سورۃ آل عمران مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 3 تیسرے نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 89 نواسی نمبر پر ہے۔ اس سورت کے چوتھے رکوع میں آل عمران کا ذکر ہے۔ اس لیے اسی مناسبت سے اس کا نام سورة آل عمران رکھا گیا ہے۔ اس کی تمام آیتیں مختلف اوقات میں ہجرت کے بعد اتری ہیں اور اس کا ابتدائی حصہ یعنی 83 آیات تک عیسائیوں کے وفد نجران کے بارے میں نازل ہوا ہے جو9 ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا عیسائیوں نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے عیسائی عقائد اور اسلام کے بارے میں مذاکرہ و مباحثہ کیا جس کو رد کرتے ہوئے انہیں دعوت مباہلہ بھی دی گئی،جسکا ذکر آیت نمبر 61 میں کیا گیا۔اس سورۃ میں جنگ بدر و جنگ احد کے حالات و واقعات کا جامع و مؤثر تبصرہ ہے۔قرآن کے علوم میں سے ایک علم مخاصمہ ہے۔ یعنی وہ علم جس کے ذریعہ باطل فرقوں کے عقائد و نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ نزول قرآن کے وقت اکثر تین فرقے قرآن کے مخاطب رہے جو اہل ایمان کے حریف تھے مشرکین(جو کسی آسمانی کتاب کے قائل نہیں تھے)، یہود (جو تورات کو اللہ کی کتاب مانتے تھے)اور نصاریٰ(جو انجیل کو اللہ کی کتاب مانتے تھے) ، سورة بقرہ میں مشرکین کے علاوہ کلام کا رخ یہود کی طرف کیا گیا تھا،انکے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر ذکر ہوا تھا جب کہ اس سورة آل عمران میں مشرکوں کے علاوہ نصاریٰ کے عقائد باطلہ کا تفصیلی طور پر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
:فضائل سورة آل عمران
رسول اللہ ﷺنے فرمایا : الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورة البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
(صحیح مسلم:جلد اول:فضائل قرآن کا بیان :حدیث نمبر 1868)
:سورة آل عمران کا سورة بقرہ سے ربط
سورة فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ سے اقرار لیا کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کریں۔ صرف اسی کو پکاریں اور صرف اسی ہی سے حاجات ومشکلات میں مافوق الاسباب مدد مانگیں۔ سورة بقرہ میں گائے کی عبادت اور تعظیم سے نفرت دلائی اور سورة آل عمران میں تلقین فرمائی کہ اللہ کی عبادت اور پکار میں اللہ کے نیک بندوں کو شریک نہ کریں جس طرح نصاریٰ نے آل عمران کی عبادت کی، عیسیٰ ؑ اور مریم ؑ کو الہ بنایا۔
سورة بقرہ کے آخر میں فَانْصُرْنَا عَلیَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ سے مسلمانوں کو کافروں کے مقابلہ میں اللہ سے مدد اور نصرت طلب کرنے کی تعلیم دی گئی۔ سورة آل عمران میں بتایا وہ کونسے کفار ہیں جن کے خلاف اللہ سے مدد مانگنے کا حکم ہوا ہے۔ یعنی اس سے مراد مشرکین ہیں جو اللہ کے بندوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں اللہ کے بندوں کو مالک ومختار سمجھ کر مصیبتوں میں پکارتے ہیں جیسا کہ نصاریٰ جو عیسیٰ اور مریم (علیہما السلام) کو معبود سمجھتے اور ان کو مافوق الاسباب پکارتے ہیں۔
اس سورت کے خلاصہ مضامین کی دو پہلو ہیں
پہلا پہلو: اس سورت میں مشرکین نصاریٰ کے شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ انہیں کچھ شبہات توحید کے بارے میں تھے اور کچھ رسالت کے بارے میں توحید کے متعلق ان کے دلوں میں پانچ شبہات تھے۔
شبہات متعلقہ توحید
پہلا شبہ: عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں روح اللہ، کلمۃ اللہ کےالفاظ وارد ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی تعلق ہے اور وہ اللہ کے نائب ہیں۔ اللہ نے ان کو تصرف کا اختیار دے رکھا ہے۔ اس لیے ان کو پکارنا چاہیے۔
دوسرا شبہ: عیسیٰ (علیہ السلام) مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو ٹھیک کردیتے تھے۔ مردوں کو زندہ کردیتے۔ مٹی کے بےجان پتلے میں پھونک مار کر اسے جاندار بنا دیتے اور گھر میں رکھی ہوئی چیزیں بتا دیتے تھے تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ متصرف ومختار، کارساز اور غیب دان تھے۔
تیسرا شبہ: ہمیں اپنے بڑوں کی کچھ ایسی عبارتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عبادت اور پکار کا حکم دیا تھا اور اسی وجہ سے ہمارے اکابر ان کو پکارتے تھے۔
چوتھا شبہ: مریم کے پاس ہر وقت بےموسم کے پھل موجود رہتے تھے حالانکہ ان کو کوئی لا کر نہیں دیتا تھا۔ تو اس سے معلوم ہوا وہ خود صاحب اختیار و تصرف تھیں اور جب چاہتیں بےموسم کے میوے حاصل کرلیتی تھیں اس لیے حاجتوں اور مشکلوں میں انہیں مدد کے لیے پکارنا چاہیے۔
پانچواں شبہ: زکریا (علیہ السلام) کے گھر میں ان کے انتہائی بڑھاپے کے زمانے میں بیٹا پیدا ہوا جب کہ ان کی بیوی صاحبہ بھی ولادت کے قابل نہ تھیں تو اس سے معلوم ہوا کہ ان کو اختیار اور تصرف حاصل تھا اور وہ کارساز تھے جبھی تو بےموسم بیٹا پیدا کرلیا۔
شبہات کے جوابات
پہلے شبہ کا جواب: ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌا۔۔الخ میں اس شبہ کا جواب دیا ہے کہ یہ الفاظ متشابہات میں سے ہے اور ان کا حکم یہ ہے کہ ان کی تاویل محکمات کے مطابق کی جائے گی۔ اگر ان کی تاویل سمجھ میں نہ آئے تو ان میں زیادہ بحث وکرید کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان پر اس قدر اجمالی ایمان کافی ہے کہ ان سے اللہ کی جو مراد ہے وہ برحق ہے۔ متشابہات سے استدلال کرنا جائز نہیں۔ جس طرح بنی اسرائیل سامری کے بچھڑے کی آواز سے دھوکہ کھا کر اسے الہ سمجھنے لگے تھے۔ مگر اللہ نے ان کو اسمیں معذور قرار نہیں دیا تھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔ اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قَوْلاً وَّلَا یَمْلِکُ لَھُمْ ضَراًّ وَّلَا نَفْعاً کیا نہیں دیکھتے یہ لوگ یہ بھی کہ نہیں جواب دیتا وہ ان کو کسی بات کا اور نہیں اختیار رکھتا ان کو نقصان پہنچانے اور نہ نفع پہنچانے کا۔(طہ -89)
دوسرے شبہ کا جواب: رکوع 5 میں اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَکْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطَّیْرِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہٖ فَیَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِ اللہِ ۔۔الخ سے اس شبہ کا جواب دیا کہ مٹی سے پرندہ پیدا کرنا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اور بعض غائب چیزوں کی اطلاع دے دینا یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے معجزہ کے طور پر تھا۔ اس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی قدرت اور طاقت کو کوئی دخل نہیں تھا کیونکہ معجزات محض اللہ کے حکم سے اور اس کی قدرت سے انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتے ہیں ان کا ظاہر کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہاں پہلے چار کاموں کے ساتھ باذن اللہ کی قید لگائی اور پانچویں کے بعد فرمایا۔ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ مطلب یہ کہ سارے کام محض اللہ کے حکم سے بطور معجزہ ظاہرہوئے ان میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی قدرت کو دخل نہیں تھا۔
اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے خود اپنی قوم سے فرمایا۔ اِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ (رکوع 5) یعنی میرا اور تمہارا رب اور کارساز اللہ ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی ہی کو پکارو۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنی قوم سے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ میں تمہارا رب اور کارساز ہوں لہٰذا جو شخص خود اللہ کو اپنا کارساز مانتا ہو وہ اوروں کا کارساز کس طرح بن سکتا ہے۔ اس کے سوا عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب محسوس کیا کہ یہود ان کا دین قبول نہیں کرینگے۔ بلکہ وہ شرارت اور دشنی پر آمادہ ہوچکے ہیں تو اعلان فرمایا کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ یعنی اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے اگر وہ خود کارساز اور مالک ومختار ہوتے تو اس طرح اپنے عجز کا اظہار نہ فرماتے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے فرمایا۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ (رکوع 6) تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ ان کے شر سے محفوظ رہنا عیسیٰ (علیہ السلام) کے اختیار اور قبضہ میں نہ تھا۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ مالک ومختار اور متصرف و کارساز نہیں تھے اور نہ ہی ان کو پکارنا جائز ہے۔
تیسرے شبہ کا جواب: مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللہُ الْکِتٰبَ تا اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ (رکوع 8) اس میں تیسرے شبہ کا جواب دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان اور بشر کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرما کر اسے کتاب و حکمت عطا کرتا اور اسے دعوت توحید کو عام کرنے کا حکم دیتا ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ وہ پیغمبر اپنی رسالت ونبوت کے تقاضوں اور اللہ کے احکام کے خلاف توحید کی اشاعت و تدریس کی بجائے شرک کی تلقین وتبلیغ فرمانے لگے اور اللہ کی عبادت اور پکار کی بجائے اپنی عبادت اور پکار کی تعلیم دینے لگے اس لیے جو شرکیہ کلمات اللہ کے سچے رسول عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ سب غلط ہیں اور عیسائیوں کے گزشتہ علماء اور ان کے بڑے بڑوں کا افتراء ہیں۔خودمسیح (علیہ السلام) ان سے بری ہیں۔
چوتھے شبہ کا جواب: قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّیٰ لَکِ ھٰذَا قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللہِ (رکوع 4) مریم ؑکے پاس بےموسم کےپھلوں کا موجود ہونا ان کے قبضہ واختیار میں نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے مریمؑ کے پاس بھیج دیتا تھا،اس میں خود ان کو کوئی اختیار اور تصرف حاصل نہیں تھا ۔
پانچویں شبہ کا جواب: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ تا وَسَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ (رکوع 4) زکریا (علیہ السلام) نے تو بیٹے کیلئے اللہ سے دعا اور التجا کی تھی اور اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو بیٹا عطا کیا اس میں ان کو کوئی اختیار اور تصرف حاصل نہیں تھا۔
ان پانچوں شبہات کے دو مشترک جواب بھی دئیے ہیں۔
اول: اِنَّ اللہَ اصْطَفیٰ تا ذُرِّیَّةً بَعْضُھَا مِنْ بَعْضٍ (رکوع 4) یہ تمام ہستیاں بلاشبہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ لیکن معبود بننے کے لائق نہیں تھے کیونکہ ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور مخلوق تھے لہٰذا جو خود اپنے وجود میں دوسروں کا محتاج ہو دوسرے کا حاجت روا اور کارساز کس طرح بن سکتا ہے۔
دوم: وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (رکوع 4) سمیع لکل شئی (سب کچھ سننے والا) اور علیم بکل شئی (سب کچھ جاننے والا) صرف اللہ ہی ہے انبیاء و اولیاء ان صٖفات کے حامل نہیں ہیں لہٰذا وہ الہ اور معبود بننے کے لائق بھی نہیں ہیں کیونکہ معبود کے لیے ان دونوں صفتوں کا ہونا ضروری ہے۔
نصاریٰ زیادہ زور عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت پر دیتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی الوہیت کی نفی پر زیادہ دلائل قائم کئے۔
شبہات متعلقہ رسالت
مشرکین عرب کی طرح مشرکین نصاریٰ کو اصل ضد تو مسئلہ توحید سے تھی اس لیے اس کے انکار کیلئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر طعن کرتے اور اس میں شبہات پیدا کرتے تھے چنانچہ نصاری اور مشرکین نے نبی ﷺکی رسالت میں تین شبہات کا اظہار کیا۔
پہلا شبہ: پہلے انبیاٗ (علیہم السلام) پر اونٹ کا گوشت حرام تھا۔ مگر اس نبی نے اسے حلال کردیا ہے یہ تو پہلے نبیوں کی مخالفت کرتا ہے اس لیے سچا نبی نہیں ہے۔
دوسرا شبہ: قدیم سے بیت المقدس تمام انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ چلا آرہا ہے مگر اس نبی نے تمام انبیاء کا قبلہ چھوڑ کر ایک نیا قبلہ بنا لیا ہے۔
تیسرا شبہ: جنگ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں شکست ہوئی اور انہیں شدید جانی اور مالی نقصان ہو اگر یہ پیغمبر ہوتا اور یہ مسلمان سچے دین پر ہوتے تو کیوں شکست کھاتے اور مارے جاتے۔
شبہات کے جوابات
پہلے شبہ کا جواب: کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلَّا لِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ تا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکیْنَ (رکوع 10) نصاریٰ کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ پہلے انبیاء پر اونٹ کا گوشت حرام تھا۔ بنی اسرائیل کے لیے کھانے کی سب چیزیں جن میں اونٹ کا گوشت بھی شامل ہے حلال تھیں۔
دوسرے شبہ کا جواب: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ تافَاِنَّ اللہَ َغَنِیٌّ عَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ (رکوع 10) دنیا میں سب سے پہلی عبادت گاہ خانہ کعبہ ہے اور آدم (علیہ السلام) سے اسماعیل (علیہ السلام) تک تمام انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ رہا ہے۔
تیسرے شبہ کا جواب: وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ جنگ احد میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حسب وعدہ فتح دی جیسا کہ فرمایا وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاذْنِہٖ الایۃ (رکوع 6) لیکن ان ایک غلطی سرزد ہوگئی جس کی وجہ سے فتح شکست میں تبدیل کردی گئی۔ اس لیے یہ وقتی شکست محض ابتلاء اور امتحان کے لیے تھی ورنہ جنگ بدر میں باوجود اس کے کہ مسلمان کافروں کی نسبت تعداد میں بہت تھوڑے تھے اللہ نے ان کی مدد فرمائی اور ان کو کافروں پر فتح دی۔
خلاصہ مضامین کا دوسرا پہلو
سورة آل عمران میں چار مضامین بیان کیے گئے ہیں (1) توحید (2) رسالت (3) جہاد (4) انفاق۔ ابتداء سورت سے اَیَامُرُ کُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ (رکوع 8) تک توحید کا بیان ہے اور وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ (رکوع 9) سے فَقَدْ ھُدِیَ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (رکوع 10) تک رسالت کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تَّقُوْا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ (رکوع 11) سے وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (رکوع 19) تک جہاد فی سبیل اللہ کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ شروع میں ترغیب الی الجہاد ہے اور جہاد کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا بھی ذکر ہے۔
چاروں مضامین کا اعادہ
پھر وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ میں مضمون توحید کا بالاجمال اعادہ کیا گیا ہے۔ اور رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیاً یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ (رکوع 20) میں مضمون رسالت اور فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا۔۔ الخ میں جہاد اور انفاق کا اجمالی ذکر دہرانے کے بعد دین کے زریعےمال کمانے پر پچھلوں کا حوالہ دیتے ہوکہ وہ بھی دین کا زریعہ معاش کمایاکرتے تھے ،تو وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ ۔۔الخ کہہ کر رد کردیا کہ سنو ! اور بیشک اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا تمہاری طرف اور اس پر جو نازل کیا گیا ان کی طرف، جھکے رہتے ہیں اللہ کے حضور اور نہیں بیچتے اللہ کی آیات کو حقیر معاوضے پریہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے لیے ہے ان کا اجر خاص ان کے رب کے پاس، بیشک اللہ بہت جلد حساب چکانے والا ہے ۔
توحید
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اس سورت میں نصاریٰ کے شرکیہ عقائد کی تردید کے ساتھ ساتھ چھ بار توحید کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔
پہلی بار: پہلے سورت کی ابتداء میں اللہ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سے دعوی توحید پیش کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ یعنی پکارے جانے کے لائق نہیں پھر اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ سے ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم (رکوع 1) تک جو آیات توحید ہیں۔ ان میں توحید کی تین دلیلیں بیان کی گئی ہیں۔
دلیل وحی، نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ سے۔
دلیل نقلی وَاَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیلَ مِنْ قَبْلُ ھُدیً لِلنَّاسِ سے اور۔
دلیل عقلی اِنّ اللہَ لَایَخْفیٰ عَلَیْہِ شَیْ ءٌ فِیْ الْاَرْضِ وَلَافِی السَّمَاءِ۔۔ الخ میں میں بیان کی گئی ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ میں تینوں دلیلوں کا نتیجہ اور ثمرہ بیان کیا گیا ہے۔
دوسری بار: پھر شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ تا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (رکوع 2) میں مضمون توحید بیان کیا گیا ہے۔ اس جگہ توحید پر تین دلائل نقلیہ پیش کیے گئے ہیں۔
دلیل نقلی ، کتب سابقہ سے شَھِدَ اللہُ سے اسی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اللہ نے پہلی کتابوں میں بھی گواہی دی ہے (بیان کیا ہے) کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔
دلیل نقلی فرشتوں سے اور دلیل نقلی انبیاء سابقین اور علماء ربانیین سے وَالْمَلٰئِکَۃُ وَاُولُوالْعِلْمِ میں اسی کا بیان ہے۔
تیسری بار: تیسری بارقل اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ سے تَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (رکوع 3) میں توحید کا مضمون بیان کیا گیا ہے یہ توحید کی پہی تمام دلیلوں کا ثمرہ ہے یعنی جب دلیل وحی، دلیل نقل اور دلیل عقل سے ثابت ہوگیا کہ اللہ کے سوا عبادت اور پکار کے لائق اور کوئی نہیں ۔تو حاجات و مشکلات میں اسی کو پکارو ۔
چوتھی بار: اِنَّ اللہَ اصطَفیٰ اٰدَمَ سے وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیمٌ (رکوع 4) تک میں چوتھی بار توحید کا مضمون بیان کیا گیا ہے یعنی اگرچہ انبیاء (علیہم السلام) اور اللہ کے برگزیدہ اور پسندیدہ بندے ہیں لیکن معبود یا حاجت روا بننے کے لائق نہیں ہیں کیونکہ ذُرِّیَّةً بَعْضُھَا مِنْ بَعْضٍ وہ مخلوق ہیں اور ایک دوسرے کی اولاد ہیں۔ اس لیے وہ خود محتاج ہیں اور عبادت اور پکارے کے لائق نہیں۔ نیز سمیع لکل شی ٗ (سب کچھ سننے والا) اور علیم بکل شیٗ (سب کچھ جاننے والا) بھی اللہ ہی ہے انبیاء و اولیاء نہیں ہیں۔
پانچویں بار: وَلِلّٰہِ مَافِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَافِیْ الْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُورُ (رکوع 11) میں پانچویں بار توحید کا ذکر آیا ہے یعنی زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور تمام اختیارات اور تصرفات اللہ کے قبضہ میں ہیں نہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مائی مریم (علیہا السلام) کے قبضہ میں۔ لہٰذا نہ ان کی عبادت کرو اور نہ ان کو پکارو۔
چھٹی بار: پھر آخر میں وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ والْاَرْضِ وَاللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ (رکوع 19) میں مضمون توحید کا ذکر کیا گیا ہے۔
پہلی دفعہ مضمون توحید کا ذکر کر کے دو شبہوں کا جواب دیا گیا ہے۔ پہلا شبہ یہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کلمۃ اللہ، روح اللہ جیسے موہم شرک کلمات ملتے ہیں۔ ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ الخ سے اس کا جواب دیا گیا کہ یہ متشابہات میں سے ہیں ان پر اجمالی ایمان لانا کافی ہے ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے اور ان کے معانی کے درپے ہونا جائز نہیں۔ اس کے ضمن میں دنیوی اور اخروی تخویف بھی ہے۔ دوسرا شبہ یہ تھا کہ ہمارے کے پاس مال بہت ہے اگر کافر اللہ کو ناپسند ہوتے تو اس قدر دولت کیوں دیتا۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ۔۔۔ الخ (رکوع 3) سے اس کا جواب دیا کہ یہ محض چند روزہ ٹھاٹھ اور عارضی زیب وزینت ہے۔ ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تو اللہ کے یہاں ہیں اور صرف انہیں لوگوں کو ملیں گی۔ جنہوں نے ایمان کے بعد شرک نہ کیا اور اعمال صالحہ بجا لائے۔ اس کے ضمن میں دنیا دار عالموں اور پیروں کے مسئلہ توحید کو نہ ماننے کی وجہ بھی فرمادی کہ وہ چند روزہ دولت سے فریب خوردہ ہوگئے ہیں اور توحید کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ دوسری بار ذکر توحید کے بعد فرمایا۔ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ وَمَاخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْالْکِتٰبَ۔۔ الخ۔ یعنی جب دلائل نقلیہ سے ثابت ہوگیا کہ مسئلہ توحید تمام پہلی کتابوں میں موجود تھا۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) اور سچے عالموں نے بھی مسئلہ توحید بیان کیا اور اللہ کو بھی یہی توحید والا دین اس کو پسند ہے پھر اس سے اہل کتاب کے عالموں نے محض ضد اور عناد کی وجہ سے اختلاف کیا اور اس کے خلاف لکھ گئے اور اب پچھلے ان کی عبارتیں دیکھ دیکھ کر دھوکے میں مبتلا ہورہے ہیں۔ تیسری بار ذکر توحید کے بعد فرمایا کہ جب مسئلہ توحید کی مخالفت صرف ضدی اور اللہ کے باغی عالموں ہی نے کی ہے تو ان سے پورا پورا بائیکاٹ کیا جائے اور اہل ایمان ایسے فرقہ پرستوں اور گمراہوں سے دوستی نہ کریں۔ فرمایا لَا یَتِّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔۔۔الخ (رکوع 3) چوتھی بار ذکر توحید کے بعد چند شبہات متعلقہ توحید کا ازالہ فرما کر واضح کیا کہ عمران کی بیوی، مریم ، عیسیٰ اور زکریا (علیہم السلام) عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔ شبہات کا ازالہ کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر اب بھی نہیں مانتے تو انہیں مباہلہ کا چیلنج دیجئے۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَاجَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَاَبْنَاءَکُمْ الایۃ (رکوع 6) اور اگر وہ مباہلہ کے لیے بھی میدان میں نہ آئیں تو آپ ایک بار پھر توحید کا اعلان کر دیں وَمَامِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ ۔ اس کے بعد قُلْ یَااَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلیٰ کَلِمةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلّا اللہَ وَلَا نُشْرِکَ بِهٖ شَیْئاً ۔۔۔۔الخ (رکوع 7) سے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دی۔ پھر اہل کتاب کے پانچ شکوے ہیں۔
اہل کتاب کے پانچ شکوے
پہلا شکوہ: قُلْ یَااَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تُحَاجُّوْنَ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ تا وَمَایُضِلُّوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ (رکوع 7) ۔
دوسرا شکوہ: یَااَھْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰ یٰتِ اللہِ تا وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (رکوع 7) ۔
تیسرا شکوہ: وَقَالَتْ طَّآ ئِفَةٌ مِّن اَھْلِ الْکِتَابِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْ تا وَاللہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْم (رکوع 8)۔
چوتھا شکوہ: وَمَنْ اِنْ تَامَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّهٖ اِلَیْکَ تا وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (رکوع 8)۔
پانچواں شکوہ: وَاِنَّ مِنْھُمْ لَفَرِیْقاً یَّلْوُوْنَ اَلْسِنَتَھُمْ بِالْکِتٰبِ تا وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (رکوع 8)۔
اس کے بعد مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَهُ اللہُ الْکِتٰبَ تا اَیَامُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (رکوع 8) میں توحید سے متعلق تیسرے شبہ کا جواب دیا ہے شبہ یہ تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے کچھ ایسے کلمات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو پکارنا چاہیے۔ جواب دیا کہ یہ ان پر بہتان ہے۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اللہ کا پیغمبر شرک کی تعلیم دے۔
رسالت
وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّیْنَ ۔۔۔الخ (رکوع 9) سے رسالت کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ وہ رسول آگیا جو پہلے انبیاء کی دعوت توحید کی تصدیق کرتا ہے اور جس پر ایمان لانے کی تمام انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی امتوں کو تلقین کی تھی۔ لہٰذا اس پر ایمان لاؤ اور اس کی دعوت یعنی توحید کو مانو۔ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتیّٰ تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبّوُنَ (رکوع 10) ایمان کے درجہ کمال کو تم اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک تم مسئلہ توحید کو نہ مان لو اور اس کی خاطر اپنی محبوب ترین دنیوی ریاست، شان و شوکت اور گدیاں نہ چھوڑ دو ۔ اس کے بعد کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلّاً لِّبَنِیْ اِسْرَا ئِیْلَ سے وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ تک میں رسالت سے متعلق پہلے شبہ کا جواب ہے۔ اور اِنَّ اَوَّ لَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ سے دوسرے شبہ کا جواب دیا گیا ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ
یَااَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا اتَّقُواللہَ حَقَّ تُقٰتِهٖ (رکوع 11) سے آخرتک جہاد فی سبیل اللہ اور اس کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا مضمون مذکور ہے ابتدا میں جہاد کی ترغیب ہے اس کے بعد چار دفعہ جہاد کا اور چار دفعہ انفاق کا ذکر ہے۔ رکوع 11 کی مذکورہ بالا آیت سے وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (رکوع 13) مضمون جہاد ہے اور یَآ اَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُواْ لَا تَاکُلُوْا الرِّبوایٰ (رکوع 14 کی ابتداء) سے وَھُدیً وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ (رکوع 14) تک مضمون انفاق کا ذکر ہے کہ اپنا روپیہ سود میں نہ لگاؤ بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ پھر وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ (رکوع 14) سے وَاِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (رکوع 18) تک جہاد کا ذکر ہے اور اس کے بعد وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللہُ سے جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ (رکوع 18) تک انفاق کا مضمون مذکور ہے۔ اس کے بعد کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ الایۃ اور لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ واَنْفُسِکُمْ الایہ (رکوع 18) میں جہاد اور انفاق کی طرف اشارہ ہے۔ مضمون جہاد کے سلسلے میں مشرکین اور نصاریٰ کے ایک شبہ کا جواب دیا ہے۔ شبہ یہ تھا کہ اگر یہ پیغمبر سچا ہوتا اور مسلمانوں کا دین اللہ کا پسندیدہ دین ہوتا تو جنگ احد میں ان کو شکست نہ ہوتی اس شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے تدریجاً دیا ہے۔ وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ ۔۔الخ (رکوع 13) میں فرمایا کہ اللہ نے کب مسلمانوں کو چھوڑا ہے جنگ احد میں دو قبیلے ہمت ہارنے کا ارادہ کر رہے تھے تو اللہ نے ان کی امداد فرمائی اور ان کے دلوں سے وہ غلط ارادہ محو ہوگیا اور ان کے دلوں میں اخلاص اور ہمت پیدا ہوگئی اور پھر جنگ بدر کا واقعہ دیکھ لو اس میں قلت عدد اور قلت سامان کے باوجود اللہ نے مسلمانوں کی مدد کی اور ان کو فتح دی۔
پھر فرمایا اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ (رکوع 14) جنگ احد میں اگر مسلمانوں کا جانی اور مالی نقصان ہوا ہے تو یہ کونسی بڑی بات ہے۔ کافر بھی تو جنگ بدر میں اتنا بڑا نقصان اٹھا چکے ہیں اس کے بعد اصل جواب دیا کہ وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَهٗ اِذْ تَحُسُّوْنَکُمْ بِاِذْنِهٖ (رکوع 16) یعنی اللہ نے تو مسلمانوں کو فتحیاب کرنے کا وعدہ پورا فرمادیا تھا۔ چنانچہ مسلمان کافروں کو کاٹ کاٹ کر پھینک رہے تھے۔ حَتّٰی اِذَافَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں سے ایک غلطی ہوگئی کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کے بغیر مورچہ چھوڑ دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فتح شکست میں بدل گئی۔ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْھُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ اور یہ محض مسلمانوں کے امتحان اور ابتلاء کے لیے تھا، نہ اس لیے کہ ان کا دین سچا نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ غلطی معاف کر کے وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ کا سرٹییفیکیٹ عطا فرما دیا۔
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتاً (الخ رکوع 17) ان لوگوں کے فضائل اور درجات بیان فرمائے جو اس جہاد میں شہید ہوئے اور اس سے پہلے اور اس کے بعد ان منافقین کو زجر کیا گیا ہے جو مجاہدین کو طعن دیتے تھے۔ آخر میں لَقَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللہَ فَقِیْرٌ الخ اور وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْالْکِتٰبَ۔۔ الخ (رکوع 19) میں مشرکین اہل کتاب پر زجر ہے جو اللہ پر افترا کرتے تھے اور جن سے مسئلہ توحید بیان کرنے کا عہد لیا گیا تھا مگر انہوں نے دولت دنیا کی خاطر اللہ کے عہد کو پس پشت ڈال دیا اور حق کو چھپایا۔ مضمون جہاد کی ابتداء میں لَیْسُوْا سَوَاءً ۔۔الخ (رکوع 12) اور سورت کے اختتام پر وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللہِ ۔۔۔الخ (رکوع 20) میں فرمایا کہ اہل کتاب سب یکساں نہیں ہیں۔ بلکہ ان میں اچھے لوگ بھی ہیں جو اپنی کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور خاتم النبیین محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لا چکے ہیں۔انکی نمایاں خوبی کا ذکر کیا وہ دینی امور پر اجر نہیں لیتے ،بلکہ اسکو آخرت پر چھوڑتے ہیں ان کو آخرت میں نجات کی خوشخبری بھی دی ہے۔
مختصرترین خلاصہ
آخری پیغمبر آچکا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا لایا ہوا پیغام توحید مان لو اور عیسیٰ اور مریم (علیہما السلام) کی عبادت اور پکار چھوڑ دو ۔ آخری پیغمبر کے ساتھ مل کر الہ واحد کی خاطر مشرکین سے جہاد کرو