|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الذاریات

سورۃ  الذاریات مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 51 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے66نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 60آیات ہیں جو3 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام  پہلے ہی لفظ والذّٰرِیَات سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورة جس کی ابتدا لفظ الذاریات سے ہوتی ہے۔اس سورۃ کے پہلے رکوع میں قیام قیامت اور اہل جنت کے لیے جنتی نعمتوں کی فراوانی کا ذکر کیا گیا ہے پھر صلوۃ تہجد اور انفاق فی سبیل اللہ کا بیان ہے دوسرے رکوع میں وہ واقعہ بیان کیا گیا ہے جب ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے آپ ان کو فوراً پہچان نہ سکے اور فوری طور پر ان کے لئے کھانا لے آئے یعنی اجنبی مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام یہ خصائل ابراہیمی میں سے بتایا گیا جب فرشتوں نے وضاحت کی کہ وہ انسان نہیں ہیں فرشتے ہیں جب فرشتوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بشارت دی کہ ان کے ہاں اسحاق کی ولادت ہونے والی ہے کہ فرشتوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے آنے کا دوسرا مقصد ہے کہ وہ قوم لوط پر اللہ کا عذاب لیکر اترے ہیں چنانچہ فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے اٹھ کر قوم لوط پر پہنچے اور لوط علیہ السلام کو وہاں سے نکالا اور باقی قوم پر عذاب اتار دیا اور ان پر پتھروں کی برسات کردی۔

اس کے علاوہ قوم فرعون، قوم عاد اور قوم ثمود پر آنے والے عذابات کا ذکر ہے اور آخری رکوع میں اللہ تعالی کی قدرتوں کا بیان ہے اور انسان کا مقصد تخلیق بتایا گیا ہے۔ 

 :سورة الذاریات  کا سورۃ ق سے ربط

سورة ق میں مذکور ہوا کہ قیامت اور قبروں سے زندہ ہو کر نکلنا اور حشر و نشر برحق ہے اب سورة الذاریات میں بطو ترقی مذکور ہوگا کہ صرف حشر و نشر ہی نہیں بلکہ جزاء وسزا بھی ہوگی  انما توعدون لصادق، وان الدین لواقع

 والذاریات۔ تا۔ فالمقسمت امرا  یہ جزاء وسزا پر شاہد ہے جس طرح ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر چلتی ہیں، کہیں باران رحمت ہوتی ہے اور کہیں اولے پڑتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن مومنوں پر اللہ کی رحمت ہوگی اور کافروں پر اس کا عذاب ہوگا۔  والسماء ذات الحبک  یہ حشر و نشر کا نمونہ ہے جس طرح رات کو آسمان پر ستاروں کا ایک وسیع جال نمودار ہوجاتا ہے اسی طرح مردے زمین سے نمودار ہونگے۔  انکم لفی قول۔ تا۔ من افک  یہ زجر ہے ایسے دلائل و شواہد کے باوجود تم پھر بھی باطل پر قائم ہو۔  قتل الخراصون۔ تا۔ تستعجلون  یہ تخویف اخروی ہے۔ اٹکل پچو سے باتیں کرنے والے اور جزا و سزا میں شک کرنے والےاللہ کی رحمت سے دور ہو کر جہنم کا یندھن بنیں گے۔  ان المتقین۔۔الخ  یہ بشارت اخرویہ ہے متقی اور شرک سے بچنے والے لوگ جنت میں ہوں گے اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے متمتع ہونگے۔  انہم کانوا۔ تا۔ والمحروم۔ یہ متقین کی صفات ہیں کہ وہ احسان کیا کرتے تھے راتوں کو کم سوتے تھے۔ رات کا اکثر حصہ عبادت و استغفار میں گذارتے تھے اور ہر سائل و محتاج کی مالی اعانت کرتے تھے۔ یہاں دفع عذاب کیلئے امور ثلاثہ کا ذکر ہے یعنی شرک نہ کرنا۔ ظلم نہ کرنا اور احسان کرنا۔  وفی الارض ایات۔ تا۔ افلاتبصرون  یہ ثبوت قیامت پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ یعنی زمین میں اور خود تمہاری اپنی جانوں میں نشانیاں موجود ہیں ذرا غور و فکر کی ضرورت ہے۔  وفی السماء۔ تا۔ تنطقون  آسمان سے بارش بھی نازل ہوتی ہے اور اولے بھی برستے ہیں یہ جزا و سزا کا نمونہ ہے۔ زمین و آسمان کے رب کی قسم حشر و نشر برحق ہے جس طرح تم اپنے مونہوں سے الفاظ نکالتے ہو اسی طرح تم بھی زمین سے نکالے جاؤ گے۔  ھل اتاک۔ تا۔ العذاب العلیم  (رکوع 4) ۔ یہ تخویف دنیوی کے پانچ نمونوں میں سے پہلا نمونہ ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بطور تمہید ہے اور قوم لوط (علیہ السلام) کا عبرتناک حشر تخویف دنیوی کا پہلا نمونہ ہے۔ یہ لوگ آخرت کی جزا و سزا سے غافل ہو کر گناہوں میں منہمک تھے کہ اللہ نے دردناک عذاب سے ان کو ہلاک کردیا۔  وفی موسیٰ۔ تا۔ وھو ملیم  یہ تخویف دنیوی کا دوسرا نمونہ ہے۔ فرعون اور اس کی قوم کو کفر و شرک اور انکار وعناد کی پاداش میں غرق کردیا گیا۔  وفی عاد۔ تا۔ کالرمیم  یہ تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ ہے۔ قوم عاد کو تند و تیز طوفان باد سے ہلاک کیا گیا۔  وفی ثمود۔ تا۔ منتصرین  یہ تخویف دنیوی کا چوتھا نمونہ ہے۔ قوم ثمود کو ایک دلدوز کڑک سے تباہ کیا گیا۔ جس کے سامنے وہ ایک لمحہ نہ ٹھہر سکے۔  وقوم نوح۔۔الخ  یہ تخویف دنیوی کا پانچواں نمونہ ہے۔ ان سب سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کے سرکشوں کو طوفان میں غرق کردیا گیا۔  والسماء بنیناھا۔ تا۔ لعلکم تزکرون  تخویف دنیوی کے پانچ نمونے ذکر کرنے کے بعد دعوائے سورت پر دوسری عقلی دلیل ہے۔ ایسا وسیع و عریض آسمان پیدا کرنا، زمین کو بچھونے کی مانند ہموار بنانا اور ہر چیز کی کئی کئی قسمیں پیدا کرنا ہماری قدرت کاملہ کا ادنی کرشمہ ہے۔ اس لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا بھی ہماری قدرت سے بعید نہیں۔  ففروا الی اللہ۔۔الخ  بیان توحید علی سبیل الترقی۔ اللہ کی طرف رجوع کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔  کذلک ماتی۔ تا۔ قوم طاغون ۔ شکوی برائے مشرکین۔ ان سے پہلے جو مشرکین و کفار گذرے ہیں ان کا بھی یہی حال تھا کہ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا اسے جادوگر اور مجنون کہنے لگے کیا وہ اپنی نسلوں کو بھی اس بات کی وصیت کر گئے تھے ؟ نہیں، بلکہ یہ بھی سرکش اور طاغی ہیں اور خود ہی ایسی باتیں کر رہے ہیں۔  فتول عنہم۔ ۔الخ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ آپ نے ان کو تبلیغ کا حق ادا کردیا ہے آپ مومنین کو پند و نصیحت فرماتے رہے، کیونکہ اس سے ان کو فائدہ پہنچتا ہے۔  وما خلقت الجن۔۔الخ  یہ ماقبل کے لیے علت ہے۔ آپ ان کو عبادت کرنے کی تلقین فرماتے رہیں، اس لیے کہ ان کو اسی مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔ ان کو پیدا کرنے سے مجھے کوئی ذاتی غرض مقصود نہیں، بلکہ میں خود ان کی سب کی اغراض و حاجات پوری کرتا ہوں۔  فان للذین ظلموا۔۔الخ  یہ تخویف دنیوی ہے۔ ان ظالموں کو بھی پہلے ظالموں کی طرح عذاب کا حصہ ضرور ملے گا۔ انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ جس دن ان پر موعود عذاب آئے گا وہ دن ان کے لیے نہایت ہلاکت و تباہی کا دن ہوگا۔

:مختصرترین خلاصہ

ابتداء میں جزاء وسزا پر ایک شاہد اور حشر و نشر کا ایک نمونہ۔ اثبات دعوی کیلئے دو عقلی دلیلیں۔ دونوں دلیلوں کے درمیان تخویف دنیوی کے پانچ نمونے اور دفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا بیان مذکور ہے۔