سورۃ الانعام مدنی دور کی سورۃ ہے، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 6 چھٹےنمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے55 پچپن نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 165آیات ہیں جو 20 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ کا نام اسی سورۃ کی آیت نمبر 142 سے لیا ہے،الانعام یعنی وہ سورۃ جس میں مویشیوں کا ذکر ہے۔یہ طویل سورۃ ایک ہی خطبہ معلوم ہوتی ہے،جس کے دو حصے ہیں۔ جس میں تسلسل کے ساتھ مختلف انداز میں سے انفاق انفس کے موئثر دلائل سے بھر پور دعوت توحید کو آسان پیرائے میں پیش کیا گیا ہے،اور مشرکانہ عقائد کی کھل کر تردید کی گئی ہے۔شرک سے پاک ایمان کے حاملین کو ہدایت یافتہ کہا اور انہی کے کے امن و سکون کی ضمانت دی گئی۔منکرین حق کے لئے عذاب کی مختلف شکلوں کو بیان کیا گیا،اہل ایمان کو تلقین کی گئی کہ جہاں اللہ کے دین کا مذاق اڑایا جائے ایسی محفل سےمکمل اجتناب کیا جائے،ابراہیمؑ سے محبت و تعلق کے دعوےدار کفار و مشرکین پر واضح کیا کہ ابراہیمؑ تو مشرکانہ عقائد و اعمال سے سخت بیزار تھے۔شرک کی شناعت پر زور دینے کے لئے 18 انبیاء کا ذکر کر کے فرمایا اگر(بفرض محال)یہ انبیاء بھی شرک کرتے تو انکے اعمال بھی غارت کے دئیے جاتے۔اور فرمایا کہ جس نے ایمان نہیں لانا وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ ہم ان کے مطالبے پر آسمان سے کتاب اتاردیں،یہ فرشتوں کا اترتا دیکھ لیں،مردے ان سے باتیں کرنے لگ جائیں ،دینا کی تمام چیزیں انکے سامنے جمع کردیں پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔دور جاہلیت کی حلال وحرام کی توہمانہ قیود کو ردّ فرمایا اور چار محرمات کا ذکر فرمایا (مردار،بہتا ہواخون،خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ سے منسوب اشیاء) اور پھر محرمات غیر اللہ کا ذکر کیا گیا،آخر میں تفرقہ پردازی کی شدید مذمت کی گئی کہ فرقہ پرستوں سے آپﷺ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اور جو اہل شرک کی اطاعت کرے گا وہ بھی مشرک ہے اوراس بات کا اعلان کروا دیا گیا کہ یہ ابراہیم ؑ کا دین ہے جو یکسو تھے،یہی صراط مستقیم ہے اسی کی پیروی کرنا۔
:سورۃ الانعام کا سورۃ المائدہ سے ربط
ا: سورة مائدہ میں جن دو مضامین کو بیان کیا گیا۔ یعنی نفی شرک فعلی اورنفی شرک فی التصرف یا شرک اعتقادی۔ سورة انعام میں انہی دونوں مضامین کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ سورة مائدہ میں پہلے نفی شرک فعلی اور اس کے بعد نفی شرک فی التصرف کا ذکر تھا لیکن سورة انعام میں ترتیب ذکر اس کے برعکس ہے۔ ابتداء سورت سے لے کر رکوع 14 میں وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ تک نفی شرک فی التصرف کا بیان ہے اور اس کے بعد فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰهِ سے لے کر سورت کے آخر تک نفی شرک فعلی کا ذکرہے۔
ب: سورة مائدہ میں شرک فی التصرف کرنے والوں پر جوفتوے صادر کیے گئے ہیں کہ وہ کافر ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ۔ اور لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰه ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ۔ لیکن شرک فی التصرف کے بطلان پر دلائل عقلی ونقلی اور دلیل وحی سےقائم نہیں کیے گئے۔ البتہ صرف ایک دلیل ذکر کی گئی ہے۔ یعنی وَلِلّٰهِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا یَخْلُقُ مَایَشَاءُ ۔۔۔الخ۔ اس کے برعکس سورة انعام میں اس کے بطلان پر دلائل عقل ونقل اور وحی سے قائم کیے گئے ہیں اور دلائل کے سلسلے میں ہرچند دلائل کے بعد ان کا ثمرہ اور نتیجہ بھی ذکر کیا گیا ہے۔
ج: سورة مائدہ میں تحریمات غیر اللہ کے بیان کے لیے تین تعبیریں اختیار کی گئی ہیں۔ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَةُ الْاَنْعَامِ ، لَاتُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَکُمْ اور مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ ۔۔الخ اور سورة انعام میں ان کے علاوہ تحریمات غیر اللہ کی باقی شقیں بیان کی گئی ہیں۔
:سورۃ الانعام کے دو حصّے ہیں
اس سورت میں دو مضمون بیان کیے گئے ہیں اس لحاظ سے اس سورت کے دو حصے ہیں پہلا حصہ ابتداء سورت سے لیکر رکوع 14 میں اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ تک ہے اس میں نفی شرک فی التصرف کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ اس کے متصل بعد فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیهِ سے لے کر رکوع 19 میں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ تک ہے جس میں نفی شرک فعلی کا مضمون ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسیٰ الْکِتٰبَ تَمَامًا سے دونوں مسئلوں پر دلیل نقلی اور وَھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَکٌ سے دونوں پر دلیل وحی ذکر کی گئی ہے یعنی پہلے تورات میں بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غیب دان اور کارساز نہیں اور اس کے سوا کوئی نذر و نیاز کے لائق نہیں۔ پھر تورات کے بعد قرآن میں بھی دونوں مسئلوں کی وضاحت کی گئی ہے اس لیے قرآن کی پیروی کرو۔ پھر سورت کے آخری رکوع میں قُلْ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَای َ سے آخر سورت تک دونوں مضمونوں کا اجمالی طور پر اعادہ کیا گیا ہے دونوں مضمونوں کو ہر قسم کے دلائل سے مدلل و مبرہن کیا ہے۔
:حصّہ اول
پہلے حصے میں دلائل کے علاوہ مضامین کے تین اور سلسلے ضمناً بھی آگئے (1) سلسلہ مشرکین کے شبہات کاردّ (2) سلسلہ طریق تبلیغ (3) سلسلہ مشرکین کے انکار کی وجہ۔ ہر سلسلہ سات شقوں پر مشتمل ہے۔
نفی شرک فی التصرف پر دلائل : پہلے حصے میں نفی شرک فی التصرف پر عقلی و نقلی اور وحی کے سولہ دلائل میں پیش کیے گئے ہیں۔ گیارہ دلائل عقلیہ دو دلائل نقلیہ اور تین دلائل وحی سلسلہ دلائل کے درمیان چند دلائل کے بعد تین بار ان کا ثمرہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
:دلائل عقلیہ
پہلی عقلی دلیل: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمٰوِٰ وَالْاَرْضِ تا يَکْسِبُوْنَ ۔ اس دلیل کا مدعیٰ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کارساز اور غیب دان کوئی نہیں۔
دوسری عقلی دلیل: (علی سبیل الاعتراف من الخصم- یعنی مخالف سے اعتراف کروانا کہ تم خود بتاؤ)، قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ قُلْ لِّلّٰهِ کَتَبَ عَلیٰ نَفْسِهٖ الرَّحْمَةَ ۔ یعنی جب تم زمین و آسمان کا مالک اللہ ہی کو مانتے ہو تو اس کے سوا کارساز بھی کوئی نہیں۔ اس کے بعد تخویف اخروی ہے۔
تیسری عقلی دلیل: وَلَهٗ مَا سَکَنَ فِيْ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔
چوتھی عقلی دلیل: وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهٗ تا وَ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ ۔ یعنی نفع و ضرر اللہ کے اختیار میں ہے لہٰذا اس کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں۔ اس کے متصل بعد قُلْ اَيُّ شَیْءٍ اَکْبَرُ شَھَادَةً سے لے کر اِنَّنِیْ بَرِيْءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ تک مذکورہ چاروں عقلی دلائل کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب دان اور کارساز نہیں۔ اس کے بعد زجریں اور تخویفیں ہیں۔
پانچویں عقلی دلیل: وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِیْ الْاَرْضِ تا یُحْشَرُوْنَ تک ہر جاندار کا روزی رساں اور کارساز اللہ ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس کے بعد زجر ہے۔
چھٹی دلیل عقلی: (دلیل علی سبیل الاعتراف من الخصم ) قُلْ اَرَءَیْتُکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰهِ تا تُشْرِکُوْنَ اس کے بعد تخویف اخروی ہے۔
ساتویں عقلی دلیل: قُلْ اَرَءَيْتَکُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰهُ سَمْعَکُمْ تا ثُمَّ ھُمْ يَصْدِفُوْنَ ۔ دلیل نمبر 6، 7 سے معلوم ہوا کہ متصرف و مختار اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس کے بعد قُلْ اَرَءَیْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللہ سے چھٹی دلیل کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد زجر و تخویف اور بشارت وغیرہ کا ذکر ہے۔
آٹھویں عقلی دلیل: و عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ تا لِیُقْضیٰ اَجَلٌ مُّسَمًّی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اصول، ان کے تحت کلیات اور جزئیات سب کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔
نویں عقلی دلیل: (علی سبیل اعتراف من الخصم ) قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تا ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ ۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں اس کے بعد تخویفیں اور زجریں ہیں۔ پھر قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا سے لے کر وَھُوَ الَّذِيْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ تک مذکورہ پانچوں عقلی دلیلوں کا ثمرہ بیان کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کا کلی علم غیب صرف اللہ ہی کو ہے اور اس کے سوا کوئی غیب دان اور متصرف و کارساز نہیں۔
دسوی عقلی دلیل: وَھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ تا وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ۔
گیارہویں عقلی دلیل: اِنَّ اللهِ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰي تا يُؤْمِنُوْنَ اس کے بعد ذٰلِکُمُ اللّٰهُ رَبُّکُمْ سے لے کر وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ مذکورہ دونوں دلیلوں کا ثمرہ بیان کیا گیا ہے۔ ان دونوں دلیلوں سے واضح ہوتا ہے کہ کارساز اور متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے سوا کوئی متصرف و کارساز نہیں۔
:دلائل نقلیہ نفی شرک فی التصرف پر دو نقلی دلیلیں ذکر کی گئی ہیں
پہلی دلیل نقلی: ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ سترہ انبیاء (علیہم السلام) سے اور اجمالی تمام انبیاء (علیہم السلام) سے وَ اِذْ قَالَ اِبْرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ اٰزَرَ تا اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْن۔ اس میں ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ سترہ انبیاء (علیہم السلام) کے نام گنوا کر اور باقیوں کا اجمالی ذکر کر کے سب کی طرف سے بیان فرمایا کہ وہ سب شرک سے بیزار اور توحید کے مبلغ تھے۔ وہ سب اللہ ہی کو غیب دان اور متصرف و کارساز مانتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے تھے
دوسری نقلی دلیل: امم سابقہ کے علماء سے بیان کی گئی ہے۔ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتٰبَ تا فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ۔ یعنی اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) کے علماء بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ توحید آپ پر اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے اور وہ حق ہے۔
:دلائل وحی نفی شرک فی التصرف پر تین دلائل وحی ذکر کیے گئے ہیں
پہلی دلیل وحی: وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغ۔ یعنی سب سے بڑی شہادت تو اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس نے قرآن میں مجھ پر یہ وحی کی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی متصرف و مختار اور نافع و ضار نہیں۔
دوسری دلیل وحی: وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ۔۔۔ الخ یعنی پہلے تمام انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم یہ تھی کہ اللہ کے سوا کوئی غیب دان اور کارساز نہیں اور سب کے آخر میں ہم نے اپنے آخری رسول پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی جو پہلے تمام نبیوں کی تعلیم کی تصدیق کرتی ہے۔ تیسری دلیل وحی اِتَّبِعْ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔۔ الخ۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی وحی کا اتباع کروں کہ اللہ کے سوا کوئی متصرف و مختار اور کارساز نہیں۔
: مشرکین کےشبہات کاردّ
پہلے حصے میں مشرکین کے ساتھ شبہات یا سوالات کا جواب دیا گیا ہے ان میں سے بعض یہاں مذکور ہیں اور بعض یہاں مذکور نہیں بلکہ قرآن مجید میں کسی دوسری جگہ مذکور ہیں۔
پہلا سوال: یہ تھا کہ اللہ کی طرف سے ان کے نام پر لکھی ہوئی کتاب آئے جسے وہ خود پڑھ لیں۔ یہ سوال سورة بنی اسرائیل رکوع 10 میں وَ لَنْ نُّؤمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰباً نَّقْرَء ہٗ سے مذکور ہے۔ یہاں وَ لَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتٰبًا فِیْ قِرْطَاسٍ سے۔
اس کا جواب: دیا کہ اگر ہم لکھی لکھائی کتاب نازل کرتے تو اس میں بھی یہی مسئلہ توحید ہی مذکور ہوتا اور وہ اسے بھی جھٹلا دی
دوسرا سوال: یہ تھا کہ اس پیغمبر کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا جو اس کی صداقت کا اعلان کرتا۔ یہ سوال یہاں وَقَالُوْا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ میں مذکور ہے اور سورة الفرقان میں اس پر یہ اضافہ ہے۔ لِیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْراً اور وَ لَوْ اَنْزَلْنَاہُ مَلَکًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْن سے
اس کا جواب: دیا گیا کہ اگر پیغمبر (علیہ السلام) کے ساتھ فرشتہ نازل کیا جاتا تو انکار کرنے کی صورت میں انہیں فوراً ہلاک کردیا جاتا اور لمحہ بھر مہلت نہ دی جاتی۔
تیسرا سوال: یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو پیغمبر بھیجنا منظور تھا تو کسی فرشتے کو پیغمبر بنا کر کیوں نہ بھیج دیا یہ سوال بھی یہاں مذکور نہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلَا ئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا سے معلوم ہوتا ہے۔
اس کا جواب: وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ میں دیا گیا کہ اگر فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو لامحالہ انسانی شکل ہی میں آتا اور ان کا اعتراض اسی طرح بحال رہتا ہے۔
چوتھا سوال: یہ تھا کہ ان کا منہ مانگا معجزہ کیوں نہیں ان کو دیا جاتا تو
اس کا جواب: دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ معجزہ اتارنے پر تو قادر ہے لیکن اکثر لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے حالانکہ اصل مقصد تو یہ ہے لوگ ایمان لائیں یہ سوال و جواب وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ اٰیَۃً تا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْن۔ میں مذکور ہے۔
پانچواں سوال: یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی دولت مند آدمی کو رسول بنا کر کیوں نہ بھیجا یہ سوال سورة زخرف رکوع نمبر 3 میں قَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ سے ذکر کیا گیا ہے۔
چھٹا سوال: یہ تھا کہ اگر یہ نبی ہوتا تو ہمیں غیب کی باتیں بتاتا اور ملک شام کی منڈیوں میں اشیاء کے نرخ بتا دیتا یہ سوال حدیث میں مذکور ہے۔
ساتواں سوال: یہ تھا کہ یہ پیغمبر خوب ہے کہ ہماری طرح بازار سے سودا سلف خریدتا اور کھاتا پیتا ہے۔ اگر پیغمبر ہوتا تو ایسا نہ کرتا یہ سوال سورة الفرقان رکوع ایک میں مذکور ہے وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ۔
ان تینوں سوالوں کا جواب: قُلْ لَّا اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللہِ وَ لَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَا اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّی مَلَکٌ سے دیا گیا۔
:طریقہ تبلیغ تعلیم
نفی شرک فی التصرف کے بیان میں سات طریق تعلیم مذکور ہیں۔
اوّل: قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ آپ اعلان کردیجئے کہ جو اللہ آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جو خود بےنیاز اور سب کا کارساز ہے کیا اسے چھوڑ کر میں غیر اللہ کو کارساز بنا لو ؟ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
دوم: قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ ۔الخ۔ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کروں اور مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اللہ کے ساتھ کسی شریک بناؤ۔
سوم: قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْم۔ تمہیں نہ تو اللہ کا خوف ہے نہ اس کے عذاب کا ڈر لیکن میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اگر اس کی نافرمانی کروں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناؤں اور اس کے سوا کسی کو غیب دان اور کارساز سمجھوں تو وہ مجھے عذاب میں مبتلا کردےگا۔
چہارم: قُلْ اِنِّىْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔ آپ فرما دیجئے مجھے تو ان معبودان باطلہ کو پکارنے سے منع کردیا گیا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔
پنجم: قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَهْوَاءكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ ۔ میں تمہاری باطل خواہشات کی پیروی نہیں کرسکتا اگر میں ایسا کروں تو گمراہی میں جا پڑوں اور ہدایت سے دور ہوجاؤں کیونکہ تمہاری خواہشات یہ ہیں کہ میں بھی غیر اللہ کو غیب دان اور کارساز سمجھوں حالانکہ یہ صریح گمراہی ہے۔
:ششم: قُلْ اِنِّىْ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَكَذَّبْتُمْ بِهٖ ۔ میرے پاس تو اللہ کی توحید کے واضح دلائل موجود ہیں ان کی موجودگی میں میں توحید کی راہ کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں۔ تم نے تو کور باطنی کی وجہ سے اس کی تکذیب کردی۔
ہفتم: قُلْ لَّوْ اَنَّ عِنْدِيْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ لَقُضِيَ الْاَمْرُ بَيْنِيْ وَبَيْنَكُمْ ۔ جس چیز یعنی عذاب کا تم مطالبہ کر رہے ہو اگر وہ چیز میرے اختیار میں ہوتی تو کب کا میرے اور تمہاری درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا لیکن یہ سب کچھ اللہ کے اختیار و تصرف میں ہے میرے بس میں نہیں ہے۔ ساتواں طریق تعلیم نفی شرک فی التصرف پر دلیل بھی بن سکتا ہے کہ غائبانہ حکم اور تصرف صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
:مشرکین کے انکار کی وجہ
٭ سورة انعام میں مشرکین کے انکار کی سات وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ پانچ حصہ اول میں اور دو حصہ دوم میں۔ ہر وجہ لفظ کَذٰلِکَ سے بیان کی گئی ہے۔ ان جگہوں میں کاف تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ بیان کمال کے لیے۔
٭ وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۔۔الخ یعنی وہ ماننے والوں کو حقیر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ جس دین کو ایسی معمولی پوزیشن کے لوگوں نے مانا ہے بھلا وہ بھی سچا ہوسکتا ہے۔یہ انکار کی پہلی وجہ بیان کی گئی۔
٭ مسئلہ توحید جس قدر زیادہ کھول کر بیان کیا جاتا اور مشرکین کے کرتوت جس قدر واضح کیے جاتے اسی قدر ان کا بغض وعناد زیادہ ہوجاتا اور وہ انکار کرنے لگتے۔ وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِيْنَ میں دوسری وجہ بیان کی گئی ہے۔
٭ وَكَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ یعنی ہم آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں لیکن مشرکین پیغمبر (علیہ السلام) پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ کسی سے سیکھ کر آیا ہے۔ یہ انکار کی تیسری وجہ بیان کی گئی ہے۔
٭ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُمْ (انعام :108) مشرکین کو مشرکانہ اعمال خوبصورت اور بھلے معلوم ہوتے ہیں اس لیے وہ مسئلہ توحید کو نہیں مانتے۔ آگے چل کر كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (انعام : 122) میں اس وجہ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اور چوتھی وجہ بیان کی گئی ہے۔
٭ وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ (انعام : 112) یعنی انس اور شیاطین جس نبی کے دشمن ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈالتے رہتے ہیں اور ان کو پیغمبر سے یہ کہہ کر بد ظن کرتے رہتے ہیں کہ یہ تو نبیوں اور ولیوں کا بےادب ہے۔یہ انکار کی پانچویں وجہ بیان کی گئی ہے۔
٭ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْھَا۔۔ الخ۔ ہر بستی کے بڑے لوگ عموماً مجرم ہوتے ہیں اور لوگوں کو مکر و فریب سے گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ انکار کی چھٹی وجہ بیان کی گئی ہے۔
٭ وَكَذٰلِكَ نُوَلِّيْ بَعْضَ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضًا بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (انعام : 129) شرک کی وجہ سے تمام مشرکین ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں اور متحدہ طور پر مسئلہ توحید کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ یہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج کل کے مشرکین کے رد ّو انکار کی وجوہ بھی بعینہ یہی ہیں۔
:حصّہ دوم
دوسرے حصہ میں شرک فعلی کی صرف تین شقوں کا ذکر ہے۔ (1) تحریمات غیر اللہ۔ (2) تحریمات اللہ (3) نذور غیر اللہ
:تحریمات غیر اللہ
اس مسئلہ کو چار مختلف عنوانات سے ذکر کیا گیا ہے۔ جو تحریمات غیر اللہ کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔
ا: فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ تا اَلَّا تَاْكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ یعنی جن چوپایوں کو تم نے غیر اللہ کی خاطر نامزد کر رکھا ہے مثلاً سائبہ، بحیرہ وغیرہ جب ان کو خالص اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو انہیں کھاؤ۔ جن چوپایوں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ان کو تم کیوں نہیں کھاتے ہو۔ انہیں کھاؤ اور تحریمات کو اٹھاؤ۔
ب: وَ قَالُوْا ھٰذِہٖ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ تا اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ اس عنوان کے تحت تحریمات مشرکین کی چار صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ 1 کچھ چوپایوں اور کھیتیوں کو وہ اپنے معبودان باطلہ کے لیے نامزد کردیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کو کوئی نہیں کھاسکتا۔ 2 کچھ چوپایوں پر سواری کرنے اور بوجھ لادنے کو حرام کردیتے تھے۔ 3 جن چوپایوں کو غیر اللہ کی خاطر نامزد کردیتے تھے ذبح کے وقت ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ 4 بعض مادہ چوپایوں کے متعلق وہ فیصلہ کردیتے تھے کہ ان کے پیٹ کا بچہ اگر زندہ پیدا ہو تو ان کے مردوں کے لیے حلال ہے اور ان کی عورتوں کے لیے حرام ہے اور اگر مردہ پیدا ہو تو دونوں جنسوں کے لیے جائز ہے۔ فرمایا یہ تمام صورتیں باطل اور ان کی خود ساختہ ہیں اس پر ان کو سخت سزا ملے گی تم ان تحریمات کو اٹھاؤ اور ان چیزوں کو کھاؤ۔
ج: اس کے بعد وَ حَرَّمُوْا مَارَزَقَھُمُ اللہُ سے تحریمات غیر اللہ کا اعادہ کیا گیا ہے۔
د: وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَۃً وَّ فَرْشًا تا اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَاءَ اِذْ وَصّٰکُم اللہ بِھٰذَا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کی آٹھ انواع بیان فرمائیں۔ ضان۔ نر و مادہ (دنبہ اور دنبی) یہاں بھیڑ اور مینڈھا بھی اس میں داخل ہیں۔ معز۔ نر و مادہ (بکری اور بکرا) نر و مادہ (اونٹ اور اونٹنی) بقر۔ نر و مادہ (گائے اور بیل) بھینس اور بھینسا بھی بقر میں داخل ہیں۔ اور پھر مشرکین سے ان اشیاء کی تحریم پر عقلی اور نقلی دلیل کا مطالبہ کیا۔ فرمایا گیا اللہ نے ان چوپایوں کے نروں کو حرام فرمایا ہے یا ان کی ماداؤں کو جوان بچوں کو ماداؤں کے ارحام میں ہیں ؟ کیا اس پر تمہارے پاس کوئی عقلی دلیل ہے ؟ اگر نہیں تونَبِّئُوْنِیْ بِعِلْمٍ۔۔ الخ تو کوئی نقلی دلیل ہی پیش کردو۔ یہ مشرکین کو ایک قسم کا چیلنج ہے۔ لیکن مشرکین کے پاس چونکہ کوئی دلیل نہیں تھی نہ عقلی نہ نقلی، اس لیے عاجز ہو کر کہنے لگے۔ وَ لَوْ شَاءَ اللہُ مَا اَشْرَکْنَا وَ لَا اٰبَاء نَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیْءٍ ۔ یعنی اللہ کو یہی منظور تھا کہ ہم شرک کریں اور اپنی طرف سے تحریمیں کریں۔
:تحریمات اللہ
سورة مائدہ میں تحریمات اللہ کی صرف ایک صورت بیان کی گئی۔ یعنی غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ لیکن سورة انعام میں تحریمات اللہ کی باقی ماندہ بہت سی صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔ سورة انعام میں تحریمات اللہ کا ایک دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔ قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ تا ذٰلِکُمْ وَ صّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن حسب ذیل آیات میں تحریمات الٰہیہ مذکور ہیں۔ شرک کی ہر قسم۔ حقوق والدین اور ان کی حق تلفی۔ قتل اولاد۔ تمام فواحش و منکرات۔ قتل ناحق۔ یتیم کا مال ناحق کھانا۔ ناپ تول میں کمی بیشی وغیرہ۔
:غیر اللہ کی نذر و نیاز
سورة مائدہ میں نذر غیر اللہ کو مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ اور مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ سے ذکر کیا گیا۔ لیکن سورة انعام میں اس مسئلہ کو پانچ مختلف عنوانوں کے ساتھ چار دفعہ ذکر کیا گیا ہے جس میں نذر غیر اللہ کی تمام صورتیں آگئی ہیں۔ (1) قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ ۔ یعنی جو چیزیں تم پر حرام ہیں ان کی تفصیل اللہ تعالیٰ تمہیں بتا رہا ہے۔ یہاں نذر غیر اللہ کا ذکر اجمالی ہے تفصیل آگے آرہی ہے۔ 2۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا تا فَذَرْھُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ ۔ یہاں انعام (جانوروں) کے ساتھ حرث (غلہ اور پھل وغیرہ) کا ذکر بھی صراحت سے کیا گیا ہے جس طرح جانوروں سے غیر اللہ کی نذر حرام ہے اسی طرح غلوں، میووں اور پھلوں سے بھی حرام ہے۔ علیٰ ہذا وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِھِمْ تا فَذرْھُمْ وَ مَایَفْتَرُوْنَ میں نذر غیر اللہ کی ایک اور صورت کا ذکر کیا۔ بعض مشرکین اپنے معبودان باطلہ کی خاطر اپنے بچوں کو ان کی بھینٹ چڑھا دیتے۔ اس آیت میں اس مشرکانہ فعل کی مذمت فرمائی (3) قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا اَوْلَادَھُمْ۔۔ الخ سے نذر غیر اللہ کا تیسری بار ذکر کیا گیا۔ (4) وَ ھُوَ الَّذِیْ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشَاتٍ تا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْن۔ یہاں مختلف قسم کی پیداوار پھلوں، میووں کی انواع و اقسام کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان سے خالص اللہ کا حق ادا کرو اور ان میں سے غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز مت نکالو۔ (5) قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَا اُوْحِیَّ اِلَیَّ مُحَرَّمًا تا فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ یہاں نذر غیر اللہ کو فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ سے تعبیر کیا گیا۔
سورت کے دونوں حصوں کے اختتام پر ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسیٰ الْکِتٰبَ تَمَامًا۔۔ الخ۔ سے دونوں مضمون (نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی) پر دلیل نقلی، اور وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہ مُبٰرَکٌ ۔۔الخ سے دونوں مضمونوں پر دلیل وحی پیش کی گئی ہے۔ یعنی پہلے تورات میں نفی شرک فی التصرف اور نفی شرک فعلی کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ پھر قرآن نے بھی تورات کے مطابق اعلان کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غیب دان اور کارساز نہیں۔ نیز اس نے تحریمات مشرکین کو حلال اور غیر اللہ کی نذر و نیاز کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر خاتمہ سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین اعلان کرائے گئے ہیں (1) قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْ تا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ یعنی اللہ نے عقلی اور نقلی دلائل سے صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی فرمائی ہے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے کہ وہ شرک سے سخت بیزار تھے۔ (2) قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ تا وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ یعنی میں اللہ کے سوا کسی کو غیب دان اور کارساز نہیں سمجھتا ہوں اور میری تمام عبادتیں(قولی،بدنی اور مالی) اور میرا مرنا جینا سب کچھ محض اللہ کے لیے ہے جو ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ (3) قُلْ اَغَیْرَ اللہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ یعنی جو اللہ کائنات کے ذرے ذرے کا مالک اور رازق ہے کیا اسے چھوڑ کر میں کسی اور کو اپنا رب اور کارساز بنا لوں ؟ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا یہ تو عقل و نقل کے صریح خلاف ہے۔ سورت کے آخر میں اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ سے مسئلہ توحید کا انکار کرنے والوں کے لیے تخویف اخروی اور وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ سے مسئلہ توحید کو ماننے والوں کے لیے بشارت اخروی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
:مختصر ترین خلاصہ
حلال و حرام کا اختیار اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے،خود رسول اللہ ﷺ بھی اسی راستے پر چلتے ہیں جس کی طرف اللہ نے انہیں ہدایت دی ہے۔اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کا رسول اللہ ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نیز اس سورۃ کے حوالے سے بتا دیا گیا کہ انسان کی قولی،بدنی و مالی عبادت صرف اللہ کے لئے خاص ہوں تو یہی صراط مستقیم ہے۔