سورۃ الاحقاف مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 46 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے65نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 35آیات ہیں جو4 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام آیت نمبر21 اِذْ اَنْذَرَ قَوْمَہ بالْاَحْقَافِ سے ماخوذ ہے۔ اس سورۃ میں اثباتِ توحید و رسالت، حقانیت قرآن اور کا بیان ہے۔اور بیان کیا گیا کہ اس سے بڑا گمراہ اور کون ہوگا جومردوں کو پکارے،اس لئے کہ مردے نہیں سنتے اور وہ قیقمت تک انکی پکار سے غافل ہیں۔پھر موسی ؑکی رسالت، بر الوالدین، اہل ایمان والدین کی نافرمانی کی انجام اور جنت و جہنم کی منظر کشی کی گئی،پھر قوم عاد کا ذکر، اور آخری رکوع میں جنات کے ایک گروہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر ایمان لانا بیان کیا گیا ہے۔
:سورة الاحقاف کا سورۃ الجاثیہ سے ربط
سورة الجاثیہ میں یہ شبہہ دور کیا گیا کہ ہمارے معبود بیشک سنتے نہیں، اگر اللہ چاہے اور ہماری پکار ان کو سنوا دے اور وہ ہمارے لیے سفارش کردیں تو فبہا ورنہ زیادہ سے زیادہ ہماری پکار لغو جائیگی۔ تو اس کا جواب دیا گیا۔ ثم جعلنک علی شریعۃ ہم نے آپ کو ایک واضح قانون دے دیا ہے کہ وہ نہیں سنتے آپ اس کا اتباع کریں اور مشرکین کی خواہشات نفسانیہ کا اتباع نہ کریں۔ اب سورة احقاف میں اس شبہہ کا جواب دیا گیا ہے کہ مانا ہمارے معبود سنتے نہیں لیکن ان کی پکار میں تاثیر اور برکت ضرور ہیں، کیونکہ جب ہم ان کو پکارتے ہیں اور ان کے نام کے وظیفے پڑھتے ہیں تو ہم مصائب سے محفوظ ہوجاتے ہیں اور ہمارے کام درست ہوجاتے ہیں۔ سورت کے آخر میں اس کا جواب دیا گیا ان کی پکار میں اگر کوئی تاثیر اور برکت ہوتی، تو ہماری گرفت سے وہ ان کو خلاصی دلا دیتے۔ فلولانصرہم الذین اتخذوا من دون اللہ قربانا الہۃ۔
تنزیل الکتاب تمہید مع ترغیب۔ یہ حکمنامہ غالب و حکیم بادشاہ کا ہے۔ اسے مانو۔ ماخلقنا السموات دلیل توحید عقلی۔ اس ساری کائنات کو ہم نے اظہار حق کے لیے پیدا کیا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ، اس کی صفات کا ارسازی اور اس کی وحدانیت کی دلیل ہے۔ والذین کفروا۔۔ الخ یہ زجر ہے، لیکن اس کے باوجود کفار اعراض کرتے ہیں۔ قل ارایتم اس میں مشرکین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ غیر اللہ کی الوہیت اور پکار کے لائق ہونے پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کریں۔ جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں کیا وہ کسی چیز کے خالق ہیں، یا کسی آسمانی کتاب یا کسی پیغمبر کے ارشاد وعمل سے ان کا دعوی ثابت ہے تو بش کریں۔ ومن اضل ممن تا بعبادتہم کافرین یہ مذکورہ مطالبے کا ثمرہ ہے، جب تمہارے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہیں تو پھر ان کو کیوں پکارتے ہو۔ جو شخص ایسے خود ساختہ معبودوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک بھی کسی کی پکار کا جواب نہ دے سکیں اور پکارنے والوں کی پکار سے بےخبر ہوں، اس سے بڑا گمراہ کون ہوسکتا ہے۔ واذا تتلی علیہم یہ پہلا شکوی ہے۔ جب ان کے سامنے ہماری واضح اور روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو جادو بتاتے ہیں۔ ام یقولون افتراہ یہ دوسرا شکوی ہے کہتے ہیں یہ قرآن عیاذاً باللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود ساختہ ہے۔ قل ان افتریتہ یہ دوسرے شکوے کا جواب ہے اور ضمنًا دلیل وحی ہے۔ میں اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا، بلکہ اللہ کی وحی سے کہہ رہا ہوں اور اگر میں نے اللہ پر افتراء کیا ہے، تو تم مجھے اللہ کی گرفت سے نہیں چھڑا سکتے۔ قل ماکنت بدعا یہ دلیل وحی پر ایک سوال وحی آئے۔ قل ارایتم ان کان یہ زجر ہے اور اس کے ضمن میں پہلی دلیل نقلی تفصیلی کا ذکر ہے۔ اے منکرین ! یہ بتاؤ اگر یہ قرآن فی الواقع اللہ کی طرف سے ہو اور علماء اہل کتاب بھی اس کی تصدیق کرچکے ہوں، لیکن پھر بھی تم ایمان نہ لاؤ تو کیا تم سب سے بڑے گمراہ نہیں ہوگے ؟ وقال الذین کفروا یہ شکوی ہے۔ مشرکین، ایمان والوں کے بارے میں کہتے ہیں اگر توحید اور قرآن کوئی اچھی چیز ہوتی تو وہ اسے قبول کرنے میں ہم پر سبقت نہ لیجاتے کیونکہ ہم ہمیشہ نیک کاموں میں آگے آگے ہوتے ہیں یہ ان کا زعم باطل تھا۔ حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول حق کی توفیق ہی نہیں دی اس لیے وہ اس کو افترا بتاتے ہیں۔ ومن قبلہ کتاب موسیٰ امام ورحمۃ یہ پہلی تفصیلی نقلی دلیل ہے از تورات۔ اور اس سے پہلے تورات میں بھی یہی مضمون بیان کیا جاچکا ہے۔ اسلیے قرآن نے اس کی تصدیق کی ہے کوئی نئی بات پیش نہیں کی۔ ان الذین قالوا۔ تا۔ کانوا یعملون (رکوع 2) ۔ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور پھر تادم اسی پر قائم رہے انہیں آخرت میں کوئی خوف و غم نہیں ہوگا اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔
ووصینا الانسان بوالدیہ۔ تا۔ الذی کانوا یوعدون اگر کوئی شخص چالیس برس کی عمر میں کفر و شرک سے توبہ کرلے، تو اس کے بھی گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ والذی قال لوالدیہ۔ تا۔ انہم کانوا خاسرین یہ زجر ہے مع تخویف اخروی۔ لیکن جو لوگ اپنےاہل ایمان والدین کی بات نہیں مانتے، شرک اور انکار آخرت پر اڑے رہتے ہیں ان کے لیے آخرت میں دائمی خسارہ ہے۔ ویوم یعرض الذین کفروا یہ بھی تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے مشرکین و کفار سے کہا جائے گا تم دنیا میں عیش و عشرت کے مزے اڑا چکے اور تمام لذات سے دنیا میں متمتع ہوچکے ہو۔ اس لیے آج تمہیں کبر و غرور اور عناد و استکبار کی سزا میں رسوا کن عذاب دیا جائے گا ۔ واذکر اخا عاد۔ تا۔ ماکانوا بہ یستہزءون (رکوع 3) ۔ یہ دوسری تفصیلی نقلی دلیل ہے از ہود (علیہ السلام) مع تخویف دنیوی۔ قوم عاد کے پاس ہود (علیہ السلام) آئے، انہیں اللہ کا پیغام پہنچایا، لیکن وہ انکار و استکبار پر قائم رہے تو اللہ نے ان کو عذاب سے ہلاک کردیا۔ لیکن ان کے خود ساختہ معبودوں نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ ولقد اھلکنا ماحولکم تا وما کانوا یفترون (رکوع 4) ۔ یہ سورت کا مرکزی مضمون ہے۔ ہم نے مکہ کے گرد و نواح میں بہت سی بستیوں کو ہلاک کیا مثلاً قوم عاد، قوم ثمود اور اصحاب حجر کی بستیاں، جب ان قوموں پر ہمارا عذاب آیا تو جن معبودوں کو انہوں نے کارساز اور متصرف و مختار سمجھ رکھا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچا اور کسی نے بھی ان کواللہ کے عذاب سے نہ چھڑیا۔ واذ صرفنا الیک۔ تا۔ اولئک فی ضلل مبین ۔ یہ تیسری تفصیلی نقلی دلیل ہے از جنات۔ جنات کو دیکھو کہ وہ بھی کلام الٰہی سن کر نہ صرف خود اس پر ایمان لے آئے بلکہ واپس جا کر اپنی قوم کو بھی دعوت دینے لگے کہ تم بھی اللہ کی اس آخری کتاب پر ایمان لے آؤ۔ اولم یروا ان اللہ یہ حیات بعد الممات کے اثبات پر عقلی دلیل ہے۔ جس ذات پاک نے زمین و آسمان ایسی بڑی چیزوں کو پیدا فرما لیا ہے کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں، وہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ویوم یعرض یہ تخویف اخروی ہے۔
فاصبر کما صبر اولوا العزم یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ ہے۔ آپ انبیاء اولی العزم (علیہم السلام) کی طرح صبر و تحمل سے کام لیں اور معاندین کے لیے جلدی عذاب نہ مانگیں۔ ہمارا عذاب ضرور آئے گا جب وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے تو انہیں اپنی زندگی کی ساری خوشیاں اور عشرتیں بھول جائیں گی۔
مختصر ترین خلاصہ
نزول قرآن کا یہی مقصد ہے کہ لوگ رجوع کریں یہاں فرمایا اگر کوئی شخص چالیس برس کی عمر میں بھی کفر و شرک سے توبہ کرلے، تو اس کے بھی گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ورنہ دیکھ لو جب ہمارا عذاب آئے کٓگا توع بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔دعوائے سورت پر چار تفصیلی دلائل، ایک دلیل عقلی اور ایک دلیل وحی، ابتدا میں تمہید مع ترغیب کے بعد مشرکین سے دلیل عقل و نقل کا مطالبہ اور آخر میں سورت کے مرکزی مضمون کا ذکر، زجر و تخویف، شکوی، تخویف وتبشیر اور آخر میں ایک دلیل عقلی برائے اثبات قیامت۔
Download PDF