرہ (نتیجہ)ہے۔ جب مذکورہ دلائل سے ثابت ہوگیا کہ عالم الغیب اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی تو پھر اللہ تعالیٰ کی عاجز اور بےبس مخلوق کو کارساز سمجھنا جن کے قبضے میں کسی کا نفع ونقصان نہ ہو سراسر باطل اورمشرکانہ فعل ہے۔  اَمْ ھَلْ تَسْتَوِیْ الظُّلُمٰتُ وَالنُّورُ اور اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ  مشرکین پر زبردست زجریں ہیں۔

چھٹی عقلی دلیل: (بطور تمثیل)  اس میں معبود حق اور معبود باطل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ معبود باطل جھاگ کی طرح بےحقیقت فنا ہونیوالا اور غیر مفید ہے جبکہ معبود حق باقی رہنے والا اور ہر موقع پر کام آنے والا ہے۔  لِلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمُ الْحُسْنیٰ  بشارت اخروی۔  وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَسْتَجِیبُوْا لَہٗ۔۔ الخ  تخویف اخروی۔  اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ  (رکوع 3) یہ بشارت و تخویف میں اضافہ ہے۔  اَفَمَنْ یَّعْلَمُ ۔۔الخ  یعنی جو شخص بصیرت کے ساتھ ایمان رکھتا ہو کہ اللہ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے وہ حق ہے یہ بشارت میں اضافہ ہے۔  کَمَنْ ھُوَ اَعْمیٰ  یعنی وہ اس شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جو دل کا اندھا اور ایمان سے محروم ہو یہ تخویف میں اضافہ ہے۔  اَلَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ۔۔ الخ  جماعت مبشرہ کی صفات کا اعادہ ہے۔  اُولٓئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ ۔ تا۔ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ (رکوع 3) ۔ یہ بشارت کا اعادہ ہے۔  وَالَّذِیْنَ یَنْضُوْنَ الخ  مستحق عذاب جماعت کے ذکر کا اعادہ ہے۔  اُولٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوءُ الدَّارِ  اعادہ تخویف اخروی۔

:ساتویں عقلی دلیل: اَللہُ یَبْسُطُ الِّرزْقَ لِمَنْ یَّشاءُ وَ یَقْدِرْ  ساری مخلوق کا روزی رساں اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا وہی کارساز ہے۔  وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا  (رکوع 4) ۔ یہاں منہ مانگا معجزہ نہ دینے کی وجہ بیان کی گئی کہ تم ضدی اور معاند ہو تم معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاؤ گے۔  اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ  بشارت برائے مومنین۔

 پہلی دلیل وحی: کَذٰلِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْ اُمَّۃٍ۔۔ الخ ہم نے آپ کو اس امت میں اسلیے بھیجا ہے تاکہ آپ اس مسئلہ توحید کی کھول کر تبلیغ فرما دیں۔ جو ہم نے آپ کے پاس بذریعہ وحی بھیجا۔ وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ۔۔ الخ یہ زجر ہے متعلق بہ شکوی مذکورہ یہ ضدی لوگ یہ تمام معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔  وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔الخ  تخویف دنیوی۔  وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ ۔۔الخ  (رکوع 5) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی ہے ۔

 آٹھویں عقلی دلیل۔  اَفَمَنْ ھُوَ قَائِمٌ عَلیٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ  اللہ تعالیٰ ہر ہر آدمی کے ساتھ ہے اور سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔  وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاءَ۔۔ الخ  زجر برائے مشرکین۔  لَھُمْ عَذَابٌ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔۔ الخ  تخویف دنیوی و اخروی۔  مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ  بشارت اخروی۔

 دلیل نقلی از مومنین اہل کتاب۔ ہم نے جس طرح مسئلہ توحید کھول کر آپ پر نازل کیا ہے مومنین اہل کتاب اس سے بہت خوش ہیں اور وہ اس مسئلہ کی تصدیق کرتے ہیں۔  وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ ۔۔الخ

دوسری دلیل وحی۔  قُلْ اِنَّمَا اُمِرْتُ الخ  مجھ پر اللہ کی وحی آئی ہے اور مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کروں اور صرف اسی کو کارساز سمجھ کر مصائب و حاجات میں پکاروں اور اس کی عبادت اور پکار میں کسی کو شریک نہ کروں۔  وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ۔۔ الخ  کاف بیان کمال کے لیے یعنی قرآن میں مسئلہ توحید کو یوں ہر قسم کے دلائل سے مدلل و مبرہن کر کے اور مثالوں سے واضح کر کے بیان کرنا ہماری ہی کمال ہے۔ یہ مقابل کے تمام دلائل سے متعلق ہے۔  وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاء ھُمْ  یہ زجر ہے جو تمام دلائل مذکورہ پر متفرع ہے۔ یعنی مذکورہ بالا دلائل عقلیہ و نقلیہ اور دلائل وحی اور تمثیلات کے ذریعہ مسئلہ توحید کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اگر آپ مشرکین کے خیال باطلہ کی طرف میلان کریں گے تو پھر ہمارے عذاب سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔

 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ۔۔ الخ  جواب سوال مقدر (یعنی وہ سوال جو یہاں درج نہیں ہے مگر اسکا جواب درج ہے)نمبر 1 ہے۔ مشرکین کہتے عجب پیغمبر ہے کہ اس کے بیوی اور بچے ہیں۔ فرمایا پہلے انبیاء (علیہم السلام) بھی بیوی بچوں والے تھے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔

 وَ مَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاتِیَ بِاٰیَۃٍ۔۔ الخ یہ جواب سوال مقدر نمبر 2 ہے۔ مشرکین کہتے ہم تم پر ایمان لے آئیں آپ ہمیں منہ مانگا معجزہ دکھائیں۔ جواب دیا گیا معجزہ لانا پیغمبر کا کام نہیں۔ معجزہ پیغمبر کے ہاتھ پر تب ظاہر ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو۔

  لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ یہ جواب سوال مقدر نمبر 3 ہے۔ معاندین ازراہ عناد کہتے جب ہم نہیں مانتے تو ہم پر عذاب کیوں ہیں آتا۔ فرمایا عذاب ضرور آئے گا۔ مگر اپنے مقررہ وقت پر کیونکہ ہمارا ہر کام باضابطہ اور اپنے مقررہ وقت پر ہوتا ہے۔

  یَمْحُوْا اللہُ مَا یَشَاءُ و َ یُثْبِتُ  یہ جواب سوال مقدر نمبر 4 ہے۔ یعنی عذاب آکر ہی رہے گا تو ماننے کا فائدہ ؟ فرمایا سب کچھ ہمارے اختیار میں ہے جس طرح معاندین کےلیے عذاب مقدر ہے اسی طرح ماننے والوں کے لیے عذاب سے نجات مقدر ہے اس لیے جو لوگ مان لیں گے وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔

 وَ اِمَّا نُرِیَّنَّکَ  تخویف دنیوی ہے۔ آپ کا کام تبلیغ ہے جو آپ نے سر انجام دیدیا۔ معاندین جو خواہ مخواہ شبہات ڈالتے ہیں اور مانتے نہیں ان کو ہم سخت عذاب دیں گے آپ کی زندگی میں یا آپ کی وفات کے بعد۔  اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاتِیْ الْاَرْضَ ۔۔الخ  تخویف دنیوی ہے۔  وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔الخ  شکویٰ ہے۔  قُلْ کَفٰی بِاللہِ شَھِیْدًا ۔۔الخ  جواب شکوی ہے یعنی میری رسالت پر تو خود اللہ تعالیٰ شاہد ہے اور علماء اہل کتاب اور فرشتے بھی میری صداقت کے معترف ہیں۔

 :مختصر ترین خلاصہ

مسئلہ توحید پہلے ہی مکمل دلائل سے بھرپور تھا اب  سورة رعد میں بطور تنبیہ گیارہ دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔ آٹھ دلائل عقلیہ، دو وحی اور ایک نقلی۔ آٹھ دلائل عقلیہ میں سے دوسری اور آٹھویں دلیلیں غیر اللہ سے حاضر و ناظر ہونے اور علم غیب کی نفی کرتی ہیں اور باقی دلائل غیر اللہ کے کارساز اور متصرف و مختار ہونے کی نفی کرتے ہیں،لہذا تسلیم کرو  لَہٗ دَعْوَۃُ الْحَقِّ  اسی کو پکارنا برحق ہے۔