مکی دور کی سورۃ ہے، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 7ساتویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے39 انتالیسویں نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 206 آیات ہیں جو 24 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے لباس کا مقصد بیان کیا ہے اور آدمؑ و ابلیس کا قصہ بیان کیا ہے،مسئلہ توحید کو بڑی تفصیل کے ساتھ قصص الانبیاء کے پیرائے میں بیان کی ہے،جس میں نوح ؑ،ھود ؑ،صالح ؑ،لوط ؑ،شعیب ؑاور موسی ؑ کا قصہ بیان کیا ہے، موسی ؑ کے قصے میں انکے آٹھ واقعات بیان کئے جو انکی زندگی کے مشکل اور کٹھن واقعات تھے۔مقصد یہ کہ ان قصص سے خوب نصحیت حاصل کرو،اپنے عقیدے کی اصلاح کے بعد پھر اسکی ہر موقع پرتبلیغ کرو۔جب قرآن پڑھا جائے تو جاموش ہو جاؤ اور اسے توجہ سے سنو۔دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں تمہیں مصائب و تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا ان کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرو
: سورۃ الاعراف کا ماقبل سے ربط
٭ اگر تم نے انعام (مویشیوں) اور حرث (زمین کی پیداوار) میں غیر اللہ کو شریک نہ کیا اور ان سے غیر اللہ کی نذریں نہ دیں تو اللہ تعالیٰ تم کو نہ صرف جہنم سے بلکہ اعراف سے بھی بچا کر جنت میں داخل کریگا۔
٭ سورة انعام میں نفی شرک فی التصرف پر دلائل عقلیہ تفصیل سے ذکر کیے گئے اور دلیل نقلی صرف ابراہیم (علیہ السلام) سے تفصیلاً مذکور ہوئی اور باقی انبیاء (علیہم السلام) سے اجمالاً ۔ اب سورة اعراف میں ان انبیاء (علیہم السلام) میں سے بعض سے دلائل نقلیہ تفصیل سے ذکر کیے جائیں گے۔
٭ سورۃانعام میں نفی شرک فعلی (نذور غیر اللہ اور تحریمات لغیر اللہ) کو تفصیل سے ذکر کیا گیا۔ اب اعراف میں تحریمات لغیر اللہ کی صرف ایک نہایت اہم صورت کا ذکر کیا گیا۔ یعنی ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرنا اور اسے قرب الہٰی کا موجب سمجھنا۔ اور بوقت طواف کپڑے پہننے کو حرام اور گناہ عظیم جاننا۔
٭ سورة مائدہ اور سورة انعام میں مسئلہ کے دونوں پہلو یعنی(نفی شرک اعتقادی اور نفی شرک فعلی) تفصیل سے ذکر کیے گئے۔ اور ان کو دلائل عقل و نقل اور وحی سے مبرہن کیا گیا۔ اب سورة الاعراف میں فرمایا جب مسئلہ واضح اور مدلل ہوچکا ہے تو اب جرأءت و بہادری سے اس کی تبلیغ کرو اور بلا خوف و خطر اسے ہر ایک تک پہنچاؤ اور تمہارے دلوں میں تنگی اور پریشانی کا گذر ہرگز نہ ہونے پائے۔
:اس سورت میں تین دعوے مذکور ہیں
پہلا دعوی: مسئلہ توحید (نفئ شرک فعلی اور نفئ شرک فی التصرف) کو جراءت و استقامت سے تبلیغ کرنا اور اس راہ میں جو تکلیفیں آئیں ان کی وجہ سے رنجیدگی و دل آزار نہ ہونا۔ یہ دعویٰ سورت کی پہلی آیت میں مذکور ہے۔
دوسرا دعوی: جو احکام اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائے ان کی پیروی کرو اور شیاطین کی پیروی میں اپنی طرف سے تحریمات اختراع نہ کرو۔ یہ دعویٰ اِتِّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ (رکوع 1) سے لے کر ضَلَّ عَنھُمْ مَّا کَانُوْ يَفْتَرُوْنَ (رکوع 6) تک میں مذکور ہے۔ پہلی آیت یعنی اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ۔۔ الخ میں دوسرا دعوی اجمالاً مذکور ہے۔ اس کے بعد قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ (رکوع 1) تک تخویف وتبشیر اور ترغیب و زجر ہے۔ پھر وَ لَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ (رکوع 2) کے آخر وَ مِنْھَا تَخْرُجُوْنَ تک اصل دعویٰ کی تمہید ہے۔ اس کے بعد رکوع 3 کی ابتداء يٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ لِبَا سًا سے لے کر وَ لَا ھُمْ يَحْزِنُوْنَ (رکوع 4) تک اصل مقصود یعنی دوسرے دعویٰ کا ذکر ہے۔ ان آیتوں میں چاردفعہ يٰبَنِیْ اٰدَمَ کے خطاب سے اصل مقصود ذکر فرمایا۔ اے بنی آدم ! لباس تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپنے اور تمہاری زینت کیلئے بنایا ہے۔ اے بنی آدم ! شیطان کے بہکاوے اور وسوسے میں آکر اپنا لباس مت اتار پھینکو جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ یعنی آدم و حوا (علیہما السلام) کا لباس اتروا دیا تھا۔ شیطان تمہارے دلوں میں وسوسے ڈال کر تم سے نئی نئی تحریمات کی اختراع کراتا ہے اور یہ بات شیطان ہی نے تمہارے دل میں بٹھائی ہے کہ ننگے ہو کر طواف کرنا عبادت اور رضائے الٰہی کا موجب ہے(اسکا ذکرصحیح بخاری میں کتاب الحج اور کتاب الغزوات میں بھی مذکور ہے)۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے بنی آدم ہر عبادت کے وقت لباس زیب تن رکھا کرو اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو کھاؤ اور ان میں غیر اللہ کو شریک مت کرو۔ لباس اللہ نے تمہاری زینت کیلئے پیدا کیا ہے اسے پہنو اور اپنی طرف سے اس کے استعمال پر ناجائز پابندیاں مت لگاؤ اور بحالت عبادت (طواف، نماز وغیرہ) اس کے پہننے کو حرام مت سمجھو۔ اے بنی آدم ! تمہارے پاس میرے رسول آئیں گے جو تم کو میرے احکام پہنچائیں گے اور تمہیں میری واحدانیت و توحید سنائیں گے لہٰذا تم ان کی پیروی کرنا اور شرک سے بچے رہنا اس کے بعد پھر رکوع 6 کے اختتام تک بشارتیں، تخویفیں اور زجریں مذکور ہیں۔
تیسرا دعوی:غیب دان، کارساز اور متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس نے کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کر رکھا ہے۔ یہ دعویٰ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ سے لے کر رکوع 7 کے آخر لِقَوْمٍ يَّشْکُرُوْنَ تک میں مذکور ہے۔ اصل دعوی ذکر کرنے کے بعد وَ ھُوَ الَّذِيْ يُرْسِلَ الرِّیٰحَ سے آخر رکوع تک مومن کے دل کیلئے زرخیز زمین اور کافر کیلئے بنجر زمین کی مثال بیان فرمائی جس طرح عمدہ زمین میں بارش کی وجہ سے سرسبز و شاداب کھیت اور باغات لہلہانے لگتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی آیتیں سن کر مومنین کے ایمان میں تازگی اور پختگی پیدا ہوجاتی ہے اور جس طرح ناقص اور بنجر زمین میں باوجود بارش کے کام کی کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی اسی طرح معاندین کے دلوں کی سخت، زمین پر آیات الٰہی کی بارش کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور ان سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ ان کے دلوں میں بغض وعناد اور ضد کی بیماری بدستور باقی رہتی ہے۔
تینوں دعوے ذکر کرنے کے بعد رکوع 8 کی ابتداء لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ سے لے کر بِمَا كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ تک چھ انبیاء کے قصص بیان کئے ہیں۔
٭ پہلا قصہ: نوح (علیہ السلام) کا ہے جو لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ سے لے کر اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ تک ہے۔ یعنی (مکمل رکوع 8)میں مذکور ہے
٭ دوسرا قصہ: ہود (علیہ السلام) کا ہے جو وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا سے لے کر وَمَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ (مکمل رکوع 9) میں مذکور ہے۔
٭ تیسرا قصہ: وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا سے لے کر وَ لٰکِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ تک رکوع 10 میں میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ تینوں قصے تیسرے دعوی (یعنی غیب دان اور کارساز صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں اور اس نے اپنا کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کر رکھا) سے متعلق ہیں۔ ان تینوں قصوں سے معلوم ہوا کہ ان تینوں پیغمبروں نے اپنی تبلیغ کا آغاز اسی دعوی سے کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہوں میں ان کا حسب ذیل کلام نقل فرمایا يٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ (رکوع 8، 9، 10) ہر ایک نے اپنی قوم سے یہی کہا : اے میری قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، حاجات و مشکلات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو اس کے سوا کوئی تمہارا کارساز اور حاجت روا نہیں، نہ اس کے سوا کوئی عالم الغیب اور متصرف و مختار ہے۔
٭ چوتھا قصہ: لوط (علیہ السلام) کی قوم کا ہے۔وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ سے لے کر فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِینَ رکوع10کے آخرتک میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ قصہ دوسرے دعوی سے متعلق ہے۔ دوسری دعویٰ یہ تھا کہ اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو۔ اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانو اور اپنی طرف سے تحریمات اختراع نہ کرو قوم لوط (علیہ السلام) فسق وفجور میں اس حد تک منہمک ہوچکی تھی کہ ان کے دلوں سے گناہ اور بدکاری کی برائی اور حرام کی حرمت کا احساس ہی ختم ہوچکا تھا اور وہ محرمات الٰہیہ کے ساتھ حرام کا سا معاملہ نہیں کرتے تھے۔
٭ پانچواں قصہ: شعیب (علیہ السلام) کا ہے جو وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا سے لے کر فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ (پورا رکوع 11) میں مذکور ہے۔
یہ قصہ دوسرے اور تیسرے دونوں دعو ں سے متعلق ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کا اعلان یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہ یہ تیسرے دعوے سے متعلق ہے اور فَاَوْفُوْا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوْا النَّاسَ اَشْیَاءَ ھُم ۔۔الخ یہ دوسرے دعوے سے متعلق ہے کیونکہ قوم شعیب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے ان محرمات (ناپ تول میں کمی بیشی کر کے کسی کا حق مار لینا اور زمین میں شر و فساد کرنا وغیرہ) کو حرام نہیں جانتی تھی۔اس قصے کے بعد بطور تخویف دنیوی کلام کارخ اہل مکہ کی طرف ہوگیا ہے یعنی رکوع 12 کی ابتداء وَ مَا اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ سے رکوع 13 میں وَ نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَايَسْمَعُوْنَ تک۔
٭ چھٹا قصہ: موسیٰ (علیہ السلام) کا ہے جو ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی بِاٰيٰتِنَا (رکوع 13) تا فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا کَانُوْا یَظْلِمُوْنَ (رکوع 20) میں مذکور ہے۔
یہ قصہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ یعنی مسئلہ توحید کی تبلیغ میں مصائب و مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ان کا دلیری سے مقابلہ کرنا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو راہ حق اور توحید کی تبلیغ میں فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے پوری ہمت و جراءت سے انکا مقابلہ کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ آٹھ مسلسل واقعات کا ایک سلسلہ ہے جو انہیں اپنی زندگی میں پیش آئے جن میں سے ہر ایک ایک کٹھن اور مشکل منزل کی شان رکھتا ہے۔
ا: موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے سامنے اعلان توحید اور تبلیغ حق، فرعون کے مطالبہ پر اژدھا اور ید بیضاء کے معجزے دکھانا اور پھر فرعون کے لائے ہوئے جادوگروں سے مقابلہ کرنا۔ یہ واقعہ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُّوْسیٰ بِاٰيٰتِنَا (رکوع 13) سے لے کروَ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ (رکوع 14) میں مذکور ہے۔
ب: فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر ظلم و ستم فرعون کی طرف سے قوم موسیٰ (علیہ السلام) میں پیدا ہونے والے لڑکوں کے قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا حکم۔ اور اس ظلم و ایذاء کو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا صبر و تحمل سے برداشت کرنا۔ یہ واقعہ وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَ تَذَرُ مُوْسیٰ تا فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ (پورا رکوع 15) میں مذکور ہے۔
پ: فرعون اور اس کی قوم پر مختلف صورتوں میں اللہ کے عذاب کا نازل ہونا۔ بحالت عذاب ان کا موسیٰ (علیہ السلام) سے رفع عذاب کی دعا کے لیے درخواست کرنا اور یہ عہد کرنا کہ عذاب اٹھ جانے کے بعد وہ ایمان لے آئیں گے اور پھر رفع عذاب کے بعد عہد شکنی کرنا اور آخر کار فرعون کا لاؤ لشکر سمیت دریائے میں غرق ہونا یہ واقعہ وَ لَقَدْ اَخَذْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ باِالسِّنِیْنَ تا وَمَا کَانُوْا یَعْرِشُونَ (رکوع 16) میں بیان کیا گیا ہے۔
ٹ: بنی اسرائیل کا دریا سے گزر جانا ،دریا پار جا کر سرکشی پر اتر جانا اور بت پرستی کی اجازت مانگنا،موسی ؑ کا اللہ کے احسانات یاد دلا کر سمجھانے کی کوشش کرنا۔یہ واقعہ وَجٰوَزْنَا بِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ الْبَحْرَ تا وَفِيْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ (رکوع (16) کے آخر میں بیان کیا گیا ہے۔
ث: تورات دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر بلانا، موسیٰ (علیہ السلام) کا ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین بنانا، کوہ طور پر رویت باری تعالیٰ کی آرزو کرنا، تجلی الٰہی کی تاب نہ لا کر بیہوش ہوجانا، ان کی عدم موجودگی میں قوم کا بگڑ جانا، ہارون (علیہ السلام) کی تبلیغ توحید اور شرک سے روکنے کے باوجود گوسالہ سامری کی پرستش میں لگ جانا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا تورات لے کر قوم میں واپس آنا۔ یہ واقعہ وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَةً (ابتداء رکوع 17) تا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (رکوع 18) میں مذکور ہے۔
ج: موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر غضبناک ہونا، ہارون (علیہ السلام) کو اداء فرائض میں کوتاہی کرنے کا الزام دینا، پھر ان کا معقول عذر سن کر اپنی لغزش پر اللہ سے دعا کرنا۔ اس کے بعد گوسالہ پرستوں کے لیے تخویف دنیوی کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسیٰ اِلٰی قَوْمِهٖ (رکوع 18) تا ھُمْ لِرَبِّھِمْ یَرْھَبُوْنَ (رکوع 19) میں بیان کیا گیا ہے۔
چ: موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم کے ستر آدمیوں کو کلام الٰہی سننے کے لیے کوہ طور پر لے جانا، ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کو علانیہ دیکھنے کا مطالبہ کرنا، اس محال اور گستاخانہ مطالبہ پر ان کا ہلاک ہوجانا اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کا دوبارہ جی اٹھنا۔ یہ واقعہ وَاخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَهٗ (رکوع 19) تا یَھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ (رکوع 20) میں مذکور ہے۔ اس حصے میں ماننے والوں کے لیے بشارت کے سلسلے میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر آگیا تھا اس لیے اس کے بعد بطور جملہ معترضہ(اصل بات سے ہٹ کر) قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔۔ الخ سے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی عالمگیر رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ح: موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کیلئے پتھر سے بارہ پانی کے چشموں کا ظاہر ہونا۔ بنی اسرائیل پر بادلوں کا سایہ کرنا، ان پر من وسلوی کا اترنا اور ان کو سرزمین بیت المقدس میں اترنے کا حکم دیا جانا اور ان کا سرکشی سے حکم الہیٰ کی مخالفت کرنا۔ یہ واقعہ وَ قَطَّعْنٰھُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَةَ اَسْبَاطًا تا بِمَا کَانُوْا یَظِلِمُوْنَ (رکوع 20) میں مذکور ہے۔
قصص کے اختتام پر وَ اسْئَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْر (رکوع 21) تا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ (رکوع 21) میں تخویفات کا ذکر ہے۔ اس کے بعد “ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ سے ان برے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو نیک لوگوں کے جانشین ہوتے اور ان کا مسئلہ توحیدچھوڑ کر شرک کرنے اور شرک پھیلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور دین کو دنیائےفانی کمانے کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور پھر کہتے کیا ہیں سَیَغْفِرُ لَنَا قیامت تو آنے دو ہماری ضرور بخشش ہوجائیگی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے جھوٹے مولویوں، پیروں اورگدی نشینوں کے اس باطل دعوے کو چار وجوہوں سے رد فرمایا ہے۔
وجہ اول : اَ لَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ تا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ (رکوع 21) یعنی اگر بد عملی کے باوجود بخشش ہوسکتی ہوتی تو ہمیں کتاب کی پیروی کرنے اور عہد و پیمان لینے کی کیا ضرورت تھی۔
وجہ دوم: وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ تا لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ اگر ایسے ہی بخشش ممکن ہوتی تو اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کا عہد لینے کے لیے پہاڑ اٹھا کر ان کے سروں پر معلق نہ کیا جاتا۔
وجہ سوم: وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ تا وَ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ (رکوع 22) اگر عقیدہ حق اور اعمال صالحہ کے بغیر نجات ممکن ہوتی تو ہر فرد بشر سے توحید کا عہد نہ لیا جاتا۔
وجہ چہارم: وَ اتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ الَّذِيْ اٰتَیْنَاہ تا وَ اَنْفُسَھُمْ کَانُوْا يَظْلِمُوْنَ (رکوع 23) ۔ تم سے پہلے جنہیں ہم نے ہدایت و علم عطا کی مگر اس کے بعد نافرمانی کی وجہ سے ہم نے اسے کتے کے مثل قرارکےذلیل و خوار کردیا۔ اگر بد عملی کے باوجود بخشش ہوسکتی ہوتی تو انہیں کتے کی مثل قرار دے کرذلیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کے بعد مَنْ یَّھْدِيْ اللّٰهُ فَھُوَ الْمُھْتَدِيْ (رکوع 22) تا وَھُمْ لَايُبْصِرُونَ (رکوع 24) تمام آیتیں مذکورہ تینوں دعو وں سے متعلق ہیں۔ مَنْ يَّھْدِيْ اللّٰهُ فَھُوَ الْمُھْتَدِيْ۔۔۔ الخ یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ یعنی آپ جرات و دلیری سے مسئلہ پہنچا دیں ہدایت دینا یا نہ دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّم کَثِیْرًا تا اُوْلٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ (رکوع 24) یہ دوسرے دعوے سے متعلق ہے یعنی جو اللہ نے نازل کیا اسکی اطاعت نہیں کرو گے، رجوع الی اللہ کے لئے دل،آنکھ اور کان استعمال نہیں کرو گے تو تم اللہ نے نزدیک جانوروں سے بھی بدتر ہو۔ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحَسْنٰی تا وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ (آخر رکوع 22) ۔ یہ تیسرے دعوے سے متعلق ہے تمام اعلی صفتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے وہی غیب دان اور کارساز ہے۔ اس لیے صرف اسی کو پکارو اور اس کے سوا کسی کو مت پکارو۔ وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا (رکوع 23) تا وَ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ (رکوع 23) ۔ یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ یعنی آپ بےدھڑک مسئلہ توحید بیان کریں جو نہ مانیں اور تکذیب کریں ایسے لوگوں کو ہم ڈھیل دیدیں گے اور جب پکڑیں گے سخت پکڑیں گے۔ ھُوَ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ (رکوع 24) تا اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ دوسرے دعوے سے متعلق ہے۔ یعنی وہ اولاد حاصل کرنے کے لیے غیر اللہ کی نذریں نیازیں دیتے ہیں یا جب اللہ اولاد دے دیتا ہے تو اسکا نام غیر اللہ سے منسوب کرتے ہیں(عبدالمصطفی،پیراں دتّا،حسین نواز وغیرہ)۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ تا وَ ھُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ تیسرے دعوے سے متعلق ہے مشرکین اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ بالکل عاجز اور بےبس ہیں وہ نہ غیب دان ہیں نہ حاجت روائی کی قدرت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد “ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ۔۔ الخ میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ وَ اِخْوَانُھُمْ یَمُدُّوْنَھُمْ فِیْ الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ زجر ہے۔ اور وَ اِذَا لَمْ تَاتِھِمْ بِاٰیَةٍ۔۔۔ الخ مشرکین کاشکوی اور قُلْ اِّنَّمَا اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰی اِلَیَّ جواب شکوی ہے۔ ھٰذَا بَصائِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ تا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ قرآن کا احترام ہے کہ جب اسے پڑھا جائے تو خاموش ہو جاؤ اور توجہ سے سنو اورترغیب الی القرآن۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا۔۔ الخ یعنی ہر حال میں صرف اللہ ہی کو پکارو اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہ بناؤ۔
:مختصر ترین خلاصہ
اللہ کی توحید اور واحدانیت کا مسئلہ صرف آخری پیغمبر محمد ﷺ ہی نے نہیں اٹھایا بلکہ سابقہ انبیاء کے ذکر کے ساتھ بیان کر دیا کہ ہر بنی اس پر متفق ہے،مشرکین کے اعتراضات کا ازالہ کیا گیا،انکار کی وجہوں کو بھی بیان کرکیاگیاہے ۔اب مسئلہ توحید کھل کر واضح ہو چکی ہے لہذا اب اسکی خوب دعوت و تبلیغ کرو،مصائب کا سامنا صبر و استقامت سے کرو۔