!اے مخاطب
تمہارا حق سے کراہت کرنا تمہارے تکبر کی سند ہے۔ قرآن کا ہر طالب علم جانتا ہے جلد ہی اس طرح کے لوگ آیات سے پھیر دیے جاتے ہیں۔ خود احتساب کرو اگر تمہارا گناہ خواہش نفس کے دباوٴ کا نتیجہ ہے تو اللہ سے توبہ کی امید رکھو، معاف کر دیا جائے گا لیکن اگر تمہارا قصور تکبر کی وجہ سے ہے تو اس پر لعنت کا خوف ہے۔ تم کیسے ایمان کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوں؟ لوگوں میں خود کو عارف مشہور کرتے ہو اور یہ بھول جاتے ہو کہ ابلیس کی نافرمانی تکبر کے سبب سے تھی تو اس پر لعنت برسی۔
:آوٴ تمہیں بتائیں
متکبر آدمی طاقت نہیں رکھتا کہ مومنوں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ وہ تواضع پر قادر نہیں ہوتا۔ نہ غصہ نہ کینہ نہ غضب کو چھوڑ سکتا ہے۔ اور نہ نصیحت قبول کر سکتا ہے۔ نہ غلطی کا اعتراف کر سکتا ہے۔ نہ معافی کا سوال کر سکتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کو حقیر سمجھنے اور ان کی غیبت کرنا تو درکنار جھوٹ باندھنے سے بھی نہیں بچ سکتا غرض جو بھی برا خلق ہے وہ اسکے لیے لازم ہے۔
ہاں ہاں جان لو کہ سابقہ قوم نے کفر ظلم اور تکبر کے سبب سے کیا تھا حالانکہ انکے نفوس حق جان چکے تھے۔ یادرکھنا تکبر حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔
متکبر کے اوصاف تم کیوں اپنا رہے ہو؟ متکبر انسان تو یوں بھی پہچانا جاتا ہے کہ علم سے نابلد بھی ہوگا تب بھی اپنی خوبیاں بیان کرے گا، بھوک ستائے گی تو بھی تکبر کرنے لگے گا، اپنے نفس کو پاک بتلائے گا، فخر کے طور پر اپنے حالات بیان کرے گا، اپنی حقیر سی دولت پہ اترائے گا، خواہ کوئی علم اور تقوی میں بڑھا ہوا ہو لیکن وہ مالی ناتوانی کے باعث پر اسے حقیر سمجھے گا۔ رخسار کو ٹیڑھا کرتا ہوا، ترچھی نگاہ سے گردن مارتا ہوا، لوگوں کو گندا سمجھتا ہوا، باطل پر جم کر حق کی تنقیص کرتا ہے۔
متکبر کا تکبر آواز و لہجے سے، اندازِ گفتگو و چال ڈھال سے، ناز و نخرے و قیام و قیود سے حتی کہ حرکات و سکنات سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
تکبر کا علاج چاہتے ہو تو معافی مانگنا سیکھو، بڑا بول بولنا بند کرو، منہ سے بول کر جرم کا اعتراف سیکھو، اپنی تخلیقی بضاعتی کو دیکھو کس چیز سے پیدا کئے گئے ہو؟ تمہاری پیدائش کا سبب بھی بدبودار ہے اور مر کر بھی بدبودار ہونے والے ہو۔ تمہارا کچھ نہیں تھا اور نہ کچھ لائے تھے نہ لے کر جاوٴ گے سوائے ان اعمال کے جو کرکے جاوٴگے۔
یاد رکھو کہ تکبر کرنا صرف اللہ کی شان کے لائق ہے اور جب کوئی تکبر کرے گا تو اس پر اللہ کا غصہ اور ناراضگی ہوگی۔ اللہ اپنے لیے اپنے بندے کی عاجزی اور تواضع کو پسند کرتا ہے۔ متکبر شخص لوگوں کے حقوق ادا نہیں کرتا اور جو اپنے ہی ساتھیوں پر برتری جتلائے وہ متکبر ہے۔ جس نے پستی ظاہر کی وہ متواضع ہے گویا اس نے اپنے مرتبے سے کچھ چیز گھٹا دی۔
اے مخاطب! اگر تم کسی عالم کے پاس اس لیے جاوٴ کہ وہ عالم تمہیں اپنی جگہ بٹھائے اور تمہارا اکرام کرے پھر تمہارا جوتا لا کر کے سامنے رکھے اور جب تم رخصت ہو تو دروازے تک جائے تو تم نے ذلت کو پسند کیا اور یقینا یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اچھی چیز اعتدال ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک حقدار کو اس کا حق ادا کرے۔
جان لو تمہارا انکار تکبر کے سبب نہ ہو ورنہ ایمان چھین لیا جائے گا۔
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيَاتِىَ الَّـذِيْنَ يَتَكَـبَّـرُوْنَ فِى الْاَرْضِ بِغَيْـرِ الْحَقِّۖ وَاِنْ يَّرَوْا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤْمِنُـوْا بِـهَاۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًاۚ وَاِنْ يَّرَوْا سَبِيْلَ الْغَىِّ يَتَّخِذُوْهُ سَبِيْلًا ۚ ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ كَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا وَكَانُـوْا عَنْـهَا غَافِلِيْنَ
پھر میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں، اور اگر وہ ساری نشانیاں بھی دیکھ لیں تو بھی ایمان نہیں لائیں گے، اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اسے اپنی راہ نہیں بنائیں گے، اور گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے اپنا راستہ بنائیں گے، یہ اس لیے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے بے خبر رہے۔
(الاعراف-146)
اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ
بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔
(الحجرات-13)