رشوت کے بارے میں قرآن مجید میں واضح طور پر سخت ممانعت کی گئی ہے، کیونکہ یہ ظلم، ناانصافی، اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ رشوت کا تعلق حرام مال سے ہے جو انصاف کو بدلنے اور حقوق کو غصب کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فرمایا
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ اور (نہ ہی) اِس (مال) کو (بطورِ رشوت) حکام تک پہنچاؤ کہ تم جانتے بُوجھتےلوگوں کے مال کا کچھ حصّہ گناہ کےساتھ کھاؤ۔
(البقرہ-188)
اس آیت میں واضح طور پر بتایا گیا کہ کسی کا حق رشوت کے ذریعے چھین لینا گناہ ہے، خواہ وہ دینی طور پر ہو یا قانونی۔ یہ عمل معاشرے میں ناانصافی، بداعتمادی اور ظلم کو فروغ دیتا ہے، اور باطل کو طاقتور بنا دیتا ہے۔
سابقہ امتوں میں بنی اسرائیل نے اسی روش کو اختیار کیا انہوں نے اللہ کے نازل کردہ احکام کو پسِ پشت ڈال کر حاکموں اور علماء کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کیے۔ یہی وجہ تھی کہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔
اسی تسلسل میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“اللہ نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت کی ہے۔”
(ابو داؤد: 3580)
یہ حدیث رشوت کو صرف گناہ نہیں بلکہ قابلِ لعنت عمل قرار دیتی ہے، یعنی ایسا عمل جس سے بندہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے۔
اس لیے ایک سچے مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشرے میں عدل کا علَمبردار بنے، نہ خود رشوت دے، نہ لے، نہ اس کا راستہ ہموار کرے۔ اگر کبھی یہ گناہ سرزد ہو چکا ہو تو وہ سچے دل سے توبہ کرے، حق ادا کرے، اور آئندہ حلال طریقے سے اپنے معاملات چلائے۔ یہی توحید، تقویٰ اور نجات کی راہ ہے۔