|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حج

اسلام کا پانچواں اور آخری رکن حج ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کردہ ایک عظیم عبادت ہے۔ یہ عبادت ان افراد پر فرض ہے جو استطاعت رکھتے ہوں، یعنی بدنی، مالی، اور راستے کی سہولت میسر ہو۔ حج، بندے کی عبدیت، اطاعت، اور محبت کا وہ مظہر ہے جو اسے دنیوی تعلقات سے بالاتر کر کے محض رب کی رضا کے لیے قربانی، مشقت اور اطاعت پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ عبادت نہ صرف روحانی تربیت کا ذریعہ ہے، بلکہ اسلام کی وحدت، مساوات اور امت کے تصور کا عملی مشاہدہ بھی ہے۔

قرآنِ مجید میں حج کی فرضیت اور اس کی اہمیت پر واضح ارشاد موجود ہے:

 وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا (فرض ) ہے جو کوئی بھی اِس کی طرف جانے کی استطاعت رکھتا ہو اور جس کسی نے کفر کیا تو بےشک اللہ اہل جہان سے بےنیاز ہے۔(آل عمران:97)

یہ آیت نہایت واضح ہے کہ حج ان لوگوں پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں، اور جو انکار کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کفر کی حد کو پہنچتا ہے، اور اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ یہ نہایت سخت تنبیہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو جان بوجھ کر حج ترک کرتے ہیں۔

حج کا آغاز نیت اور احرام سے ہوتا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ بندہ دنیاوی زیب و زینت، رتبہ، امتیازات، اور تعلقات کو چھوڑ کر محض اللہ کے حضور حاضر ہو جائے۔ ایک ہی لباس، ایک ہی کلمہ، ایک ہی طواف، ایک ہی قیام، اور ایک ہی دعا میں لاکھوں انسان ایک ہی رب

 کے آگے جھکتے ہیں، یہ وہ منظر ہے جو دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں۔ حج میں عرفہ کا دن خاص اہمیت رکھتا ہے۔

 جس کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا: الْحَجُّ عَرَفَةُ عرفہ ہی حج ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث نمبر 1348)

 یعنی عرفہ کا دن حج کا اصل دن ہے، اور جس نے عرفہ کا قیام نہ کیا اُس کا حج نہیں۔

نبی کریم ﷺ نے حج کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:

 مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

جس نے اللہ کے لیے حج کیا، اور اس میں نہ کوئی بے حیائی کی اور نہ گناہ کیا، تو وہ ایسا لوٹے گا جیسے آج ہی ماں نے اسے جنا ہو۔(صحیح بخاری، کتاب الحج، حدیث نمبر 1521)

 یعنی جس نے حج کیا اور کوئی بے حیائی یا گناہ نہیں کیا تو وہ ایسا لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ یہ حدیث حج کے روحانی فوائد کی عظیم ترین تصویر پیش کرتی ہے۔ حج انسان کو مکمل پاکیزگی، توبہ، اور نئے عزم و ارادے کے ساتھ واپس دنیا میں بھیجتا ہے۔

حج کی ہر ہر ادا میں نبی ﷺ کی اتباع کا خاص پہلو شامل ہے۔

 جابر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث حج میں (صحیح مسلم) وہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

 خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ

اپنے حج کے مناسک مجھ سے سیکھ لو۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث نمبر 1297)

اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کا ہر عمل اس طرح ادا کیا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا، کیونکہ یہ عبادت مکمل طور پر توقیفی ہے۔

حج کے دوران طواف، سعی، رمی، قربانی، اور حلق جیسی تمام عبادات کے ذریعے بندہ اللہ کی اطاعت، ابراہیمی سنت کی پیروی، اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے۔ حج میں قربانی کا عمل اللہ کے راستے میں مال اور جان کے قربان کرنے کی علامت ہے۔

 قرآن میں فرمایا گیا:

 لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ

اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ تمہارا تقویٰ اُس تک پہنچتا ہے۔ (الحج: 37)

یعنی اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ خون، بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

حج انسان کو ماضی کی غلطیوں سے توبہ اور مستقبل کے لیے نیا عزم دیتا ہے۔ جب بندہ میدان عرفات میں اپنے رب کے حضور ہاتھ بلند کر

 کے گڑگڑاتا ہے، تو وہ لمحہ اس کی زندگی کا نیا آغاز ہوتا ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرفات کے دن اپنے بندوں پر فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے فرماتا ہے: اُن کے گناہوں کو میں نے معاف کر دیا ہے۔(سنن نسائی، کتاب الحج، حدیث نمبر 2631)

حج ایک بین الاقوامی اسلامی اجتماع بھی ہے جس میں مسلمان نسل، زبان، علاقہ، رنگ، معاشرتی رتبے سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ کی صدا میں متحد ہوتے ہیں۔ حج مسلمانوں کو امتِ واحدہ کی یاد دہانی کراتا ہے کہ تم سب ایک ہو، تمہارا رب ایک ہے، تمہارا رسول ایک ہے، اور تمہاری کتاب ایک ہے۔حج انسان کو اس دنیا کی حقیقت سے آشنا کرتا ہے۔ جب لاکھوں انسان ایک ہی لباس میں بغیر کسی فرق کے لبیک کہتے ہوئے چلتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل شرف اللہ کی بندگی اور اطاعت میں ہے، نہ کہ مال و دولت، نسب یا شہرت میں۔ حج، قبر، محشر، اور قیامت کی یاد دہانی بھی ہے، جب سب کو ایک لباس میں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔

بعض لوگ حج کو صرف ایک رسم یا عبادت کا موقع سمجھتے ہیں، حالانکہ حج ایک انقلابی تجربہ ہے۔ یہ انسان کی زندگی کو بدلنے والا سفر ہے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

حج کرو، کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو ایسے دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو صاف کرتی ہے

 (سنن نسائی، کتاب الحج، حدیث نمبر 2631)

اگر حج کے بعد بھی انسان کی زندگی میں وہی غفلت، گناہ، دنیا کی محبت، اور بے عملی رہے تو گویا وہ حج کے مقصد کو نہیں سمجھ پایا۔ حج بندے کو دنیا سے ہٹا کر آخرت کی طرف متوجہ کرتا ہے، اور اس کی روحانی اور اخلاقی زندگی کو ایک نئی سمت عطا کرتا ہے۔حج کی قبولیت کی علامت یہی ہے کہ بندہ واپس آ کر اپنی زندگی کو اطاعتِ الٰہی، صلوة، صوم، زکوة، اور نیکیوں کے ذریعے مزین کرے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

 حَجٌّ مَبْرُورٌ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ

جس نے حج کیا اور اسے مقبول کرایا، تو اس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔

(صحیح بخاری، کتاب الحج، حدیث نمبر 1773)

یعنی مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔امتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ حج کے مقصد، اس کی روح، اور اس کے تقاضوں کو سمجھے، اور

 صرف ظاہری اعمال تک محدود نہ ہو۔ اگر حج کے اثرات انسان کے کردار، اخلاق، اور تعلق باللہ میں نظر آئیں، تو یہی حج کا مقصد ہے۔

 ورنہ محض طواف اور رمی سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔

حج ایک ایسی عبادت ہے جو باقی تمام ارکانِ اسلام کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس میں صلوة کی خشوع، صوم کی مشقت، زکوة کی قربانی، اور ایمان کی توحید کا مکمل رنگ موجود ہے۔ اسی لیے حج کو اسلام کا جامع ترین رکن کہا جا سکتا ہے، اور اس کی ادائیگی انسان کی بندگی کی معراج ہے۔