سورۃ التوبہ مدنی دور کی سورۃ ہے، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سے یہ سورۃ 9 نویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے113 ایک سو تیرہ نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 129آیات ہیں جو16 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔یہ سورة دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے البراءَۃ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے۔ اور براءۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بریٔ الذمہ ہونے کا اعلان ہے۔رمضان 8 ہجری میں مکہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں پر سے وہ پابندیاں از خود اٹھ گئیں جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ میں داخلہ، عبادات، طواف اور حج وعمرہ پر لگا رکھی تھیں۔ 8 ہجری میں تو مسلمان حج کر ہی نہ سکے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینہ پہنچنے تک اتنا وقت نہ رہا تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ سے آتے۔ ٩ ہجری میں آپ نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور ابوبکر صدیق ؓ کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کردیا۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے داخلہ پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج ادا کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ ابوبکر صدیق ؓ روانگی کے بعد اس سورة کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کی بنا پر مشرکین سے صرف بیت اللہ شریف میں داخلہ پر ہی پابندی نہ لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا گیا۔بیت اللہ میں انکو داخل ہونے سے روکنے کا حکم اور مشرکین کے ساتھ اعلان جنگ، مشرکین سے جنگ کرنے کے بارے میں شبہات کا جواب جو ان کے ساتھ قتال کرنے کے موانع تھے اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب ووجوہات مذکور ہیں۔بلخصوص انکی لئےاللہ سے دعائے مغفرت طلب کرنے کی مکمل ممانعت کر دی گئی۔ اللہ کی مساجد کو آباد کرنااورحقِ امامت مشرک کے پاس رہنے نہیں دیا۔
:سورةالتوبہ کا سورۃ الانفال سے ربط
سورة انفال میں مشرکین سے جہاد کرنے کا اجمالاً حکم دیا گیا اور قوانین جہاد کی تعلیم دی گئی۔ نیز حکم صادر کیا گیا کہ اگر جہاد میں مسلمانوں کی فتح ہوجائے تو جو مال غنیمت ہاتھ آئے اس کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق کریں۔ اور اس میں نزاع واختلاف نہ کریں۔ مال غنیمت کے مصارف کی بھی تفصیل کی گئی۔ اب سورة توبہ میں اعلان جہاد کا اعادہ کیا گیا۔ اور تفصیل سے بتایا کہ کن کن لوگوں سے جہاد کرنا ہے۔ یعنی جو لوگ غیر اللہ کی نذریں دیتے اور غیر اللہ کے لیے تحریمات کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام، اولیاء کو متصرف و کارساز سمجھتے ہیں۔ اور اللہ کی تحریمات کو باقی نہیں رکھتے۔ ان کے ساتھ اعلان جنگ کردو۔ سورة انفال میں بھی اگرچہ قتال کا حکم بالاجمال موجود ہے مگر وہاں مقصود قوانین جنگ اور مصارف غنیمت کا بیان ہے۔ اور سورة توبہ میں مقصود اعلان جنگ کا تفصیلی حکم ہے۔
:سورة توبہ کے دو حصے ہیں
پہلا حصہ ابتداء سے لے کر رکوع نمبر 5 کے آخر تک لَا يَھْدِیْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ تک ہے اور دوسرا حصہ رکوع 6 کی ابتداء يَا اَيُّھَا الَّذيْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا۔۔ الخ سے لے کر لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ (رکوع 15) تک ہے۔ اور يَا اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوْا الَّذيْنَ يَلُوْنَکُمْ سے آخر سورت تک مضامین سورۃ کا اعادہ ہے۔ پہلے حصے میں بد عہدی کرنیوالے مشرکین سے اعلان براءت، مشرکین کے ساتھ اعلان جنگ، مشرکین سے جنگ کرنے کے بارے میں شبہات کا جواب جو ان کے ساتھ قتال کرنے کے موانع تھے اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب ووجوہ مذکور ہیں۔ اور دوسرے حصے میں منافقین پر زجریں، اور مومنین کے لیے ترغیب الی القتال ہے۔ دوسرے حصے کے آخر میں مَا کَانَ للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۔۔۔ الخ سے فرمایا مشرکین سے جہاد جاری رکھو۔ اورجولوگ حالت کفر میں مرچکے ہیں یا جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرو اگرچہ وہ نہایت قریبی رشتہ دار ہوں۔
:حصہ اول
پہلے حصے کی ابتداء میں بَرَآءَ ةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ۔۔ الخ میں بد عہدی کرنے والے مشرکین سے اعلان برأت ہے۔ یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ تھا مگر انہوں نے معاہدہ توڑ دیا تم بھی معاہدے سے اعلان برأت کردو اور سارے ملک میں اس اعلان کی چار ماہ تک خوب اشاعت کرو اور پھر حج کے موقع پر بھی اس اعلان کو دہراؤ۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰھَدْتُّمْ۔۔ الخ سے ان مشرکین کو مستثنی کردیا گیا جنہوں نے اپنا عہد نہیں توڑا اور تمہارے خلاف دشمن کی مدد نہیں کی ان سے اپنا عہد قائم رکھو اور میعاد معاہدہ کے اختتام تک ان سے تعرض مت کرو۔ جب حرمت والے چار مہینے گذر جائیں تو عہد توڑنے والے مشرکین جہاں کہیں بھی مل جائیں انہیں قتل کر ڈالو۔ وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ سے پناہ مانگنے والے مشرکین کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ کَیْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَھْدٌ ۔۔الخ (رکوع 2) یہ مانع اول کا جواب ہے۔ مانع یہ تھا کہ ان مشرکین سے تو معاہدہ کیا گیا ہے ان سے جہاد کیونکر جائز ہے۔ جواب دیا گیا کہ جب انہوں نے عہد توڑ دیا تو اب مانع باقی نہ رہا۔ اب ان سے جہاد کرو۔ مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا الخ (رکوع 3) یہ مانع دوم کا جواب ہے۔ مانع دوم یہ تھا کہ مشرکین تو بڑے نیک کام کر رہے ہیں۔ بیت اللہ کی تعمیر میں حصہ لے رہے ہیں اور حاجیوں کی خدمت کرتے ہیں فرمایا کفر وشرک کی حالت میں اعمال صالحہ کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ اعمال رائیگاں ہیں۔ اعمال کی قبولیت کا مدار ایمان پر ہے اور وہ ایمان سے خالی ہیں۔ اس کے بعد اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا۔۔ الخ میں مہاجرین اور مجاہدین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا ۔۔الخ (رکوع 3) یہ تیسرے مانع کا جواب ہے یعنی مشرکین سے تو قریبی رشتہ داریاں ہیں ان سے جنگ کرنے سے قطع رحمی ہوگی۔ فرمایا اگر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں تمہیں رشتہ داریاں اور مالی منافع زیادہ عزیز ہیں تو پھر تم بھی اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ اس کے بعد لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰهُ ۔۔الخ (رکوع 4) بشارت دنیوی ہے۔ وَ اِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً۔۔ الخ یہ چوتھے مانع کا جواب ہے۔ یعنی مشرکین کو بیت اللہ میں داخلے پر پابندی کی صورت میں کاروبار تباہ ہونے اور مالی پریشانیوں کا اندیشہ ہو تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ اللہ تمہیں فراخی سے دولت عطا فرمائے گا۔ قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔۔ الخ یہاں بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کے ساتھ قتال کرنا ہے اور ان لوگوں سے قتال کے اسباب وو جوہات کیا ہیں۔ یعنی جو لوگ اللہ کی توحید اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے اور غیر اللہ کو متصرف و کارساز سمجھ کر ان کے لیے تحریمات کرتے اور نذریں دیتے ہیں اور اللہ کی تحریمات کو باقی نہیں رکھتے ان سے جہاد کرو وہ خواہ مشرکین عرب ہوں یا یہود اور نصاریٰ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِر یہ قتال کی پہلی وجہ ہے۔ یعنی اللہ پر، اللہ کے سول پر اور قیامت پر ان کا ایمان نہیں۔ دوسری وجہ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٗهُ وَرَسُوْلُهٗ وہ محرمات الٰہیہ مثلاً غیر اللہ کی نذر ونیاز کو حرام نہیں سمجھتے۔ تیسری وجہ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصَارٰي الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰه (رکوع 5) ۔ یہود عزیرؑ کو اور نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور نائب متصرف سمجھتے ہیں۔ چوتھی وجہ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا ۔۔الخ انہوں نے اپنے مولویوں، پیروں، گدی نشینوں اور عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنا رکھا ہے۔ پانچویں وجہ قتال يَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ والرُّھْبَانِ۔۔ الخ ان کے بہت سے علماء اور پیر و گدی نشین لوگوں کو اللہ کی راہ (راہ توحید) سے روکتے اور ناجائز ہتھکنڈوں سے لوگوں کا مال بٹورتے ہیں۔ چھٹی وجہ قتال اِنَّ عِدَّ ةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا۔۔ الخ اللہ تعالیٰ نے روز اول سے مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی اور ان میں سے چار مہینوں کو قابل احترام ٹھہرایا مگر ان مشرکین نے ان میں اپنی طرف سے رد و بدل کردیا وہ عزت والے مہینوں میں جنگ و قتال کر کے ان کی جگہ دوسرے مہینوں کو عزت والے قرار دے کر ان میں جنگ نہ کرتے۔ جن مشرکین نے اشہر حرم کا احترام باقی نہیں رکھا ان سے بھی قتال کرو۔
:دوسرا حصہ
يَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ ۔۔الخ (رکوع 6) بیان دعویٰ کے بعد مومنوں کے لیے ترغیب الی القتال، منافقین اور ان مومنوں کے لیے جو جہاد میں شریک نہیں ہوئے زجر وتوبیخ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں سے ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ تک ترغیب الی القتال ہے۔ پھر صحابہ کرام کی تین اور منافقین کی چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
:صحابہ کی تین جماعتیں
وہ مہاجرین وانصار جو جان و دل سے جنگ تبوک میں شریک ہوئے اور جہاد کیا۔ آیات ذیل میں ان کے فضائل اور ان کے لیے بشارتیں مذکور ہیں۔ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤِمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ تا ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (رکوع 9)، لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَه تا ذٰلِکَ الْفَوْزُالْعَظِیْمُ (رکوع 11)، وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤمِنُ بِاللّٰهِ (رکوع 12) تا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (رکوع 13)، اِنَّ اللّٰه اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ تا وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (رکوع 14)، لَقَدْ تَابَ اللّٰهُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنصَارِ تا اِنَّهٗ بِھِمْ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وہ پانچ یا سات صحابہ کرام جو مخلص مومن تھے مگر جہاد میں شریک نہ ہوئے۔ انہوں نے اپنے کو ستونوں سے باندھ لیا اور گڑ گڑا کر توبہ کی۔ اللہ نے ان کو توبہ قبول فرما لی۔ وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ تا ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (رکوع 13) میں ان کا ذکر ہے۔
وہ تین صحابہ جو قدیم الایمان اور نہایت مخلص تھے اور سستی کی وجہ سے جہاد میں شریک نہ ہوئے اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر کوئی عذر نہیں تراشا۔ بلکہ اپنا قصور صاف صاف بیان کردیا ان کو بطور تادیب پچاس دن کی ڈھیل دی اور اس کے بعد ان کی توبہ قبول فرمائی۔ ان کا ذکر ان دو آیتوں میں ہے۔ وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبَھُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (رکوع 13) اور وَعَلَی الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا تا اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (رکوع 14)
:منافقین کی چار جماعتیں
وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہ ہوئے اوررسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جہاد سے واپسی پر جھوٹے بہانے تراشنا شروع کیے۔ حسب ذیل مقامات میں ان کے احوال مذکور ہیں۔ لَوْ کَانَ عَرَضاً قَرِیْباً (رکوع 6) تا اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ (رکوع 8)۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِھِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ (رکوع 11) تا فَھُمْ لَایَفْقَھُوْنَ (رکوع 11)، وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ (رکوع 13) تا وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (رکوع12)۔
وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہ ہوئے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کی۔ ان کا ذکر وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَاراً (رکوع 13) تا وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (رکوع 13) میں ہے۔
وہ منافقین جو ازراہ نفاق جہاد میں شریک ہوئے مگر راستہ میں مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ ان کا ذکر وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ تا کَانُوْا مُجْرِمِیْن (رکوع 8) میں ہے۔
وہ منافقین جنہوں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگ تبوک سے واپسی پر آپ کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو ان کی ناپاک سازش کی اطلاع دے دی۔ ان کا ذکر یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا تا مِنْ وَّ لِيٍّ وَّ لَا نَصِیْرٌ (رکوع 10) میں کیا گیا ہے۔ اس حصے میں اس منافق کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نےرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا تھا مگر عہد پر قائم نہ رہا۔ اس کا واقعہ وَمِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰهَ۔۔ الخ رکوع 10 میں مذکور ہے۔
سورت کے آخری رکوع میں سورت کے تمام مضامین کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے۔ يَا اَيُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوْا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ ۔۔الخ میں حکم قتال کا اعادہ ہے۔ لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ۔۔ الخ میں ترغیب اتباع رسول کا اعادہ ہے اور لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ میں مسئلہ توحید کا بیان ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا۔
:مختصر ترین خلاصہ
مشرکین سےمکمل طورپراعلان برأت کیا گیا،قتال کا تفصیلی حکم دیا گیا،جنگ تبوک کےحوالےسےصحابہ کرامؓ کی تین اورمنافقین کی چار جماعتوں کا ذکر کیا گیا،آخر میں سبب قتال یعنی مسئلہ الہٰ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُو کو بیان کیا۔