|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ القلم

سورۃ القلم مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 68 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے2نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 52 آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس کا نام سورة ن بھی ہے اور القلم بھی۔ دونوں الفاظ سورت کے آغاز ہی میں موجود ہیں۔اس میں تین مضامین بیان ہوئے ہیں۔ مخالفین کے اعتراضات کا جواب ان کو تنبیہ اور نصیحت، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر و استقامت کی تلقین۔

: سورة القلم کا ماقبل سے ربط

 سورة تبارک الذی میں ثابت کیا گیا تھا کہ برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس صفت میں اس کا کوئی شریک نہیں اب سورة قلم میں خبردار کیا گیا کہ مشرکین کوشش کریں گے کہ آپ اس مسئلہ میں نرم ہوجائیں، تاکہ وہ بھی آپ کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں یا یہ کہ وہ نرم ہو رہے ہیں تاکہ آپ بھی نرم ہوجائیں ان کا مقصد یہ ہے کہ آپ بیشک اللہ تعالیٰ کو برکات دہندہ مانیں، مگر ان کے معبودوں کا ذکر نہ کریں۔ مگر آپ اس میں ہرگز نرم نہ ہوں اور مداہنت نہ کریں۔  ودوا لو تدھن فیدھنون

 ن والقلم وما یسطرون۔ تا۔ فلا تطع المکذبین۔ زجر برائے مشرکین اور تسلیہ برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ اہل علم اس پر شاہد ہیں کہ آپ مجنون نہیں ہیں، کیونکہ ایسے علوم و معارف کسی مجنون کی زبان سے نہیں نکل سکتے۔ ان مشرکین کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ دیوانہ کون ہے۔  ودوا لوتدھن فیدھنون  یہ سورت کا دعوی ہے۔ مشرکین کی خواہش ہے کہ آپ نرمی اختیار کریں تو وہ وہ بھی نرم ہوجائیں یا یہ کہ وہ نرمی اختیار کر رہے ہیں تاکہ آپ بھی نرم ہوجائیں۔  ولا تطع کل حلاف مھین۔ تا۔ سنسمہ علی الخرطوم  لیکن آپ ان کی کوئی بات نہ مانیں اور مسئلہ کی تبلیغ کرتے ہیں اور صاف صاف ان کے معبودوں کے برکات دہندہ ہونے کی نفی کرتے رہیں۔  انا بلوناھم کما بلونا اصحب الجنۃ۔ تا۔ انا الی ربنا راغبون  تخویف دنیوی کا ایک نمونہ۔ جس طرح ان باغ والوں کے خود ساختہ برکات دہندگان ان کے باغ کو تباہی سے نہ بچا سکے اسی طرح اہل مکہ اپنے خود ساختہ برکات دہندہ معبودوں کو پکاریں کہ وہ ان سے قحط کو رفع کریں جو ہم نے ان پر مسلط کیا ہے۔  کذلک العذاب۔۔الخ یہ اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ یہ عذاب تو دنیا میں ہے اور آخرت کا عذاب اس سے بڑا ہے۔  ان للمتقین۔۔الخ  بشارت اخرویہ برائے مومنین۔  افنجعل المسلمین کالمجرمین۔ تا۔ فلیاتوا بشرکاہ م ان کانوا صدقین  زجر برائے مشرکین۔ کیا ہم مسلمانوں کو ان مجرموں کے برابر کردیں گے ؟ ہرگز نہیں۔ کیا ان کے پاس کوئی کتاب ہے جس میں ان کی مرضی کی باتیں تحریر ہیں یا ہم نے ان سے کوئی وعدے کر رکھے ہیں یا ان کے شرکاء ہیں تو وہ انہی کا کوئی کمال دکھائیں ؟ کچھ نہیں، ان میں سے کوئی بات بھی نہیں۔  یوم یکشف عن ساق۔ تا۔ وھم سالمون  یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن مشرکین کو سجدہ کرنے کو کہا جائے گا تو وہ سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے، مگر سجدہ نہیں کرسکیں گے، دنیا میں جب ان کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا تو وہ سجدہ نہیں کرتے تھے۔  فذرنی ومن یکذب۔ تا۔ ان کیدی متین  مجھے چھوڑو ! میں ان جھٹلانے والوں کو مزید مہلت دوں گا اور پھر ان کو اچانک پکڑ لوں گا۔  ام تسئلہم اجرا۔ ۔الخ  یہ زجر ہے۔ کیا آپ ان سے اجرت مانگتے ہیں جسے وہ بوجھ سمجھتے ہیں اس لیے نہیں مانتے یا ان کے پاس غیبی علوم ہیں جن سے ان کے معبودوں کا برکات دہندہ ہونا ثابت ہوتا ہے اس لیے وہ قرآن کو نہیں مانتے اور اس سے بےنیاز ہیں ؟  فاصبر لحکم ربک۔ تا۔ فجعلہ من الصالحین۔ آخر میں تسلیہ برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح ابتدا میں تھا۔ فرمایا آپ مشرکین کی تکلیفوں سے تنگ آ کر عجلت نہ کریں اور ابھی صبر و تحمل سے کام لیں اور ہمارے احکام کا انتظار کریں۔ مچھلی والے (یونس (علیہ السلام)) کی طرح جلدی نہ کریں۔  وان یکاد الذین کفروا۔ الی اخرہ  یہ سورت کی ابتداء سے متعلق ہے۔ جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے اور اس کی تبلیغ فرماتے ہیں تو مشرکین غضب آلود نگاہوں سے گھور کر آپ کو دیکھتے تاکہ آپ ڈر کر تبلیغ چھوڑ دیں اور پھر یہ پراپیگنڈا بھی کرتے ہیں کہ (عیاذا باللہ) آپ مجنون ہیں، حالانکہ یہ قرآن ساری دنیا کے لیے پند و نصیحت ہے ایسی کتاب کسی دیوانے سے صادر نہیں ہوسکتی جو علم و حکمت اور عبرت و موعظت سے لبریز ہو۔

:مختصر ترین خلاصہ

زجر، تسلیہ، دعوائے سورۃ، تخویف دنیوی، بشارت، تخویف اخروی، تعلق انتہاء بابتداء