سورۃ الحدید مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 57 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے91نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 29آیات ہیں جو4 رکوع پر مشتمل ہیں۔ سورۃ الحدید میں اللہ کا علم، اس کی شان تخلیق اور اللہ کی وسعت قدرت بتائی گئی ۔اس کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے وعدۂ جنت فرمایا گیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں قرض حسنہ دینے کا اجر بتایا گیا ہے۔ پھر روز قیامت منافق مردوں اور عورتوں کی بدحالی بتائی گئی ہے اور تقوی کی اہمیت و افادیت، اور اللہ کی راہ میں صدقہ دینے کا اجر بتایا گیا ہے۔اوردنیا کو کھیل تماشا قرار دیا گیا، پھر اہل جنت والے اعمال کی دعوت دی گئی، بخل کی مذمت کی گئی اور لوہے کو اللہ کی بڑی نعمت کے طور پر بیان کیا گیا ہے جبکہ آخری رکوع میں نوح و ابراہیم علیہ السلام ، عیسی علیہ السلام کا ذکر ہے ، پھر رہبانیت کا ردّ کیا گیا اور امت مسلمہ کی عظمت بتائی گئی ہے۔اور اہل کتاب کو ایمان لانے اور خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینے کی ترغیب ہے۔
:سورة الحدید کا ماقبل سے ربط
سورة النجم میں واضح کیا گیا کہ اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی حاجات میں پکار کے لائق ہے۔ اس کے بعد سورة والقمر میں بیان کیا گیا ہے ہر چیز کو اندازے کے ساتھ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے پھر سورة الرحمن میں بطور ترقی فرمایا گیا کہ جب خالق ومالک اور کارساز بھی وہی ہے۔ تو برکات دہندہ بھی وہی ہے پھر سورة واقعہ میں کہا گیا کہ صرف اللہ ہی کو برکات دہندہ سمجھو اور اس صفت میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اب سورة الحدید میں مذکور ہوگا کہ جب تم اس مسئلے کو سمجھ چکے ہو تو اب اس کی اشاعت کیلئے اپنا مال بھی خرچ کرو اور جہاد بھی کرو۔ سورة مجادلہ سے لے کر سورة تحریم تک مضمون کے اعتبار سے تمام سورتیں، سورة الحدید ہی سے متعلق ہیں۔ سورة الحدید میں دو مضمون مذکور ہیں اول اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا حکم۔ دوم جہاد کی ترغیب۔ اس کے بعد چار سورتیں المجادلہ، الحشر، الممتحنہ اور الصف، سورة الحدید کے دوسرے مضمون (ترغیب الی القتال فی سبیل اللہ) پر بطور لف و نشر غیر مرتب متفرع ہوں گی۔ اور اگلی چار سورتیں (الجمعہ، المنافقون، التغابن اور الطلاق) سورة الحدید کے پہلے پہلے مضمون (النفاق فی سبیل اللہ) پر متفرع ہیں اس کے بعد سورة التحریم میں سورة الحدید کے دونوں مضمون کا بطریق لف و نشر مرتب بمنزہ تتمہ اعادہ کیا گیا ہے پہلی چاروں سورتوں میں سے ہر دوسری سورت کو اور دوسری چاروں سورتوں میں سے ہر پہلی سورت کو تسبیح سے شروع کیا گیا ہے تاکہ اصل مسئلہ یعنی نفی شرک ذہن میں رہے اور اس سے ذہول نہ ہونے پائے اور معلوم ہوجائے کہ جہاد اسی مسئلہ کے لیے کیا جارہا ہے۔ پہلے مجموعے کی آخر سورت (الصف) اور دوسرے مجموعے کی پہلی سورت (الجمعہ) میں تسبیح کو جمع کردیا گیا اس لیے سورة الجمعہ سے سورة الحدید کا دوسرا مضمون شروع ہونے والا تھا اس طرح ایک مضمون کے اختتام اور دوسرے مضمون کی ابتدا میں امتیاز ہوگیا۔
سورة الحدید میں دو مضمون مذکور ہیں۔ اول توحید کی دعوت خاطر مال خرچ کرنے کا حکم دوم۔ اللہ کی راہ میں جہاد کی ترغیب۔
سبح للہ ما فی السموات والارض۔ تا۔ وھو علیم بذات الصدور۔ میں بطور تمہید مسئلہ توحید کا ذکر ہے جس کی خاطر انفاق اور جہاد ہوگا۔ یہاں توحید کے تینوں مراتب مذکور ہیں دو صراحۃً اور ایک ضمناً ۔ پہلا مرتبہ ساری کائنات کا خالق تعالیٰ ہی ہے۔ یحییٰ و یمیت وھو علی کل شیء قدیر۔ دوسرا مرتبہ تخت بادشاہی پر وہ خود ہی مستوی ہے اور کوئی اختیار اس نے کسی کو سپرد نہیں کر رکھا۔ ثم استوی علی الرء ش۔ تیسرا مرتبہ، جب خالق ومالک اور متصرف و مختار وہی ہے تو کارساز اور معبود بھی وہی ہے۔ امنوا باللہ۔۔الخ یہ پہلا مضمون ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اور خرچ کرنے والوں کے لیے بشارت۔ وانفقوا مما جعلکم۔ تا۔ ان کنتم مومنین۔ یہ انفاق کی پہلی وجہ ہے۔ یہ مال میرا ہے، میں نے چند روز کے لیے تمہارے تصرف میں دیا ہے اور تم اللہ سے عہد کرچکے ہو کہ اس کے احکام مانو گے۔ اب اس کا حکم آگیا ہے کہ اس کی راہ میں مال خرچ کرو۔ لہٰذا اس کا حکم مانو اور مال خرچ کرو، وہ خرچ کرنے پر تمہیں اجر بھی دے گا۔ ھو الذی ینزل۔۔الخ۔ یہ ترغیب ہے یعنی ایسے رحیم و کریم بادشاہ کا حکم مانو۔ دوسری وجہ۔ ومالکم الا تنفقوا فی سبیل اللہ۔۔الخ ۔وجہ اول سے بطور ترقی فرمایا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہو حالانکہ تمہیں مرنا ہے اور سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے اب وقت ہے خرچ کرلو۔ جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو افسوس کرو گے۔ تیسری وجہ من ذا الذی یقرض اللہ۔۔الخ (رکوع 2)۔ جو مال تمہیں دیا ہے اس میں بطور قرض دیدو میں اس سے کئی گنا زیادہ دے دوں گا۔ یوم تری المومنین والمومنات ۔۔الخ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے انفاق فی سبیل اللہ کی وجہ سے قیامت کے دن ان کے آگے پیچھے نور ہوگا اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ یوم یقول المنفقون والمنفقت۔ تا۔ وبئس المصیر۔ یہ منافقین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ وہ نور انفاق سے محروم ہوں گے وہ مومنین سے توجہ کا مطالبہ کریں گے تاکہ انہیں کچھ روشنی نصیب ہو لیکن فریقین کے درمیان دیوار حائل کردی جائیگی اور منافقین عذاب میں مبتلا ہوں گے اور فدیہ وغیرہ کسی حیلے سے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ الم یان للذین امنوا۔۔الخ یہ ایمان والوں کے لیے زجر ہے اور قبول حق اور حق پر قائم رہنے کی ترغیب ہے۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا چاہیے اور اہل کتاب کی طرح سنگدل نہیں ہوجانا چاہیے۔ اعلموا ان اللہ یحییٰ الارض بعد موتھا۔۔الخ یہ انفاق کی تیسری وجہ سے متعلق ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی دولت میں اس طرح کئی گنا اضافہ ہوتا ہے جس طرح زمین میں ایک دانہ بو دینے سے کوئی سو گنا دانے پیدا ہوتے ہیں۔ ان المصدقین والمصدقات۔۔الخ ترغیب الی الانفاق۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی دولت میں کئی گنا اضافے کے علاوہ وہ بہت بڑے اجر وثواب کے بھی مستحق ہیں۔ والذین امنوا باللہ ورسلہ۔ ۔الخ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے مومنین کے لیے بشارت اخرویہ۔ ان لوگوں کو صدیقوں اور شہیدوں کا مرتبہ نصیب ہوگا۔ والذین کفروا وکذبو۔۔۔الخ۔ یہ کفار کے لیے تخویف اخروی ہے۔ انفاق کی چوتھی وجہ :۔ اعلموا انما الحیواۃ الدنیا ۔۔الخ (رکوع 3) ۔ اگر دنیا میں اس کا بدلہ نہ بھی ملا تو غم نہ کرنا چاہیے یہ دنیا چیز ہی کیا ہے ؟ یہ محض چند روزہ زینت و آرائش اور فخر ونمائش کی جگہ ہے جس طرح لہلہاتے کھیت آن کی آن میں تباہ ہوجاتے ہیں دنیا کی چہل پہل بھی اسی طرح فانی ہے۔ سابقو الی مغفرۃ من ربکم۔۔الخ اگر دنیا میں کچھ نہ ملا تو آخرت میں اس کا بےحساب اجر وثواب ملے اور جنت میں زمین و آسمان کی وسعت سے بھی زیادہ مربعے ملیں گے۔ پانچویں وجہ : ما اصاب من مصیبۃ فی الارض۔۔الخ اگر تم اللہ کی راہ میں اس لیے مال خرچ نہیں کرتے ہو تاکہ وہ مصیبتوں میں کام آئے تو یہ خیال بھی غلط ہے کیونکہ جو مصیبت مقدر ہوچکی ہے وہ ضرور آئیگی دولت سے دفع نہیں کی جاسکتی۔ لکیلا تاسوا علی ما فاتکم۔ تا ھو الغنی الحمید۔ مذکور بالاتوضیح کی علت اور بخیلوں اور دوسروں کو بخل پر اکسانے والوں کے لیے تخویف و تہدید ہے۔ لقد ارسلنا رسلنا بالبینت۔ تا۔ ان اللہ قوی عزیز۔ یہ سورت کے دوسرے مضمون یعنی جہاد فی سبیل اللہ کا بیان ہے۔ ہم نے بنی آدم کی ہدایت کیلئے پیغمبر بھیجے اور ان پر کتابیں نازل کیں اور لوہے ایسی نہایت مفید اور اہم دھات پیدا کی تاکہ لوگ اس سے فوائد حاصل کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے مختلف قسم کے ہتھیار بنا کر اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور اس طرح اللہ کے دین کی مدد کرنے والے دوسروں سے ممتاز ہوجائیں۔ ولقد ارسلنا نوحا و ابراہیم۔ تا۔ وکثیر منہم فاسقون (رکوع 4) ۔ ہم نے نوح و ابراہیم (علیہما السلام) کی اولاد میں مسلسل پیغمبر مبعوث کیے یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) آئے۔ مسئلہ توحید میں مشرکین سے مقابلہ ہوا تو حواریین نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دیا اور ہم نے بھی ان کو مشرکین پر فتحیاب اور غالب کیا لیکن بعد کے لوگوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، مگر اس پر بھی پورے نہ اترے اور فسق وفجور کی راہ اختیار کرلی۔ یا ایہا الذین امنوا اتقوا اللہ۔۔الخ اہل کتاب کو ایمان لانے اور خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینے کی ترغیب ہے۔ اے اہل کتاب جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاچکے ہو !اللہ سے ڈرو اور اس کے آخری رسول پر بھی ایمان لے آؤ اور اس کا اسی طرح ساتھ جس طرح حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دیا تھا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوگنا ثواب عطا فرمائے گا۔ لئلا یقدرون۔۔الخ تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھیں کہ اب وہ جہاد نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ان کا امام اور امیر کوئی نہیں۔ لہذ اب میرا آخری پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام اور امیر ہے، اب وہ اس پر ایمان لا کر، اس کے ساتھ مل کر جہاد کریں۔
:مختصر ترین خلاصہ
تمہید کے بعدانفاق فی سبیل اللہ کا حکم ہے،پھر اس کی پانچ وجوہات بیان ہوئیں،اور ترغیب الی القتال وبشارت فتح ہے۔
Download PDF