یہی سوال قرآن کے بنیادی پیغام کی جڑ کو چھوتا ہے کہ لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز، مددگار اور حامی کیوں بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآن میں اس پر نہ صرف سوال اٹھایا ہے بلکہ اس گمراہی کی وجوہات، حماقت، اور انجام بھی بیان فرمایا ہے۔
أَمِ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ۖ فَٱللَّهُ هُوَ ٱلْوَلِىُّ ۖ وَهُوَ يُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ
کیا انہوں نے اللہ کے سوا کارساز بنا لیے ہیں؟
پس (حقیقی) کارساز تو صرف اللہ ہے، وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
(الشوری – 9)
وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ إِلَّآ أَن تَتَّقُوا۟ مِنْهُمْ تُقَىٰةًۭ ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلْمَصِيرُ
جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو کارساز بناتا ہے، وہ اللہ کی رحمت سے کٹ جاتا ہے…
(آل عمران – 28)
لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو کارساز کیوں بنایا؟
جہالت اور تقلید:
ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے دیکھا۔ ( الزخرف 4322)
عقلی سوچ چھوڑ کر اندھی تقلید
نفسانی خواہشات:
کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟ (الجاثیہ 4523)
دنیا پرستی اور فوری فائدہ:
لوگ ان سے امید باندھتے ہیں جو قریب اور محسوس ہوں، حالانکہ وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں
شیطانی وسوسے:
شیطان انسان کو جھوٹی آس دلوا کر اللہ سے دور کر دیتا ہے (النساء 4120)