:سورۃالنباء
سورۃ النباء مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 78اٹھاترویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے80 اسی نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 40آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَ منکرین حشر و نشر پر زجر ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی اور ان کو بعث بعد الموت کا مسئلہ بتایا تو وہ قیامت کے بارے میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کیا کہتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے۔ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ یہ یَتَسَاءَلُوْنَ مقدر سے متعلق ہے ہاں وہ ایک عظیم خبر کے بارے میں سوال و جواب کر رہے ہیں یا آپس میں اختلاف کر رہے ہیں۔ بعض تو اس کا صاف صاف انکار کرتے ہیں اور بعض شک میں پڑتے ہیں۔اس سورۃ کی دوسری آیت کے فقرے عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ کے لفظ النبا ءکو اس کا نام قرار دیا گیا ہے، اور یہ صرف نام ہی نہیں ہے بلکہ اس سورۃکے مضامین کا عنوان بھی ہے، کیونکہ نبا ءسے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے اور سورت میں ساری بحث اسی پر کی گئی ہے۔
:سورۃ النباء کا ماقبل سے ربط
سورة النبا میں مرسلات کی نسبت تخویفات بطور ترقی مذکور ہیں۔ مرسلات میں تو صرف یہ مذکور تھا کہ عذاب واقع ہوگا لیکن سورة نبا میں اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہَادًا تا وَ جَنّٰتٍ اَلْفَافًا میں اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ (مرسلات) کی ایک شق یعنی انعامات کی تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا میں یہ انعامات عطاء فرمائے ہیں دنیوی تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر مقایسۃً چھوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی دنیوی مصیبتوں کو دنیوی نعمتوں پر قیاس کرلو کہ مصیبتیں بھی اللہ ہی کی طرف سے آتی ہیں۔ تو جس طرح دنیا میں انعامات اور مصائب میں اسی طرح آخرت میں بھی کسی پر انعامات ہوں گے اور کوئی عذاب و مصیبت میں مبتلا ہوگا۔ نیز مرسلات میں محض تخویفات تھیں اور اس میں توحید کا ذکر نہیں تھا، اب سورة نبا میں توحید کا بیان بھی ہوگا۔ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ تا وَ قَالَ صَوَابًا۔
عَمَّ یَتَسَاءَلُوْنَ تا ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ ۔ زجر برائے منکرین قیامت۔ جس عظیم حادثہ (قیامت) میں ان کو شک ہے عنقریب ہی انہیں اس کا یقین ہوجائے گا ۔ الَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہَادًا تا وَ جَنّٰتٍ اَلْفَافًا کیا ہم نے تمہیں یہ دنیوی نعمتیں عطاء نہیں کیں، اسی طرح فرماں بردار بندوں کو آخرت میں نعمتیں عطاء کریں گے۔اِنَّ یَوْمَ الْفَصلِ کَانَ مِیْقَاتًا تا فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا سے تخویف اخروی ہے۔ قیامت قائم ہونے وقت سے جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے تک کے احوال و حوادث کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا تا جَزَاءً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَاءً حِسَابًا متقی اور فرماں بردار بندوں کے لیے بشارت اخرویہ۔ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرضِ تا وَ قَالَ صَوَابًا مقصود اعلی یعنی مسئلہ توحید کا بیان میں معبودان باطل سے شفاعت قہریہ کی نفی کی گئی ہے۔ ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ تا آخر، تخویف اخروی، قیامت برحق ہے اس میں کوئی شک نہیں، اس لیے اس ہولناک دن کے لیے خوب تیاری کرلو۔ ورنہ حسرت و ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
:سورۃ النازعات
سورۃ النازعات مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 79انتّرویں نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے81 اکاسی نمبر پر ہے،اس
سورۃ میں 46آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ کا نام اس سورۃ کے پہلے ہی لفظ النازعات سے ماخوذ ہے۔یہ ابتدائی زمانے کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔اس کا موضوع قیامت اور زندگی بعد موت کا اثبات ہے اور ساتھ ساتھ اس بات پر تنبیہ بھی کہ اللہ کے رسول کو جھٹلانے کا انجام کیا ہوگا۔
: سورة النازعات کا ماقبل سے ربط
سورة نبا میں انعامات ذکر کیے گئے اور مصائب کا ذکر ترک کردیا گیا تاکہ وہ مقایسۃً مفہوم ہوجائیں اس میں اشارہ تھا کہ آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا کہ مومنوں پر انعامات ہوں گے اور کافروں پر عذاب۔ اب سورة النازعات میں بطور ترقی اس کا نمونہ ذکر کیا گیا یعنی جس طرح دنیا میں روح قبض کرتے وقت فرشتے مومنوں کے ساتھ نرمی اور کافروں پر سختی کرتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی فرشتے مقرر کیے جائیں گے جو مومنوں کو جنات میں داخل کریں گے اور کافروں کو طرح طرح کا عذاب دیں گے۔
وَالنّٰزِعَاتِ غرْقًا تا فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا آخرت کے ثواب و عذاب کا نمونہ ذکر کیا گیا ہے۔ یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ تا اَبْصَارُھَا خَاشِعَةٌ تخویف اخروی ہے۔ یہ ہے وہ دن جس میں عذاب وثواب کے فرشتے کافروں اور مومنوں پر متعین کیے جائیں گے۔ یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِیْ الْحَافِرَۃ تا فَاِذَاھُمْ بِالسَّاھِرَۃِ۔ شکوی بر کفار و مشرکین۔ وہ بطور استہزاء کہتے ہیں کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا دوبارہ زندہ ہو کر پہلی حالت پر آجائیں گے ؟۔ ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی تا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی تخویف دنیوی۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجا، اس نے سرکشی کی اور ان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو ہم نے اس کو دنیا ہی میں سخت عذاب سے پکڑ لیا اور آخرت میں بھی اس کو شدید عذاب دینے کا فیصلہ صادر فرما دیا۔ ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ تا مَتَا عًا لَّکُمْ وَ لِاَنْعَامِکُمْ یہ دعوئے سورت پر عقلی دلیل ہے کیا اس بلند وبالا آسمان کو پیدا کرنا دن رات کو معرض وجود میں لانا زمین کو بچھا دینا اور اس پر پہاڑوں کو ٹکا دینا پھر زمین کی تمام انواع و اقسام نبات کا پیدا کرنا تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل ہے اللہ تعالیٰ جو ایسا قادر و حکیم ہے وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے۔ فَاِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْکُبْریٰ تا فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاویٰ یہ تخویف اخروی ہے۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ تا فَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِيَ الْمَاْوٰى یہ مومنین کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَهِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا سے آخر یہ شکوہ ہے۔ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئیگی حالانکہ آپ کو اس کا کوئی علم نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے آپ تو اس سے ڈرانے والے ہیں۔
:سورۃ عبس
سورۃ عبس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 80اسی نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے24 چوبیس نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 42آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔اس سورۃ کےپہلے ہی لفظ عبس کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ایک دفعہ رسول اللہ کے پاس چند قریشی سردار بیٹھےتھے اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ اسی دوران عبداللہ بن ام مکتومؓ آپ کے پاس تشریف لائے۔ یہ عبداللہ بن ام مکتوم نابینا تھے۔ خدیجہ (رض) کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ سے کسی آیت کا مطلب پوچھا۔ اور جو لوگ اس وقت رسول اللہ کی مجلس میں بیٹھے تھے انہیں آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ رسول اللہ کو ناگوار محسوس ہوا۔ اور اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ پر بھی نمودار ہوگئے۔ آپ نے عبداللہ ؓکی طرف کوئی توجہ نہ دی اور انہیں خاموش کرا دیا۔سردست اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے قریب آگیا تو اس سے اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی ہے اسی وجہ سے آپ قریشی سرداروں سے ہی محو گفتگو رہے۔ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی۔
: سورة عبس کا سورة النازعات سے ربط
سورة النازعات میں تخویف اخروی کا نمونہ ذکر کیا گیا اور سورة عبس میں تخویف اخروی بڑھا کر ذکر کی گئی۔ یوم یفر المء من اخیہ، وامہ و ابیہ، وصاحبتہ و بنیہ یعنی کفار و مشرکین کو عذاب تو ہو ہی گا۔ لیکن وہ دن اس قدر سخت اور ہولناک ہوگا کہ ہر ایک نفسی نفسی کہے گا اور دوسروں سے دور بھاگے گا۔
:مضمون کے اعتبار سے سورت کے تین حصے ہیں
پہلا حصہ: عبس وتولی تا کرام بررۃ تنبیہ برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بیان عظمت قرآن کا ذکر ہے ۔
دوسرا حصہ: قتل الانسان ما اکفرہ تا کلا لما یقض ما امرہ زجر برائے مشرکین۔ انسان کافر کس قدر ناشکر گزار اور احسان فراموش ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس قدر نعمتوں کے باوجود کفر و عصیان پر ڈٹا ہوا ہےمرنے کے بعد ہم اسے قبر دیں گے یہ وہی قبر ہے جس میں حساب و کتاب اور قیامت سے پہلے سزا و جزاہے یاد رہے یہ قبر ہر مرنے والے کو ملتی ہے دنیوی قبر یعنی مٹی کے ڈھیر میں نہ سوال و جواب ہوتے ہیں نہ ہی عذاب وراحت۔
تیسرا حصہ: فلینظر الانسان الی طعامہ تا متاعا لکم و لانعامکم دلیل عقلی برائے ثبوت قیامت۔ ذرا دیکھو تو سہی تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے لیے یہ مختلف انواع و اقسام کے کھانےو مشروبات کس نے پیدا کیے ہیں ؟ جو یہ سب کچھ پیدا کرسکتا ہے وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ فاذا جاءت الصاخۃ تا لکل امری منہم یومئذ شان یغنیہ تخویف اخروی۔ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ کوئی کسی کی خبر نہیں لے گا ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے بھی دو بھاگے گا۔ جوہ یومئذ مسفرۃ، ضاحکۃ مستبشرۃ ماننے والوں کے لئےبشارت اخرویہ ہے۔ قیامت کے دن ابرار ومومنین خوش و خرم اور مسرور ہونگے۔ ووجوہ یومئذ علیہا غبرۃ تا آخر۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ کفار و مشرکین اس دن ذلیل و رسوا ہونگے۔
سورۃ عبس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 81اکاسی نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے7ساتویں نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 29آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔سورۃ کا نام پہلی ہی آیت کے لفظ کوِّرَت سے ماخوذ ہے۔ کوِّرَت تکویر سے صیغہ ماضی مجہول ہے جس کے معنی ہیں لپیٹی گئی۔ اس نام سے مراد یہ ہے کہ وہ سورت جس میں لپیٹنے کا ذکر آیا ہے۔شروع میں قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جب سورج بےنور ہوجائے گا، ستارے بکھر جائیں گے، پہاڑ زمین سے اکھڑ کر اڑنے لگیں گے، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں کے جانور بدحواس ہو کر اکٹھے ہوجائیں گے اور سمندر بھڑک اٹھیں گے۔ پھر آگے کی آیتوں میں دوسرے مرحلے کا ذکر ہے جب روحیں از سرنو جسموں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی، نامہ اعمال کھولے جائیں گے، جرائم کی بازپرس ہوگی، آسمان کے سارے پردے ہٹ جائیں گے اور جہنم وجنت سب چیزیں نگاہوں کے سامنے عیاں ہوجائیں گی۔ آخرت کا یہ سارا نقشہ کھینچنے کے بعد یہ کہہ کر انسان کو سوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس وقت ہر شخص کو خود معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔اس کے بعد رسالت کا مضمون دیا گیا ہے۔ اس میں اہل مکہ سے کہا گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ کسی دیوانے کی باتیں نہیں ہیں، نہ کسی شیطان کا ڈالا ہوا وسوسہ ہے، بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے ایک بزرگ، عالی مقام اور امانت دار پیغام لانے والے کا بیان ہے جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلے آسمان کے افق پر دن کی روشنی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔وہ جبریل امین ہیں،اللہ کی ذات کو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں دیکھا تم اس تعلیم سے منہ موڑ کر آخر تم کدھر چلے جا رہے ہو ؟
:سورة التکویر
سورة التکویرمکی سورۃ ہےیہ مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے اعتبار سے 81 اکاسویں سورت ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 6چھٹی سورت ہے جو سورة الاعلی سے قبل اور سورة اللھب کے بعد نازل ہوئی یہ مکمل مکی سورت ہے چونکہ یہ اذالشمس کورت سے شروع ہوئی ، اور کورت، کا مادہ اشتقاق تکویر ہے اس لیے اسے سورة تکویر کہا گیا۔یعنی قیامت کے دن سورج کی شعائیں لپیٹ دی جائے گی اور سورج بےنور ہوجائے گا۔اس سورت کے آغاز میں قیام قیامت کا منظر کھینچا گیا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو سورج بےنور ہوجائے گا ،ستارے جھڑ جائیں گے، پہاڑ چلا دئیے جائیں گے، سمندر خشک کردیے جائیں گے اور وہ زندہ درگور کی جانے والی بچی سے پوچھا جائے گا کہاں سے کس جرم میں قتل کیا گیا تھا، جہنم کو بھڑکایا جائے گا اور جنت کو مومنوں کے قریب کردیا جائے گا کیونکہ گزشتہ سورتوں میں قیام قیامت کا ذکر چلا آ رہا ہے۔پھر اللہ رب العزت نے چند قسمیں اٹھانے کے بعد قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی عظمت پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ عزت والے رسول کا کلام ہے جو مالک عرش کے ہاں بڑا مقام رکھتا ہے پھر فرمایا گیا کہ رسول اللہ غیب کی خبریں دینے میں بخیل نہیں ہیں پھر قرآن کریم کو عالمین کا ذکر کرا دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ یہ کسی شیطان کا کلام نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کوئی انسان وہی چاہ سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہے جو اللہ نہ چاہے وہ کسی اور کے چاہنے سے نہیں ہوسکتا ۔
:سورة التکویرکا سورۃ عبس سے ربط
سورة عبس میں بیان کیا گیا تھا کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ ہر آدمی اپنے اعزیز و اقارب سے بھی دور بھاگے گا اور ہر آدمی اپنے ہی حال میں مشغول ہوگا۔ اب یہاں اس سے بطور ترقی فرمایا قیامت کے دن حساب کتاب کے بعد تم سیدھے اپنے اپنے ٹھکانوں میں جاؤ گے اور ہمیشہ کے لیے ان میں رہو گے۔
اذا الشمس کورت تا واذا الجنۃ ازلفت تخویف اخروی، احوال قیامت کا مجمل خلاصہ بارہ احوال چھ دنیوی اور چھ اخروی۔ فلا اقسم بالخنس تا والصبح اذا تنفس تخویف اخروی بطور ترقی اور احوال قیامت پر شواہد جواب قسم محذوف ہے۔ انہ لقول رسول کریم تا وما ھو بقول شیطان رجیم تمہید برائے زجر آئندہ و اشارہ بدلیل وحی۔یہ عظیم الشان قرآن ایک معزز، طاقتور اوراللہ کے یہاں نہایت مقرب اور امین فرشتہ لے کر آیا ہے۔ یہ کوئی شیطانی کلام نہیں، نہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (عیاذا باللہ) دیوانے ہیں۔ فاین تذھبون تا آخر، زجر برائے کفار۔ ایسی عظیم الشان کتاب کے ہوتے ہوئے تم اس سے ہدایت حاصل کیوں نہیں کرتے ہو اور کہاں جا رہے ہو۔ یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو چاہے قرآن کی ہدایت پر عمل کر کے سیدھی راہ اختیار کرے۔
:سورة الانفطار
سورة الانفطار مکی سورۃ ہے ، مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے اعتبار سے 82 ویں سورت ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 81 سورت ہے۔ اس سورت میں ایک رکوع ، 19 آیات ہیں۔ سورۃ کا نام پہلی ہی آیت کے لفظ انفَطَرَت سے ماخوذ ہے۔ انفطار مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹ جانے کا ذکر آیا ہے۔ اس کا عنوان فکر آخرت ہے۔اس میں سب سے پہلے روز قیامت کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیش آجائے گا تو ہر شخص کے سامنے اس کا کیا دھرا سب آجائے گا۔ اس کے بعد انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ جس رب نے تجھ کو وجود بخشا اور جس کے فضل و کرم سے آج تو سب مخلوقات سے بہتر جسم اور اعضاء لیے پھرتا ہے، اس کے بارے میں یہ دھوکا تجھے کہاں سے لگ گیا کہ وہ صرف کرم ہی کرنے والا ہے، انصاف کرنے والا نہیں ہے ؟ اس کے کرم کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ تو اس کے انصاف سے بےخوف ہوجائے۔ پھر انسان کو خبردار کیا گیا ہے کہ تو کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہے، تیرا پورا نامہ اعمال تیار کیا جا رہا ہے۔ اور نہایت معتبر کاتب ہر وقت تیری تمام حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہے ہیں۔ آخر میں پورے زور کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یقیناً روز جزا برپا ہونے والا ہے جس میں نیک لوگوں کو جنت کا عیش اور بد لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ اس روز کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا، فیصلے کے اختیارات بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہونگے۔
لوگوں کو جہنم کا عذاب نصیب ہوگا۔ اس روز کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا، فیصلے کے اختیارات بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہونگے۔
: سورة الانفطار کا سورۃ التکویر سے ربط
سورة انفطار میں، التکویر میں مذکور احوال سے صرف چار دنیوی اور اخروی احوال ذکر کیے گئے لیکن اس کے مقابلے میں بطور ترقی، تفصیل تفسیر میں آرہی ہے۔ اسی طرح اس سورت میں تخویف اخروی میں بھی ترقی ہے۔ وہاں مذکور ہوا کہ تم سیدھے اپنے مقامات کی طرف چلو گے اور ان میں قائم رہو گے یہاں فرمایا وما ھم عنہا بغائبین یعنی وہ اپنے ٹھکانوں سے کبھی نہ نکلیں گے۔ سورة تکویر میں توحید کا ذکر نہیں، لیکن انفطار میں نفی شفاعت قہریہ اور نفی کارسازی از غیر اللہ کا بیان آخر میں موجود ہے یوم لا تملک نفس لنفس شیئا والامر یومئذ للہ
اذا السماء انفطرت تا واذا القبور بعثرت تخویف اخروی۔ احوال قیامت کا ذکر سورت سابقہ سے علی سبیل الترقی۔ یا ایہا الانسان تا فی ای صورۃ ما شاء رکبک زجرہے۔ اے انسان ! ایسے مہربان رب سے تجھے کس چیز نے غافل کردیا ہے اس نے تجھے پیدا کیا اور تجھے حسن و جمال عطاء فرمایا۔ اس کا تو تجھے شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ کلا بل تکذبون بالدین تا یعلمون ما تفعلون متعلق بہ زجر ہے۔ تم قیامت کو نہیں مانتے ہو حالانکہ تمہارے اعمال کا پورا پورا حساب رکھا جا رہا ہے۔ ان الابرار لفی نعیم ماننے والوں کے لئےبشارت اخرویہ ہے۔ وان الفجار لفی جحیم تا ثم مادراک ما یوم الدین نہ ماننے والوں کے لئے تخویف اخروی ہے۔ یوم لا تملک نفس لنفس شیئا، والامر یومئذ للہ بیان توحید اورنفی شفاعت قہریہ یعنی اس بات کی نفی کہ اللہ پکڑ لے تو نبی،ولی کوئی نہیں چھڑوا سکتا۔ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اللہ کا پکڑا چھڑائے محمد اور محمد کا پکڑا چھڑا نہیں سکتا۔نقل کفر کفر ناباشد
:سورۃ المطففین
سورۃ المطففین مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 83نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 58 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں36 آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔پہلی ہی آیت ویل للمطففین سے ماخوذ ہے۔
:سورة المطففین کا الانفطار سے ربط
سورۃ سابقہ کی نسبت اس میں احوال قیامت کا بیان علی سبیل الترقی ہے۔ سورة انفطار میں مذکور تھا کہ تم جہنم سے کبھی نکل نہ سکو گے اب سورة مطففین میں علی سبیل الترقی بیان ہوگا کہ سب کے نام مخصوص رجسٹروں میں درج ہوں گے اور کوئی شخص کسی کی سفارش سے اپنا نام وہاں سے خارج نہیں کرا سکے گا۔
ویل للمطففین تا یوم یقوم الناس لرب العلمین یہ جو لوگ ناپ تول میں بد دیانتی کر کے لوگوں کا مال کھاتے ہیں کیا وہ اللہ کے یہاں قیامت کے دن حاضر نہیں ہوں گے ؟ کلا ان کتب الفجار تا کتب مرقوم تخویف اخروی۔ ان فساق و فجار کے نام سجین میں درج ہوں گے اور وہاں سے نام خارج نہیں کراسکیں گے۔ ویل یومئذ للمکذبین تا وما یکذب بہ الا کل معتد اثیم قیامت کو جھٹلانے والوں پر زجر۔ اذا تتلی علیہ ایتنا قال اساطیر الاولین یہ جھٹلانے والوں پر شکوی ہے۔ کلا انہم عن ربہم یومئذ لمحجوبون تا ھذا الذی کنتم بہ تکذبون تخویف اخروی ہے۔ کلا ان کتب الابرار لفی علیین تا یشرب بہا المقربون بشارت اخرویہ۔ ابرار وں کے نام علیین میں درج ہوں گے وہ نعیم جنت میں مسرور و شاداں ہوں گے اور اعلی قسم کے مشروبات سے ان کی تواضع ہوگی۔تنبیہ:علین و سجین اعمال ناموں کے دفتر ہیں،نیک و بد روحوں کے ٹھکانے نہیں ہیں۔ ان الذین اجرموا کانو من الذین امنوا یضحکون تا آخر، زجر برائی مشرکین و تخویف اخروی۔ مشرکین دنیا میں مسلمانوں کو نہایت حقیر سمجھتے تھے اور انہیں دیکھ کر ان پر ہنستے تھے اور ان کو گمراہ سمجھتے تھے۔ آج (قیامت کے دن) مومنین کافروں پر ہنسیں گے اور اسی طرح ان سے انتقام لیا جائے گا۔
:سورۃ الانشقاق
سورۃ الانشقاق مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 84نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 83 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 25آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔سورۃ کا نام پہلی ہی آیت کے لفظ انشقت سے ماخوذ ہے۔ انشقاق مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں اور اس نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں آسمان کے پھٹنے کا ذکر آیا ہے۔اس کا موضوع قیامت اور آخرت ہے۔
: سورة الانشقاق کا سورۃ المطففین سے ربط
سورة المطففین میں مذکور ہوا کہ تم کسی حیلے بہانے سے اپنے مقامات سے نکل نہیں سکو گے۔ یہاں علی سبیل الترقی فرمایا لترکبن طبقا عن طبق کہ تم جہنم سے نہیں نکل سکو گے اور تم پر وہاں کئی حالات آئیں گے اور تمہیں مختلف قسم کی ہولناک سزاؤں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ فلا اقسم بالشفق ۔۔الخ میں اس پر شواہد ذکر کیے گئے۔ نیز سورة المطففین میں برے کام کرنے والوں کی ایک مثال ذکر کی گئی۔ ویل للمطففین اور یہاں نیک کاموں کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ یا ایہا الانسان انک کا دح۔۔الخ
اذا لسماء انشقت ۔۔تا ۔۔واذنت لربھا وحقت تخویف اخروی۔ آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین سب کچھ اگل دے گی یہ آخرت کے ابتدائی احوال ہیں۔ یا ایہا الانسان انک کا دح۔۔الخ ۔ اعمال صالحہ کی ترغیب ہے۔ اے انسان ایک وقت آنے والا ہے کہ تو اپنے رب سے ملے گا، اس لیے اب وقت ہے نیک کام کرلے۔ فاما من اوتی کتبہ بیمینہ۔۔ تا ۔۔ وینقلب الی اھلہ مسرورا بشارت اخرویہ۔ قیامت کے دن جن کو داہنے ہاتھوں میں اعمالنامے دئیے جائیں گے ان کا حساب نہایت آسان ہوگا اور وہ خوش وخرم اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ وما من اوتی کتبہ وراء ظہرہ ۔۔ تا ۔۔ بلی ان ربہ کان بہ بصیرا تخویف اخروی۔ اور جن کو پیٹھ کے پیچھے سے اعمالنامے دئیے جائیں گے، ان کے لیے ہلاکت ہوگی اور وہ جہنم میں داخل ہونگے۔ فلا اقسم بالشفق ۔۔ تا ۔۔ لترکبن طبقا عن طبق تخویف اخروی بطور ترقی از سورت سابقہ اور ذکر شواہد۔ فما لہم لایؤمنون۔۔ الخ زجر برائے مشرکین۔ کیسے نادان ہیں کہ ایسے بیانات کے باوجود ایمان نہیں لاتے اور قرآن کے احکام کے سامنے نہیں جھکتے۔ بل الذین کفروا یکذبون ماننے کے بجائے وہ جھٹلاتے ہیں ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔ الا الذین امنوا ۔۔الخ البتہ مومنین مانتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان کے لیے غیر متناہی اجر وثواب ہے۔
:سورۃ البروج
سورۃ البروج مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 85نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 27 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 22آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ پہلی آیت کے لفظ البروج کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔اس کا موضوع کفار کو اس ظلم و ستم کے برے انجام سے خبردار کرنا ہے جو وہ ایمان لانے والوں پر توڑ رہے تھے، اور اہل ایمان کو یہ تسلی دینا ہے کہ اگر وہ ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے تو ان کو اس کا بہترین اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے بدلہ لے گا۔
:سورة البروج کا ماقبل سے ربط
اس سورت میں احوال قیامت پر شواہد کا ذکر ہے سورة سابقہ سے بطور ترقی نیز اس سورت میں توحید کا ذکر ہے۔جس راستہ پر چلتے ہوئے جنت ملتی ہے اس راستے پر چلتے ہوئے دنیا میں تکلیفیں بھی آئیں گی،لہذا اس پر ثابت قدم رہنا۔
والسماء ذات البروج ۔۔تا ۔۔وشاھد و مشہود احوال قیامت پر شواہد۔ قتل اصحاب الاخدود ۔۔ تا۔۔ العزیز الحمد متعلق بشاہد سوم بطریق لف و نشر غیر مرتب۔ کفار دنیا میں مسلمانوں کو ایذائیں دیتے تھے اور اس پر شاہد ہوتے تھے۔ قیامت کے دن اس کے برعکس معاملہ ہوگا۔ الذی لہ ملک السموات ۔۔الخ۔ بیان توحید علی سبیل الترقی یعنی سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ و تصرف میں ہے اور وہی حاضر و ناظر ہے لہٰذا حاجات و مصائب میں صرف اسی کو پکارو۔ ان الذین فتنوا المومنین۔۔الخ تخویف اخروی ہے۔ ان الذین امنوا و عملوا الصلحت۔ ۔الخ بشارت اخرویہ۔ ان بطش ربک لشدید یہ شاہد دوم سے متعلق ہے جس طرح قیامت کا وعدہ سخت ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی نہایت سخت ہے۔ انہ ہو یبدئ تا فعال لما یرید متعلق بشاہد دوم۔ ہل اتاک حدیث الجنود ۔۔ تا ۔۔ واللہ من وراہ م محیط پہلے شاہد سے متعلق ہے جس طرح آسمان تم کو محیط ہے اور تم اس سے باہر کہیں بھاگ سکتے اسی طرح اللہ تعالیٰ سب کو محیط ہے سب کچھ جانتا ہے اور کوئی اس کے عذاب سے نہیں بھاگ سکتا۔ بل ھو قرآن مجید ۔۔ الخ یہ بل الذین کفروا سے متعلق ہے۔ اس قدر بیان و تذکیر کے بعد اب کوئی شبہ تو باقی نہیں رہا۔ مگر وہ پھر بھی تکذیب کرتے ہیں بلکہ تکذیب میں منہمک ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں اس کی سزا دے گا وہ ان کو احاطہ کیے ہوئے ہے اس لیے وہ اس سے بھاگ نہیں سکتے۔ جس طرح آسمان سب کو محیط ہے۔ بل ھو قرآن یہ بل الذین کفروا فی تکذیب سے متعلق ہے۔ کافر اس قرآن کو جھٹلاتے ہیں، نہیں بلکہ یہ عالیشان کتاب ہے جو ان کی دسترس سے بالا ہے۔ ان کے عناد و تعنت کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر جباریت لگا دی گئی ہے۔
:سورۃ الطارق
سورۃ الطارق مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 86نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 35 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 17آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ پہلی ہی آیت کے لفظ الطارق کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة الطارق کا سورة البروج سے ربط
سورة البروج میں ثبوت قیامت پر شواہد کا ذکر تھا نیز تخویف دنیوی و اخروی و بشارت اخرویہ کا بیان تھا۔ اب سورة الطارق میں فرمایا۔ فمہل الکفرین امہلہم رویدا
ایسے شواہد اور واضح بیانات کے باوجود وہ نہیں مانتے بلکہ جھٹلاتے ہی ہیں تو ان کو ذرا مزید مہلت دے دو اگر پھر بھی نہیں مانیں گے تو انہیں پکڑ لیا جائے گا ۔
والسماء والطارق ۔۔ تا ۔۔ان کل نفس لما علیہا حافظ یہ تخویف ہے تم سب پر نگران فرشتے مقرر ہیں جو تمہارے اعمال کو لکھ رہے ہیں۔ اس لیے ہر عمل کی پوری پوری جزاء ملے گی۔ فلینظر الانسان مم خلق ۔۔تا ۔۔ فما لہ من قوۃ ولا ناصر ۔ حشر و نشر پر دلیل عقلی بطور نمونہ۔ اللہ تعالیٰ جو قطرہ آب سے انسان کو پیدا کرسکتا ہے وہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ والسماء ذات الرجع ۔۔تا ۔۔وما ھو بالہزل یہ حشر و نشر پر دوسری دلیل عقلی ہے بطور نمونہ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسا لیتا ہے اور زمین سے نباتات اگا لیتا ہے۔ اسی طرح وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ انہم یکیدون کیدا و اکید کیدا شکوی بر کفار۔ کفار و مشرکین حشر و نشر اور جزاء و سزا کے انکار و ابطال کے لیے کئی حیلے بہانے اور تدبیریں سوچتے رہتے ہیں مگر ہم اپنی لطیف تدبیروں سے اور کافی بیانات اور شافی جوابات سے ان کے ہر حیلے کو باطل کردیتے ہیں۔ یا اللہ کی تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو بطور استدراج دے رہے ہیں اور وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ یہ مہلت ان کے لیے باعث عذاب ہے۔ فمہل الکفرین امہلہم رویدا تخویف۔ فمہل الکفرین یہ تخویف ہے ایسے شواہد و بیانات کے باوجود وہ نہیں مانتے۔ وہ ضدی اور معاند ہیں، ان سے ایمان کی توقع نہ رکھیے، نہ ان سے انتقام لینے میں عجلت سے کام لیجیے بلکہ ان کو مہلت دیجئے وقت آنے پر ہم خود ان سے انتقام لے لیں گے۔ چنانچہ دنیا میں میدان بدر کے معرکہ میں ان سے انتقام لیا گیا اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ دردناک اور ہولناک ہوگا۔
:سورۃ الاعلیٰ
سورۃ الاعلیٰ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 87نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے 8 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 19آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ پہلی ہی آیت سبح اسم ربک الاعلٰی کے لفظ الاعلٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة الاعلی کا الطارق سے ربط
مشرکین کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اختلاف دو نہایت اہم مسئلوں میں تھا اول مسئلہ توحید میں، دوم حشر و نشر اور جزاء و سزا میں سورة الطارق تک مسئلہ قیامت کا بیان تھا۔ اب سورة اعلیٰ سے لے کر آخر تک مسئلہ توحید کا بیان ہوگا۔ مسئلہ توحید سے مشرکین کے اعراض کی بڑی وجہ دنیوی عیش و عشرت میں انہماک ہے اس لیے مسئلہ توحید کے ساتھ ساتھ تزہید فی الدنیا کا مضمون بھی کہیں کہیں مذکور ہوگا۔ بعض سورتوں میں دونوں مضمون مذکور ہونگے، بعض میں صرف ایک اور بعض میں صرف تخویف کا ذکر ہوگا۔ درمیان میں دو سورتوں یعنی والضحی اور الانشراح میں نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے لیے تسلی کا مضمون مذکور ہوگا۔
سورة الاعلی چونکہ اس حصہ کا مبدا ہے۔ اس لیے اس میں توحید اور تزہید فی الدنیا، دونوں مضمون مذکور ہیں۔
سبح اسم ربک الاعلی دعوائے توحید کے دونوں حصوں کا نتیجہ اور ثمرہ۔ جب کارساز بھی وہی ہے اور عالم الغیب بھی تو اس کو ان صفتوں میں شریکوں سے پاک سمجھو۔ الذی خلق فسوی ۔۔تا ۔۔ فجعلہ غثاء احوی دعوی توحید کے جزو اول پر دلائل و شواہد۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ سنقرئک فلا تنسی دعوی اولی کے ابلاغ وبیان پر انعام۔ انہ یعلم الجہر وما یخفی دوسرا دعوی۔ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے اور کوئی عالم الغیب نہیں۔و نیسرک للیسری دوسرے دعوی کی تبلیغ پر انعام۔ فذکر ان نفعت الذکری۔ دونوں دعو وں کے بعد تسلی برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔الذی یصلی النار الکبری۔۔الخ تخویف اخروی۔ قد افلح من تزکی ۔۔الخ، بشارت اخرویہ۔ بل توثرون الحیوۃ الدنیا۔۔الخ۔ تزہید فی الدنیا کا مضمون۔ان ھذا لفی الصحف الاولی تا آخر۔ توحید اور تزہید فی الدنیا پر دلیل نقلی۔
سورۃ الغاشیہ
سورۃ الغاشیہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 88نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے68نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 19آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ پہلی ہی آیت کے لفظ الغاشیۃ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة الغاشیہ کا ماقبل سے ربط
یہ سورۃ پہلی سورت کا تتمہ ہے اور اس میں محض تخویف اخروی کا بیان ہے۔ بشارت کا ذکر بالتبع ہے۔ اس کے بعد بھی اسی طریقہ سے ایک سورت میں اصل دعوی مذکور ہوگا اور دوسری سورت اس کا تتمہ ہوگی۔
ھل اتاک حدیث الغاشیہ ۔۔ تا ۔۔ ولا یغنی من جوع تخویف اخروی۔ یعنی الغاشیہ سے قیامت مراد ہے جو اپنے شدائد و اہوال کی وجہ سے سب پر حاوی ہوگی۔ اور وجوہ سے اصحاب الوجوہ یعنی کفار مراد ہیں ۔ کفار و مشرکین دنیا میں نہ تو اللہ کے سامنے عاجزی کرتے تھے، نہ ایمان کی خاطر شدائد و مصائب برداشت کرتے تھے لیکن قیامت کے دن ذلت اور رسوائی سے نہایت عاجز ہوں گے اور جہنم کے انواع عذاب کئے ہولناک شدائد اور سخت ترین تکلیفوں اور سزاؤں کو برداشت کریں گے۔ عاملة ناصبة، تصلى نارا حامية کفار و مشرکین نے اگر کوئی اچھے کام کئے بھی ہوں گے تو باوجود اعمال کے جہنم میں جائیں گے۔یعنی بغیر ایمان خالص کے اعمال کا صلہ نہ دیا جائے گا، تسقی من عین انیۃ جب ان کو جہنم کی شدید ترین گرمی میں پیاس لگے گی تو ان کو ایک ایسے چشمے سے پانی پلایا جائے گا جس سے نہایت گرم اور کھولتا ہوا پانی ابل رہا ہوگا۔ لیس لہم دوزخیوں کے مشروب کا ذکر کر کے ان کے طعام کا ذکر فرمایا۔ ضریع ایک خاردار پودا ہے زمین پر مفروش، نہایت زہریلا کوئی جانور یا چوپایہ اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔ سرسبز ہو تو شبرق اور خشک ہونے پر ضریع کہلاتا ہے۔ وجوہ یومئذ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ قرآن مجید کا یہ قانون ہے کہ جہاں تخویف کا ذکر آئے گا اس کے ساتھ بشارت کا ذکر بھی ہوگا یہاں بھی وجوہ سے اصحاب الوجوہ یعنی مومنین مراد ہیں۔ مومنین قیامت کے دن خوش وخرم ہونگے۔ دنیا میں انہوں نے جو کام کیے ہوں گے ان کا اجر وثواب اور ان کی احسن جزاء دیکھ کر بہت خوش ہونگے۔ عالیشان باغوں میں رہیں گے اور وہاں کوئی لغو اور بیہودہ بات نہیں سنیں گے ان باغوں میں ہر قسم کے اعلی مشروبات کے چشمے جاری ہونگے۔ فیھا سرر ، سرر، سریر کی جمع ہے یعنی تخت۔ ان کے بیٹھنے کے لیے جو تخت ہوں گے وہ نہایت اونچے ہوں گے لیکن جب وہ ان پر بیٹھنا یا ان سے اترنا چاہیں گے تو تخت خود بخود نیچے ہو کر زمین کے قریب ہوجائیں گے۔ واکواب موضوعۃ کوب وہ پیالہ جس کو پکڑنے کے لیے حلقہ نہ ہو۔ پیالیاں ان کے سامنے تیار رکھی ہوں گی جب چاہیں گے ان کو استعمال کرلیں گے۔ و نمارق مصفوفۃ گدّے اور تکیے سلیقہ کے ساتھ قطار میں رکھے ہونگے۔ وزرابی مبثوثۃ زرابی، زربیۃ کی جمع ہے یعنی دریاں اور بچھونے۔ مبثوثۃ مبسوطۃ، جنت میں ہر طرف دریاں بچھی ہوں گی تاکہ جہاں چاہیں بیٹھ جائیں۔ افلا ینظرون یہاں مذکورہ بالا چاروں امور کے لیے چار نمونے اور شواہد مذکور ہیں بطور لف و نشر مرتب۔ مذکورہ بالا بیان پر مشرکین نے حیرت و تعجب کا اظہار کیا بلکہ ان چیزوں کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ایسے نمونے بیان فرمائے جن کے انکار کی کوئی بھی گنجائش نہیں۔ والی السماء یہ اکواب موضوعۃ کا نمونہ ہے جس طرح آسمان اونچا ہے اور اس پر تارے اونچے رکھے ہیں اسی طرح پیالیاں اونچی رکھی ہوں گی۔ والی الجبال کیف نصبت یہ نمارق مصفوفۃ کا نمونہ ہے جس طرح دنیا میں زمین پر پہاڑوں کا سلسلہ قائم ہے اسی طرح جنت میں سلیقہ کے ساتھ تکیے قطار میں لگے ہونگے۔ والی الارض کیف سطحت یہ زرابی مبثوثۃ کا نمونہ ہے جس طرح زمین بچھونے کی طرح بچھی ہوئی ہے اسی طرح جنت میں ہر طرف دریاں اور فروش بچھے ہونگے۔ فذکر انما انت مذکر۔۔الخ تسلیہ برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ الا من تولی وکفر تا آخر تخویف اخروی۔
:سورۃ الفجر
سورۃ الفجر مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 89نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے10نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 30آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ پہلے ہی لفظ والفجر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة الفجر کا ماقبل سے ربط
سورة اعلی کے دونوں مضمونوں میں سے ایک مضمون یعنی تزہید فی الدنیا کا مضمون اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ دنیا کی حقارت اور بےثبانی کا بیان ہے۔ سورة الغاشیہ، سورة الاعلی کا تتمہ تھی اور سورة الفجر، سورة الاعلی کے ایک مضمون کی تفصیل ہے۔
والفجر۔۔ تا ۔۔ ھل فی ذلک قسم لذی حجر ۔ ان مذکورہ اوقات میں اللہ تعالیٰ سے آخرت کے لیے دعائیں مانگا کرو اور دنیا کے پیچھے نہ دوڑو۔ الم تر کیف فعل ربک بعاد تزہید فی الدنیا کے لیے تخویف دنیوی کا پہلا نمونہ۔ قوم عاد کو دیکھو انہوں نے آخرت پر دنیا کو ترجیح دی، مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو دنیوی ساز و سامان اور دولت و ثروت سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا۔ وثمود الذین جابو الصخر بالواد تخویف دنیوی کا دوسرا نمونہ وفرعن ذی الاوتاد تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ۔ ان تمام منکرین توحید اور منکرین قیامت کو اللہ تعالیٰ نے دنیا ہی میں سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ فاما الانسان اذا ما ابتلہ۔۔ تا ۔۔فیقول ربی اھانن یہ شکوی ہے۔ انسان اپنی عزت و ذلت کو دنیا کے ساز و سامان اور دولت کی کمی بیشی پر مبنی سمجھتا ہے حالانکہ عزت و اکرام کا معیار تقوی اور اطاعت الہیٰ ہے۔ کلا بل لا تکرمون الیتیم ۔۔تا ۔۔ وتحبون المال حبا جما ہر بیان ما قبل سے بطور ترقی ہے۔ کلا اذا دکت الارض دکا ۔۔تا ۔۔ولا یوثق وثاقہ احد تخویف اخروی۔ یا ایتہا النفس المطمئنۃ تا آخر، بشارت اخرویہ۔
:سورۃ البلد
سورۃ البلد مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 90نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے35نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 20آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں ۔ پہلی ہی آیت لآ اقسم بھٰذا البلد کے لفظ البلد کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة البلد کا ماقبل سے ربط
یہ سورۃ گزشتہ سورت کا تتمہ ہے۔ والفجر میں دنیا اور دولت دنیا کی محبت کی مذمت مذکور ہوئی۔ اب سورة البلد میں مال کے صحیح مصارف ذکر کیے گئے کہ دولت کو جمع کرنے اور سے بچا بچا کر رکھنے ہی میں نہ لگے رہو بلکہ جہاں اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا وہاں اس کو خرچ بھی کرو۔ اگر بےمصرف خرچ کرو گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور جائز مصارف میں بھی صرف اسی وقت فائدہ ہوگا جبکہ خرچ کرنے والا مومن ہو، ایمان کے بغیر خرچ کرنا بےفائدہ ہے۔
لا اقسم بہذا البلد ۔۔ تا ۔۔لقد خلقنا الانسان فی کبد یہ تخویف دنیوی ہے حاصل یہ ہے کہ دنیا میں مشقت اور تکلیف میں ڈالنا ہمارے اختیار میں ہے۔ ایحسب ان لن یقدر علیہ احد۔۔ تا۔۔ او مسکینا ذا متربہ یہ زجر ہے انسان سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا وہ کہتا ہے میں نے اپنے دوستوں پر بہت مال خرچ کیا ہے مگر یہ سب بےفائدہ ہے جب تک وہ ایمان لا کر صحیح مصرفوں میں دولت کو خرچ نہیں کرتے گا اس وقت تک اسے فائدہ نہ ہوگا۔ ثم کان من الذین امنوا مذکورہ مصارف میں خرچ کرے لیکن ایمان شرط ہے۔ اولئک ھم اصحب المیمنۃ ۔ بشارت اخرویہ۔ ایمان کے بعد صحیح مصرفوں میں دولت خرچ کرنے والے دائیں بازو کے لوگ ہیں اور جنتی ہیں۔ والذین کفرو بایاتنا تا آخر، نہ ماننے والوں کے لیےتخویف اخروی ہے۔
:سورۃ الشمس
سورۃ الشمس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 91نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے26نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 15آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلے ہی لفظ الشمس کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة الشمس کا ماقبل سے ربط
سورة الشمس اور اللیل دونوں میں پہلے دونوں مضمونوں کا اعادہ کیا گیا ہے یعنی توحید اور تزہید فی الدنیا۔ سورة الشمس میں توحید کا مضمون مذکور ہے یعنی تفرقہ فی الاعتقاد۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقاد طیب اور اعتقاد خبیث برابر نہیں ہے۔ سورة واللیل میں تفرقہ فی الاعمال کا بیان ہے نیک و بد، سخی و بخیل اور مصدق و مکذب برابر نہیں ہیں۔ یہ دونوں سورتیں سورة الاعلی کے دونوں مضمونوں کا بیان ہے۔
والشمس وضحاھا ۔۔تا ۔۔ و قد خاب من دسا ھا ۔ جس طرح روشنی اور اندھیرا، دن اور رات، آسمان اور زمین برابر نہیں ہیں۔ اسی طرح نفس زکیہ جو شرک و کفر کی خباثت سے پاک ہو اور نفس خبیثہ جو شرک و کفر کی خباثت میں ملوث ہوں برابر نہیں ہیں۔ کذبت ثمود بطغواھا تا آخر، تخویف اخروی۔ قوم ثمود کا انجام بد دیکھو، جو لوگ کفر و شرک سے اپنے دلوں کو پاک صاف نہ کریں توحید کا انکار کریں، ان کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
:سورۃ الیل
سورۃ الیل مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 92نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے9نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 21آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلے ہی لفظ والیل کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ سورۃ الشمس میں بتایاگیا کہ جس نے نفس کو برائیوں سے پاک کر لیا،وہ کامیاب ہے جس نے نہ کیا وہ نامراد ہے اب سورۃ اللیل میں بتایا جارہا ہے کہ نفس کو کیسے پاک کیا جاتا ہے؟تو اس کاطریقہ یہ ہے کہ اللہ پر پختہ ایمان رکھا جائے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے جیسے ابو بکرصدیق ؓنے کہا،اور کفر اور بخل سےبچا جائے اور امیہ بن خلف کا طریقہ نہ اپنایا جائے۔
:سورة اللیل کا سورۃ الشمس سے ربط
سورة الشمس میں توحید یعنی تفرقہ فی الاعتقاد کا مضمون مذکور ہوا۔اب سورة واللیل میں تفرقہ فی الاعمال کا بیان ہے نیک و بد، سخی و بخیل اور مصدق و مکذب برابر نہیں ہیں۔
واللیل اذا یغشی۔۔تا ۔۔ان سعیکم لشتی اعمال کے مختلف ہونے پر شواہد کا بیان۔ جس طرح رات دن اور نر و مادہ کے آثار و احکام مختلف ہیں اسی طرح تمہارے اعمال بھی مختلف ہیں۔ نیک و بد کام یکساں نہیں ہیں۔ فاما من اعطی واتقی ۔۔تا ۔۔وان لنا للاخرۃ والاولی یہ جواب قسم کی تشریح و توضیح ہے۔ فانذرتکم نارا تلظی ۔۔تا ۔۔ الذی کذب وتولی تخویف اخری۔ وسیجنبہا الاتقی تا آخر، بشارت اخرویہ۔
:سورۃ الضحیٰ
سورۃ الضحیٰ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 93نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے11نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 21آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلے ہی لفظ والضحٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة الضحیٰ کا ماقبل سے ربط
گزشتہ سورۃکے اختتام پر سابق مضمون ختم ہوگیا۔ اب اس سورت میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے۔
والضحیٰ ، والیل اذا سجی۔۔تا ۔۔ولسوف یعطیک ربک فترضی یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب اور تسلی ہے۔کسی مصلحت سے چند دن جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر نہ آئے تو مشرکین نے کہنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کارب اس سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں مشرکین کی خرافات کا جواب دیا گیا اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نہ آپ سے ناراض ہوگیا ہے اور نہ اس نے آپ کو چھوڑ ہی دیا ہے۔ الم یجدک یتیما فاوی۔ تا۔ آخر شواہد تسلی برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی نعمتیں اور ایسا شرف عطا فرمائیگا کہ آپ دنیا کی مشقتیں بھول کر خوش ہوجائیں گے۔
:سورۃ الم نشرح
سورۃ الم نشرح مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 94نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے12نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 21آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلے ہی فقرے کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة الم نشرح کا ماقبل سے ربط
سورة الضحیٰ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی ذات پر مشرکین کے اعتراض کے بارے میں تسلی دی گئی اب اس سورت میں آپ کو مومنوں پر مشرکین کے اس اعتراض کے بارے میں تسلی دی گئی کہ مومنوں کے پاس مال نہیں۔
الم نشرح ۔۔تا ۔۔ورفعنا لک ذکرک آپ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا اور کفر و شرک کو آپ کے قریب تک نہیں آنے دیا۔ فان مع العسر یسرا۔ ان مع العسر یسرا تسلیہ برائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ یہ تنگی اور عسرت دور ہوجائے گی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فراخی کا دور لائے گا۔ فاذا فرغت فانصب تا آخر۔ اس لیے دنیوی مال و دولت کی طرف نہ دیکھو اور اللہ تعالیٰ سے لو لگائے رہو۔
:سورۃ التین
سورۃ التین مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 95نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے28نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 8آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلے ہی لفظ التّین کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة التین کاماقبل سے ربط
مسئلہ توحید اور جزاء و سزا کے بیان کے بعد سورة الضحی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی اور سورة الم نشرح میں مومنوں کو تسلی دی گئی۔ اب سورة التین میں پانچ دلائل (تین نقلی ایک عقلی اور ایک دلیل وحی) سے واضح کیا گیا ہے کہ انسان کو اونچا مقام صرف مسئلہ توحید کو ماننے سے ملے گا اور ہم نے انسان کو ظاہر حسن و جمال کے علاوہ عقل و فہم کی نعمت بھی عطا فرمائی تاکہ وہ حق کو سمجھ سکے مگر حق سے اعراض کی وجہ سے وہ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ڈالے جانے کا حق دار بن رہا ہے۔
والتین والزیتون۔۔ تا۔۔ فی احسن تقویم ۔ انسان کے احسن تقویم میں ہونے پر تین نقلی دلیلیں اور ایک دلیل وحی۔ ثم رددناہ اسفل سافلین بد عملی کی سزا کا بیان۔ الا الذین امنوا۔۔الخ مومنوں کے لیے بشارت اخرویہ۔ فمایکذبک بعد بالدین متفرع بر جواب قسم۔ الیس اللہ باحکم الحاکمین دلیل عقلی۔اللہ تعالیٰ تمام بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے اس کا یہ فیصلہ ہے کہ حشر و نشر اور جزاء سزا حق ہے۔
:سورة العلق
سورة العلق مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 96نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے1پہلےنمبر پر ہے،اس سورۃ میں 19آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔دوسری آیت کے لفظ علق کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة العلق کا ماقبل سے ربط
گزشتہ سورتوں میں تسلی اور تخویف وتبشیر کے مضامین ذکر کرنے کے بعد فرمایا تلاوت قرآن پاک پر مداومت کرو اس سے استقامات علی التوحید (توحید پر ثابت قدمی) حاصل ہوگی۔
اقرا باسم ربک۔۔ تا۔۔ علم الانسان مالم یعلم معاندین کی پرواہ نہ کرو نہ ان کی ایذاء سے گھبراؤ اللہ کا نام لے کر قرآن کی تلاوت و تبلیغ کیے جاؤ۔ کلا ان الانسان لیطغی شکوہ۔ ان الی ربک الرجعی تخویف اخروی۔ اریت الذی ینھی۔ تا۔ الم یعلم بان اللہ یری زجر برائے سرکشان و طاغیان۔ کلا لئن لم ینتہ۔ تا۔ سندع الزبانیۃ تخویف اخروی۔ کلا، لاتطعہ واسجدو واقترب خطاب بہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وامرباستقامت۔
:سورۃ القدر
سورۃ القدر مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 97نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے25پہلےنمبر پر ہے،اس سورۃ میں 5آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔
:سورة القدر کا ماقبل سے ربط
سورة العلق میں تلاوت قرآن کا حکم دیا اور اب سورة القدر میں قرآن مجید کی عظمت کا ذکر فرمایا۔
قرآن مجید بڑی عظمت و برکت والی کتاب ہے اس کو پڑھا کرو۔ قرآن کی عظمت و برکت سے اس رات کو بھی بہت بڑا شرف حاصل ہوگیا جس رات میں قرآن نازل ہوا چنانچہ وہ ایک رات یعنی شب قدر ایک ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے۔
:سورۃ البینہ
سورۃ البینہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 98نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے100پہلےنمبر پر ہے،اس سورۃ میں 8آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی آیت کے لفظ البینہ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے
: سورة البینۃ کا ماقبل سے ربط
سورة القدر میں قرآن مجید کی عظمت کا بیان تھا، اب سورة البینۃ میں کفار و مشرکین کے عناد پر شکوہ کا بیان ہے جو ایسی عظیم الشان کتاب سے بھی اعراض کرتے ہیں۔
لم یکن الذین کفروا۔ تا۔ وفی ذلک دین القیمۃ اہل کتاب یہود و نصاری اور مشرکین کے عناد و انکار کا شکوی۔ ان الذین کفرو۔ تا۔ اولئک ھم شر البریۃ تخویف اخروی۔ ان الذین امنوا وعملوا الصالحات۔ تا۔ ذلک لمن خشی ربہ بشارت اخرویہ۔
:سورۃ الزلزلہ
سورۃ الزلزلہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 99نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے93نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 8آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی آیت کے لفظ زلزالھا سے ماخوذ ہے۔
:سورة الزلزال کا ماقبل سے ربط
گزشتہ سورۃ میں عناد کفار کا شکوی تھا، اب اس سورت میں عناد کفار پر تخویف اخروی کا ذکر ہے۔
اذا زلزلت یہ وہ زلزلہ ہے جو نفخہ اولی کے وقت آئے گا جس سے زمین اپنی تہ تک ہل جائیگی اور یہ زلزلہ اس قدرسخت اور شدید ہوگا کہ زمین پر کوئی جاندار زندہ نہ رہے گا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ہموار ہوجائیں گے دریا اور سمندر خشک ہو کر زمین کے برابر ہوجائیں گے۔ واخرجت الارض اثقال، ثقل کی جمع ہے۔ یعنی بوجھ، مراد اموات ہیں۔ نفخہ ثانیہ کے وقت زمین اپنے اندر سموئے ہوئے تمام مردوں کو باہر نکال دے گی اور وہ سب زندہ ہو کر میدان حشر کی طرف چل دیں گے۔ وقال الانسان اس دن انسان حیرت و تعجب سے کہے گا زمین کو کیا ہوگیا ہے وہ اس قدر کیوں جھٹکے کھا رہی ہے یا اس کا تعلق ما بعد سے ہے یعنی یومئذ تحدث اخبارھا قیامت کے دن زمین ساری باتیں صاف صاف بیان کردے گی بندوں نے جو جو نیک و بد کام اس پر کیے ہیں وہ سب بتادے گی تو انسان اس پر حیرت واستعجاب سے کہے گا زمین کو کیا ہوگیا ہے وہ آج سب کچھ بتا رہی ہے۔ بان ربک اوحی لہا زمین اس لیے سب کچھ ظاہر کرے گی کہ اللہ تعالیٰ کا اس کو حکم ہوگا۔ فمن یعمل نیک و بد کی تفصیل ہے جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی اس کو اس کی بھی جزاء ملے گی اور وہ اس کی جزاء وہاں دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کی جزاء دیکھ لے گا بشرطیکہ عفو نہ کیا گیا ہو۔
:سورۃ العادیات
سورۃ العادیات مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 100نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے14نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 11 آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلے ہی لفظ العٰدیٰت کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة العادیات کا ماقبل سے ربط
سابقہ سورت میں عناد کفار پر تخویف اخروی کا ذکر تھا اب اس سورت میں ظلم کفار کا شکوی مذکور ہوگا۔
والعدیات ضبحا۔ تا۔ ان الانسان لربہ لکنود بیان مرض۔ یعنی انسان اپنے پروردگار کا ناشکر گذار ہے۔ وانہ علی ذلک لشہید۔ تا۔ لشدید بیان سبب مرض۔ یعنی اس کی ناشکری کا سبب مال و دولت کی محبت ہے۔ افلا یعلم اذا بعثر۔ تا۔ آخر علاج مرض بصورت تخویف اخروی۔
:سورۃ القارعہ
سورۃ القارعہ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 101نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے3نمبر پر ہے،اس سورۃ میں
11آیات ہیں جو 1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلے ہی لفظ القارعۃ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة القارعہ کا ماقبل سے ربط
گزشتہ سورت میں ظلم کفار پر شکوی تھا اب اس سورت میں ظالموں کے لیے تخویف اخروی ہے۔
القارعۃ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ قیامت کے دن نفخ صور کی شدید آواز کے علاوہ اجرام علویہ اور سفلیہ کے تصادم سے بھی نہایت ہولناک شور بپا ہوگا اس لیے اسے القارعۃ کہا گیا۔ یوم یکون۔۔الخ یہ القارعہ کا بیان ہے۔ قیام کے دن جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو خوف و ہراس سے نہایت پریشان ہوں گے اور پروانوں کی طرح ادھر ادھر منتشر ہوں گے جس طرح شمع پر پروانوں کا بےتحاشا اژدہام ہوتا ہے اور ان کی حرکات مختلف ہوتی ہیں گھبراہٹ کی وجہ سے۔ پہاڑ دھنی ہوئی روئی کے گالوں کی طرح ہوجائیں گے سورة الزلزال میں قیامت کے دن زمین کا حال بیان ہوا اور یہاں پہاڑوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ فاما من ثقلت۔ بشارت اخرویہ۔ قیامت کے دن جن کے اعمال صالحہ کا پلڑا بھاری ہوگا وہ نہایت خوش و خرم ہوں گے اور اپنی پسندیدہ عیش و عشرت سے لطف اندوز ہونگے۔ واما من خفت یہ تخویف اخروی ہے۔ اور جن لوگوں کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا ان کا ٹھکانا ہاویہ میں ہوگا۔ ہایہ دوزخ کے ناموں میں سے ہے۔ وما ادراک ماھیہ تمہیں کیا معلوم ہاویہ کیا چیز ہے وہ نہایت ہی سخت اور تند و تیز آگ ہے۔ ھیہ میں ہاء برائے سکتہ ہے۔
:سورۃ التکاثر
سورۃ التکاثر مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 102نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے16نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 8 آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلی آیت کے لفظ التکاثر کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة التکاثر کا ماقبل سے ربط
گزشتہ سورتوں میں تخویف وتبشیر اور زجر و شکوی کا ذکر تھا اب اس سورت سے پھر تزہید فی الدنیا کے مضمون کا ذکر شروع ہورہا ہے۔
الہاکم التکاثر التکاثر، کثرت مال اور کثرت تعداد پر فخر کرنا اور کثرت میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرنا۔ حتی زرتم المقابر موت سے کنایہ ہے یعنی تم اموال وافراد کی کثرت پر فخر کرتے رہو گے یہاں تک قبروں میں پہنچ جاؤ گے۔ کلا سوف کلا برائے ردع ہے اور اس میں تخویف اخروی کی طرف اشارہ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں چاہیے اور نہ یہ خیال ہی درست ہے کہ مال و اولاد کی کثرت سعادت کا باعث ہے یا کوئی قابل فخر چیز ہے۔ بہت جلد تمہیں یہ حقیقت معلوم ہوجائیگی کہ یہ تکاثر و تفاخر ایک فضول چیز تھی۔ ثم کلا سوف تعلمون تکرار تاکید کے لیے ہے اور ثم تعقیب ذکری کے لیے ہے۔ یعنی میں پھر یہ بات کہتا ہوں، مراد یہ ہے کہ موت کے بعد آنکھیں کھل جائیں گے اور حقیقت واضح ہوجائیگی۔ کلا لو تعلمون کلا بمعنی حقا ہے۔۔ یعنی اگر تم آئندہ حالات کو اس یقین کے ساتھ جانتے جس طرح تم دیگر احوال یقینیہ مثلاً احوال ماضیہ کو جانتے ہو تو تم کثرت مال و اولاد پر فخر نہ کرتے۔ لترون تخویف اخروی۔ عین الیقین تم ضرور بالضرور جہنم کو دیکھوگے۔ پھر کہتا ہوں تم جہنم کا آنکھوں سے مشاہدہ کرو گے اور تمہیں اس کا عین الیقین حاصل ہوجائے گا ۔ پھر یہ بھی سن لو کہ اس دن تم سے ساری نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ میں تم پر جو انعام کیے تم نے ان کا شکریہ ادا کیا یا نہ۔یعنی تفاخر و تکاثر پر زجر اور تخویف اخروی مذکورہے۔
:سورۃ العصر
سورۃ العصر مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 103نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے13نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 3 آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلی آیت کے لفظ العصر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
: سورة العصرکا ماقبل سے ربط
سورت سابقہ کے مقابلہ میں اس سورۃمیں تزہید فی الدنیا کا مضمون بطور ترقی ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی مال واولاد کی کثرت و زیادتی پر فخر نہ کرو، ذرا زمانے کی گردش کو تو دیکھو اور اپنے آباء و اجداد کا حال ملاحظہ کرو۔ انہوں نے مال واولاد پر فخر کر کے کیا حاصل کیا ؟ نقصان اور خسارہ کے سوا انہیں کیا نصیب ہوا ؟
والعصر زمانہ گواہ ہے کہ انسان سراسر خسارے میں ہے۔ زمانے کے مختلف ادوار کو دیکھئے اور ہر دوڑ کے بڑے سے بڑے بادشاہ کا حال ملاحظہ کیجئے کہ دنیا کی شان و شوکت اور دولت و سلطنت کا فخر و غرور کہاں گیا جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی چیز بھی ساتھ نہ گئی، نہ دولت نے ساتھ دیا نہ سلطنت نے نہ لاؤ لشکر نے۔ اس کے علاوہ العصر کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں۔ الا الذین یہ ماقبل سے مستثنی ہے۔ تمام انسان خسارے میں ہیں البتہ جن لوگوں میں یہ چار صفتیں موجود ہوں وہ خسارے میں نہیں ہیں، بلکہ فائدے میں ہیں اور وہ دنیا سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے بلکہ آخرت کا توشہ ساتھ لے کر جائیں گے۔ پہلا وصف امنوا وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، رسالت، قیامت اور دیگر تمام ضروریات دین پر ایمان رکھتے ہوں۔ دوسرا وصف وعلموا الصالحات وہ نیک کام کریں اسلام میں جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے ان کو بجا لائیں اور جن سے روکا گیا ہے ان سے باز رہیں۔ تیسرا وصف وتواصوا بالحق وہ آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں اور ایک دوسرے کو سچی بات یعنی توحید اور اسلام کے اخلاقی، معاشرتی اور دیگر احکام کی تبلیغ کریں۔
سورۃ الھمزۃ
سورۃ الھمزۃ مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 104نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے32نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 9 آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی آیت کے لفظ ھمزۃ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة الھمزہ کا ماقبل سے ربط
تزہید فی الدنیا کے بعد مال و دولت جمع کرنے والوں اور کثرت مال پر فخر و غرور کرنے والوں کے لیے تخویف اخروی۔
ویل ھمزۃ، غیبت کرنے والا اور پس پشت عیب جوئی کرنے والا۔ لمزۃ، منہ پر طعنہ دینے والا اور گالی گلوچ کرنے والا۔ یا ھمزۃ، منہ پر عیب جوئی کرنے والا اور لمزۃ، پس پشت عیب چینی کرنے والا اور چغلخور۔ الذی جمع نیک کاموں کی تو اسے توفیق ملی نہیں، برے کاموں میں منہمک ہے اور دولت جمع کرنے اور اسے گن گن کر رکھنے کا بہت شوق ہے۔ دولت جمع کرتا ہے اور اسے نیک کاموں میں خرچ نہیں کرتا اور دولت دنیا کو سامان بنا کر رکھتا ہے۔ ایحسب ان مالہ اخلدہ کیا اس کا خیال ہے کہ یہ دولت اسے ہمیشہ رکھے گی اور اسے دائمی زندگی عطاء کرے گی ؟ کلا، ہرگز نہیں، یہ دولت اسے ہمیشہ نہ رکھے گی۔ دلیل سورة عصر میں گذر چکی ہے، زمانہ گواہ ہے کہ دولت جمع کرنے والے نہ رہے۔ للینذن فی الحطمۃ یہ تخویف اخروی ہے اسے ضرور بالضرور حطمہ (بھرکس نکال دینے والی آگ) میں ڈالا جائے گا۔ تمہیں کیا معلوم حطمہ کیا چیز ہے ؟ نار اللہ آؤ میں تمہیں بتاؤ وہ اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو جلاتے جلاتے ان کے دلوں تک پہنچ جائیگی۔ انھا علیہم موصدۃ۔ان کو لمبے لمبے ستونوں کے اندر گھیر کر اوپر سے آگ کو بند کردیا جائے گا تاکہ اس کی حرارت تیز رہے اور ضائع نہ ہو یا عمد سے وہ میخیں مراد ہیں جو ان تختوں میں لگائی جائیں گی۔ جن سے جہنم کا منہ بند کیا جائے گا۔
:سورۃ الفیل
سورۃ الفیل مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 105نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے19نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 5آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلی ہی آیت کے لفظ اصحٰب الفیل سے ماخوذ ہے۔
:سورة الفیل کا ماقبل سے ربط
تزہید فی الدنیا کے سورة الہمزۃ میں تخویف اخروی بیان ہوئی اب اس سورت میں تخویف دنیوی کا ایک نمونہ ذکر کیا گیا ہے۔ دنیوی مال ومنال اور جاہ و جلال پر مغرور ہو کر ایمان و توحید کے مرکز کو مٹانے کی کوشش کرنے والوں کو مٹا دیا جائے گا ۔ دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ سورة العصر میں بیان کردہ چار اوصاف اپنے اندر بھر لو۔
الم تر۔۔الخ یہ تخویف دنیوی کا ایک نمونہ ہے۔ الم یجعل۔۔الخ استفہام تقریری ہے۔ ہم نے ان کی تدبیر بےکار کردی۔ وہ تو خانہ کعبہ کو ڈھانے کیلئے آئے تھے مگر ہم نے ان کو نہ صرف نکام کردیا بلکہ دنیوی عذاب سے ان کو تہس نہس کردیا۔ وارسل علیہم طیرا۔ ابابیل، طیرا سے حال ہے اور وہ ابالۃ کی جمع ہے۔ بمعنی جماعۃً ۔ اللہ تعالیٰ پرندوں کو ٹولیوں کی صورت میں مختلف سمتوں سے ان پر بھیجا۔ ترمیہم ہر پرندے کی چونچ اور پنجوں میں سخت مٹی کا ایک ایک سنگریزہ تھا جسے وہ ان پر پھینک رہے تھے۔ سجیل، بعض کے نزدیک سنگ گل کا معرب ہے۔ سنگریزے ایسے زور سے برس رہے تھے کہ سر میں لگتے اور نیچے سے جا نکلتے اور ساتھ ہی ان کے گوشت کے ٹکڑے بھی اڑ جاتے۔ فجعلہم کعصف ماکول یہاں تک کہ ان کو مویشیوں کھائے ہوئے چارے کی مانند کردیا۔ ان کے بدنوں کے اجزاء واعضاء اس طرح چورہ ہوگئے جس طرح مویشیوں کا بچا ہوا چارہ۔
:سورۃ قریش
سورۃ قریش مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 106نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے29نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 4آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی ہی آیت کے لفظ قریش کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة قریش کا ماقبل سے ربط
موضوع سورت تزہید فی الدنیا۔ مرکز توحید کو مٹانے والوں کو ہم نے مٹایا اور قریش کو سرما و گرما کے تجارتی سفروں کے مواقع فراہم کیے ان کو بھی چاہیے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کریں اور شرک نہ کریں اور مال و دولت کی محبت میں اندھے نہ ہوجائیں۔
لایلف قریش ۔۔تا۔۔ الفهم رحلة الشتاء و الصيف یعنی قریش نے موسم سرما اور گرما کے تجارتی سفروں کیلئے دوسرے ملکوں سے جو معاہدے کر رکھے ہیں ذرا ان کی طرف تو دیکھو کہ وہ طلب مال کیلئے موسم سرما میں یمن کی طرف اور موسم گرما میں ملک شام کی طرف سفر کرتے ہیں اس بنا پر کہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کردیا۔ فلیعبدوا بیت اللہ کی بدولت ان کو یہ تمام عزت و شرف حاصل ہے۔ اس لیے اس گھر کے مالک کو ان کی عبادت کرنی چاہیے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ الذی اطعمہم صرف اس اللہ کی عبادت کریں جس نے ان کے لیے رزق کے اسباب مہیا کیے موسم سرما میں ایک طرف سے کماتے ہیں اور موسم گرما میں دوسری طرف سے اور اس نے ان کو بہت خطرے سے محفوظ رکھا یعنی اصحاب الفیل کے حملے سے یا مطلق خوف دشمن مراد ہے۔ بیت اللہ کے ادب و احترام کی وجہ سے حدود حرم میں کوئی ان پر حملہ آور نہیں ہوتا۔
:سورۃ الماعون
سورۃ الماعون مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 107نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے17نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 7آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ آخری آیت کے آخری لفظ الماعون کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا۔
:سورة الماعون کا ماقبل سے ربط
موضوع تزہید فی الدنیا سے متعلق ہے۔ تکذیب قیامت، یتیموں اور مسکینوں پر خرچ نہ کرنے اور نمازوں میں ٖغفلت کرنے پر زجر۔
ارایت۔۔الخ رویت سے رویت قلبی اور معرفت مراد ہے اور استفہام سے تعجیب و تشویق مقصود ہے۔ کیا آپ اس شخص کو جانتے ہیں جو قیامت کا انکار کرتا ہے حالانکہ قیامت کا ثبوت دلائل قاطعہ سے ہوچکا ہے اس کا حال واقعی قابل تعجب ہے۔ فذلک۔۔الخ یہ شخص نہ صرف قیامت ہی کا انکار کرتا ہے بلکہ یتیموں کو بھی دھتکارتا ہے غریبوں اور مسکینوں کو خود کھانا کھلانا تو درکنار دوسروں کو بھی اس کی ترغیب نہیں دیتا تو ایسے لوگوں کو نمازوں کا کیا فائدہ اور پھرصلوۃ بھی وہ کما حقہ نہیں پڑھتے، اور وہ صلوۃ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر کر اور اجر وثواب کی امید پر نہیں پڑھتے بلکہ محض ریاکاری اور دنیوی مصلحتوں کے لیے پڑھتے ہیں۔ نماز سے ان کا مقصود رضائے الٰہی نہیں۔ فویل ۔۔الخ تو ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت اور ویل ہے جو صلوۃکی حقیقت اور اس کے اصل مقصد سے غافل ہیں۔غفلت برتتے ہیں مشرک امام کے پیچھے صلوۃ ضائع کر دیتے ہیں۔ الذین ھم یراءون وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اور دنیوی مصلحتوں کے تحت نماز پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضاء مقصود نہیں ہوتی۔ ویمنعون الماعون الماعون، بالکل معمولی اور ادنی سی چیز مثلاً سوئی، پانی، نمک وغیرہ۔اور وہ ایسے بد اخلاق ہیں کہ ایک حقیر سی چیز بھی کسی کو استعمال کے لیے نہیں دیتے۔
سورۃ الکوثر
سورۃ الکوثرمکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 108نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے15نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 3آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ انآ اعطینٰک الکوثر کے لفظ الکوثر کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة الکوثر کا ماقبل سے ربط
تزہید فی الدنیا کے بعد مضمون توحید کا ذکر۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیلئے تسلی اور شرک اعتقادی وفعلی کی نفی۔ مشرکوں کے لیے تخویف، یہ سورت، سورت اعلی کے دونوں مضمونوں میں سے ایک یعنی توحید اور نفی شرک کے ساتھ متعلق ہے۔
انا اعطینک الکوثر الکوثر سے مراد حوض کوثر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہوگا اور آپ اس سے اپنی امت کو سیراب کریں گے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا۔ قیامت کے دن آپ کو حوض کوثر کا ملنا متواترات میں سے ہے۔ فصل۔۔الخ یہ ماقبل پر مرتب ہے۔ چونکہ ہم نے آپ کو الکوثر عطا کیا ہے اس لیے آپ بطور شکر نعمت محض ہماری رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے نماز پڑھیں اور حاجات و مصائب میں صرف مجھے پکاریں اور میرے سوا کسی اور کو نہ پکاریں۔ یہ شرک اعتقادی کی نفی کی طرف اشارہ ہے وانحر ۔ یہ شرک فعلی کی نفی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے نذر و نیاز دینا اور اسی کے نام کی قربانی کرنا غیر اللہ کے نام کی نہ کرنا۔
:سورۃ الکافرون
سورۃ الکافرون مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 109نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے18نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 6آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔
:سورة الکافرون کا ماقبل سے ربط
سورت کا موضوع توحید اور نفی شرک ہے۔ جس طرح ناصح وعظ و نصیحت میں پورے افہام و تفہیم اور تفصیل و توضیح کے بعد کہتا ہے کہ مسئلہ تو میں نے واضح کردیا ہے اگر اب بھی نہیں مانتے تو میرا راستہ یہ ہے اور تمہارا راستہ وہ ہے۔ اسی طرح یہاں کہا گیا کہ اتنے بیانات کے بعد بھی باز نہیں آتے ہو۔تو تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین۔
قل یا ایہا الکفرون ، لا اعبد ما تعبدون ۔ ماتعبدون میں ما سے معبودان باطل مراد ہیں۔ جن کی مشرکین اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے۔ ما اعبد میں ما سے معبود حقیقی مراد ہے جس کی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص عبات بجا لاتے تھے فرمایا اگر اس طرح واضح و تفصیل اور ایسے دلائل قاطعہ کے باوجود بھی مشرکین مسئلہ توحید کو نہیں مانتے تو آپ اعلان فرما دیں اے کفار، تم اپنی راہ پر چلو، میں اپنی راہ پر چل رہا ہوں۔ تم جن باطل اور خود ساختہ معبودوں کی پوجا کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرسکتا اور نہ تم ہی اپنے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کو تیار ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ ولا انا عابد تکرار تاکید کے لیے ہے یا پہلے زمانہ حال و استقبال کا ذکر تھا اور اب زمانہ ماضی کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اب اور آئندہ ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے باطل معبودوں کی عبادت کروں اور تم صرف اللہ کی عبادت کرو اور نہ گزشتہ زمانہ میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تمہارے باطل معبوددوں کی عبادت کی ہو اور تم نے ان معبودوں کی عبادت چھوڑ کر صرف الہٰ واحد کی عبادت کی ہو۔ لکم دینکم یہ سلام متارکہ کا اعلان ہے۔ اگر تم نہیں مانتے ہو تو تم اپنے دین شرک پر چلتے رہو اور میں اپنے دین توحید پر چلتا ہوں، بہت جلد دونوں فریق میں اور تم اپنا اپنا انجام دیکھ لیں گے۔
:سورۃ النصر
سورۃ النصر مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 110نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے114نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 3آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی آیت اِذَا جَاء نَصْرُ اللّٰهِ کے لفظ نصر کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة النصر کا ماقبل سے ربط
تسلیہ برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی جب تم صاف صاف ان کو کافر کہہ دو گے اور سلام متارکہ کا اعلان کروگے تو میں تمہیں فتح دوں گا۔
اذا جاء۔۔الخ جب اللہ کی مدد اور فتح کی بشارت آگئی تو تم اس کی برکات دیکھ لوگے۔ ورایت الناس۔۔الخ تم دیکھو گے کہ لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ فتح و نصرت کی برکات میں سے ایک ہے۔ فسبح۔۔الخ یعنی خود وہ کام کرو جو فتح و نصرت کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کو شریکوں سے پاک سمجھو اور تمام صفات کارسازی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت کرو۔ اور اس سے استغفار کرو، بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ یا رایت، جاء پر معطوف ہے اور فسبح الخ جزاء شرط ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصر آچکی اور تم نے لوگوں کو فوج در فوج اسلام میں داخل ہوتے دیکھ لیا تو اب شکر نعمت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تنزیہ کرو۔ مدد سے صلح حدبیبہ اور فتح سے فتح مکہ مراد ہے۔ فتح مکہ کے دن لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے تھے۔
:سورۃ اللھب
سورۃ اللھب کی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 111نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے6نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 5آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔پہلی آیت کے لفظ لھب کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔
:سورة اللہب کا ماقبل سے ربط
اگر یہ معاندین ان بینات کے باوجود بھی نہیں مانتے تو ان کو سلام متارکت کرو۔ اللہ آپ کو فتح دے گا اور آپ کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا۔ اس سورۃ میں ہلاکت کا ایک نمونہ بتایا۔
تبت۔۔الخ ۔ ابولہب اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علی ہو سلم کو قول و فعل سے سخت ترین ایذاء دیتے تھے۔ یہ ابو لہب کیلئے تباہی و بربادی کی بد دعا ہے اور و تب اس کی تباہی کی خبر ہے۔ ما اغنی اس کا مالک اور اس کا جاہ و حشم اس کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکا۔ ماکسب، دنیوی عز و جاہ یا اعمال مشرکانہ غیر اللہ کی دعا و پکار وغیرہ۔ سیصلی نارا۔۔الخ، یہ تخویف اخری ہے۔ دنیا میں ابو لہب کیلئے ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں اسے بھڑکتی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ فی جیدھا مسد، بٹی ہوئی رسی خواہ کسی چیز کی ہو۔یا مطلب یہ ہے کہ جہنم میں اس کے گلے میں پھندا ڈالا جائے گا۔
:سورۃ الاخلاص
سورۃ الاخلاص مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 112نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے22نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 4آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔ الاخلاص اس سورة کا محض نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس میں خالص توحید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں تو بالعموم کسی ایسے لفظ کو ان کا نام قرار دیا گیا ہے جو ان میں وارد ہوا ہو، لیکن اس سورة میں لفظ اخلاص کہیں وارد نہیں ہوا ہے، اس کو یہ نام اس کے معنی کے لحاظ سے دیا گیا ہے، جو شخص بھی اس کو سمجھ کر اس کی تعلیم پر ایمان لے آئے گا وہ شرک سے خلاصی پا جائے گا۔
:سورة الاخلاص کاماقبل سے ربط
یہی وہ مسئلہ توحید کا کھلم کھلا اعلان ہےجس کی وجہ سے فتح نصیب ہوئی اور دشمن ہلاک ہوا۔
قل ھواللہ ھو ضمیر شان ہے۔ اللہ احد اللہ ایک ہے وہی سب کا حاجت روا اور کارساز ہے۔ یعنی اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جس کی طرف لوگ حاجات میں دوڑیں اور جس کی پناہ ڈھونڈیں۔ اللہ الصمد الصمد وہ بےنیاز ذات جس کو کسی کی حاجت نہ ہو مگر ساری کائنات اس کی محتاج ہو۔ لم یلد اس سے کوئی پیدا نہیں ہوا، اس کا کوئی ولد اور نائب نہیں یعنی اس نے اختیارات کسی کے حوالے نہیں کر رکھے۔ ولم یولد وہ حادث نہیں کہ کسی سے پیدا ہوا ہو وہ ازلی ہے۔ ولم یکن لہ کفوا احد پہلے سب پر اللہ کی برتری اور عظمت کا ذکر تھا اب یہاں ہمسر کی نفی کی گئی ہے کہ اس سے کسی کا برتر ہونا تو درکنار ساری کائنات میں اس کے برابر بھی کوئی نہیں۔ اس ساری کائنات میں اس کے سوا کوئی الٰہ، کارساز، حاجت روا اور دعا و پکار کے لائق نہیں۔
:سورۃ الفلق
سورۃ الفلق مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 113نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے20نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 5آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔
:سورة الفلق کا ماقبل سے ربط
جب آپ مسئلہ توحید کو اس طرح واشگاف کریں گے اور کھلم کھلا بیان فرمائیں گے تو دشمن ایذاء کے دوسرے حربوں کے علاوہ آپ پر جادو کرنے کا حربہ بھی استعمال کریں گے اس لیے آپ ان دونوں سورتوں کی اکثر تلاوت کیا کریں آپ پر جادو کا اثر نہ رہے گا۔
قل اعوذ۔۔الخ الفلق، چیر کر اندر سے کوئی چیز نکالنا۔ رات کے اندھیرے سے صبح کا اجالا ظاہر کرنا۔ فالق الاصباح (انعام رکوع 12) ۔ یا دانے کو پھاڑ کر اس سے پودا اگانا۔ فالق الحب والنوی (ایضا) ۔ جو ذات پاک صفت فلق کی مالک ہے میں اس کی پناہ ڈھونڈتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ ومن شر غاسق غاسق، اندھیری رات۔ اذا وقت یعنی اندھیری رات چھا جائے تو اس میں جو شر و ایذاء ہے اس سے بھی رب فلق کی پناہ ڈھونڈتا ہوں۔ ومن شر النفثت گرہوں میں پھونکنے والیوں سے جادو کرنے والی عورتوں مراد ہیں۔ عام طور پر عورتیں ہی جادو کا کام کرتی ہیں اس لیے ان کا ذکر فرمایا۔ یا اس سے لبید بن اعصم یہودی کی بیٹیاں مراد ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا۔ ومن شر حاسد اذا حسد اور ہر حاسد اور زوال نعمت کی آرزو کرنے والے کے شر سے بھی پناہ مانگو۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی صرف ایک صفت ذکر کی گئی ہے اور جن چیزوں سے استعاذہ مقصود ہے ان میں پہلی چیز عام ہے یعنی شر ما خلق، اور پھر اس کے بعد تین مخصوص چیزوں کا ذکر ہے، غاسق، نفاثات اور حاسد اور سورة الناس میں اس کا عکس ہے۔
:سورۃ الناس
سورۃ الناس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 113نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے20نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 5آیات ہیں جو1 رکوع پر مشتمل ہیں۔
:سورة الناس کا ماقبل سے ربط
اس سورت میں توحید کے ان تین مرتبوں کی طرف اشارہ ہے جو سورة انعام، حدید اور حشر میں مذکور ہوئے ہیں۔
رب الناس پہلا مرتبہ سب کا خالق و مربی۔ ملک الناس دوسر مرتبہ تخت شاہی پر خود ہی مستوی ہے۔ الہ الناس تیسرا مرتبہ حاجات و مصائب میں پکارے جانے کے لائق وہی ہے۔ من شر الوسواس الوسواس اسم مصدر ہے، مراد شیطان ہے بطور مبالغہ۔ شیطان، انسان کا اس قدر دشمن ہے اور اس کے دل میں وسوسے ڈالنے میں اس قدر منہمک رہتا ہے گویا وہ سراپا وسوسہ ہے۔ الخناس، چھپ جانے والا اور پیچھے ہٹ جانے والا۔ چھپ کر انسان کو گمراہ کرتا اور اس کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ کوئی بندہ اللہ کو یاد کرے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب غافل ہوجائے تو قریب آجاتا ہے۔ الذی یوسوس یہ ماقبل کی تفصیل ہے۔ وہ شیطان جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے اور برے خیالات ڈالتا ہے۔ من الجنۃ والناس یہ الذی یوسوس کا بیان ہے ۔ وسوسہ ڈالنے والا خواہ جن ہو خواہ انسان۔ جن چھپ کر وسوسہ ڈالتا ہے اور انسانی شیطان علانیہ سامنے آ کر دین اسلام اور توحید کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔