سورۃ الطلاق مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 65 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے65نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 12آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورة کا نام ہی الطلاق نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس طلاق ہی کے احکام بیان ہوئے ہیں۔اس سورۃکے پہلے رکوع میں طلاق دینے کے احکام بتائے گئے پھر طلاق کی صورت میں عدت کے شرعی احکام مذکور ہوئے مثلا یہ کہ جب طلاق دی جائے تو اس پر دو عادل آدمیوں کی گواہی قائم کرنی چاہیے اور بتایا گیا کہ جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو وہ عدت کیسے گزاریں اور حاملہ عورت کی عدت کیا ہے وغیرہ اور اس رکوع میں رزق کے معاملہ میں اللہ تعالی پر توکل کا عظیم درس دیا گیا ہے ۔جبکہ اس کے دوسرے رکوع میں بتایا گیا کہ اللہ نے ذکر نازل کیا ہے جو رسول تمہیں سناتے ہیں تاکہ وہ مومنوں کو تاریکی سے نکال کر جنت کی طرف لائیں اوراللہ رب العزت کا سات آسمان اور سات زمین پیدا کرنا بتایا گیا۔
: سورة الطلاق کا سورۃ التغابن سے ربط
اس سورت کا تعلق سورة تغابن کے آخری حصہ کے ساتھ ہے۔ وہاں مومنوں کے لیے امور انتظامیہ بیان کیے گئے تھے، تاکہ وہ اپنے جماعتی نظم و نسق کو درست کر کے کافروں کا بخوبی مقابلہ کرسکیں۔ اس کے بعد سورة الطلاق میں خانگی امور انتظامیہ ذکر کیے گئے تاکہ گھروں کا انتظام درست ہوجائے اور خانگی تنازعات باہم عداوت اور مخالفت کا باعث نہ بن جائیں۔
یا ایہا النبی اذا طلقتم النساء۔ تا۔ قد جعل اللہ لکل شئی قدرا طلاق کے بعد وجوب عدت کا بیان، معتدہ (عدت گزارنے والی )کو گھر سے نکالنے کی ممانعت، طلاق کے بعد مطلقہ کو اچھے طریقہ سے دوبارہ اپنے پاس رکھنے یا اچھے طریقہ سے چھوڑ دینے کا بیان یعنی کسی حال میں عورت کو تنگ کرنا مقصود نہ ہو۔ معتدہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت اس لیے کی گئی کہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پیٹ میں اپنے خاوند کا حمل ہو۔ اگر اسے گھر سے نکلنے کی اجازت دیدی جائے تو حمل ظاہر ہونے پر تہمت آنے کا اندیشہ ہے۔ واللائی یئسن من المحیض۔۔الخاس آیت میں عدت کی دو میعادوں کا بیان ہے۔ ایک تین ماہ اور دوم وضع حمل۔ ہر میعاد دو دو قسم کی عورتوں کے لیے ہے۔ پہلی میعاد ان دو عورتوں کے لیے (1) آئسہ یعنی وہ عورت جس کو بڑھاپے کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو۔ (2) وہ عورت جس کو ابھی حیض آنا شروع ہی ہوا ہو، خواہ صغیرہ ہو یا بالغہ۔ اسی طرح دوسری میعاد یعنی وضع حمل ان دو عورتوں کے لیے (1) وہ حاملہ جس کو حالت حمل میں طلاق ہوگئی (2) وہ حاملہ جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ ان ارتبتم ای فی مقدار عدتہن۔ یعنی اگر ان کی مقدار عدت میں تمہیں شک ہو اور والمطلقات یتربصن بانفسہن ثلثۃ قروء سے تم ان کی عدت نہیں سمجھ سکے ہو تو سن لو ان کی عدت تین ماہ ہے۔ ومن یتق اللہ جو شخص اللہ کے احکام میں اس سے ڈرے اور ان کو بجا لائے تو اللہ اس کے کام کو آسان کردے گا اور ایسے نیک کاموں کی توفیق عطا فرمائیگا ذلک امر اللہ یہ مذکورہ احکام اللہ نے تم پر نازل فرمائے ہیں جو شخص اللہ سے ڈرے اور اس کے احکام کی اطاعت کرے، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرمائے گا اور اسے بہت بڑا اجر دے گا۔ اسکنوھن معتدہ کے لیے انقضاء عدت تک رہائش کا انتظام خاوند کے ذمہ ہے۔ خاوند اپنی مالی حیثیت کے مطابق رہائش کا انتظام کرے اور اس پر لازم ہے کہ اسے تنگ نہ کرے اور تکلیف نہ دے تاکہ وہ مکان چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ معتدہ رجعیہ ہو یا بائنہ اس کا نفقہ بھی خاوند کے ذمہ اور سکنی بھی۔ وان کن اولات حمل اگر معتدہ حامل ہو تو اسے خرچ بھی دو ۔ فان ارضعن لکم مطلق حاملہ وضع حمل کے بعد اگر تمہارے بچے کو دودھ پلاتی اور اس کی پرورش کرتی ہے تو اسے اس کا معاوضہ ادا کرو اور آپس میں حکم شریعت کے مطابق معاملہ کرو نہ باپ کنجوسی سے کام لے اور نہ والدہ جائز حق سے زائد کا مطالبہ کرے اور اگر خاوند تنگدس ہو اور والدہ اس کی وسعت سے زیادہ معاوضہ طلب کرے، تو اسے چھوڑو، دودھ پلانے والیاں تمہیں اور بہت مل جائیں گی۔ لینفق ذو سعۃ جو شخص حوشحال ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جو تنگدست ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں دیتا۔ اگر کوئی تنگدست ہو تو ہوسکتا ہے اللہ کے رز میں فراخی عطا فرما دے۔ وکاین من قریۃ خانگی امور انتظامیہ طلاق، عدت، سکنی، نفقہ اور رضاعت کے احکام بیان کرنے کے بعد تخویف دنیوی و اخروی سنائی گئی۔ تاکہ احکام الہیٰ سے بغاوت کرنے والوں کو اپنے انجام بد کا علم ہوجائے اور نیک لوگ بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔ فرمایا بہت سی بستیاں ایسی تھیں جن کے باشندوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے احکام سے سرکشی کی اور روگدانی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور ان کو نہایت دردناک سزا دی اس طرح انہوں نے اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار دین و دنیا کا خسارہ اٹھایا اور پھر آخرت میں بھی اللہ نے ان کے لیے شدید ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ فاتقوا اللہ اے عقلمند مومنین ! اللہ سے ڈرو اور اس کے احکام کی اطاعت کرو۔ اس نے تمہاری رہنمائی کے لیے ایک عظیم الشان کتاب نازل فرمائی ہے جو سراپا نصیحت ہے اور ایک عظیم الشان رسول بھیجا ہے جو اس کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ کر سناتا ہے تاکہ مومنین صالحین کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر رشد و ہدایت کی روشنی سے ہمکنار کرے۔ ومن یومن باللہ یہ مومنین کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن میں ہر اعلی مشروب کی ندیاں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان میں رہیں گے وہاں انہیں جو رزق ملے گا وہ بھی نہایت عمدہ، لذیذ اور اعلی درجہ کا ہوگا۔ اللہ الذی یہ توحید پر عقلی دلیل ہے۔ اس سورت کے آخر میں توحید پر عقلی دلیل ہے۔ اس سورت کے آخر میں توحید کا بیان آگیا تاکہ دیگراحکام کے ساتھ ساتھ توحید کی طرف بھی توجہ باقی رہے۔ کیونکہ اصل مقصود یہی ہے۔ زمین و آسمان اور ساری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور زمین و آسمان کے درمیان وہی متصرف و مختار ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے۔ لتعلموا تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے پر حاوی ہے۔ لہٰذا وہی سب کا کارساز اور حاجت روا ہے۔ ومن الارض مثلھن جیسے آسمان سات ہیں اسی طرح زمینیں بھی سات ہیں۔لیکن سات آسمان تو تہ بہ تہ ہیں کیونکہ آسمانوں کے لیے قرآن میں طباقا وارد ہے لیکن زمینوں کی کیا کیفیت ہے اسے اللہ بہتر جانتا ہے۔
:مختصر ترین خلاصہ
طلاق، عدت، نفقہ اور سکنی کے مسائل، تخویف دنیوی، بشارت، توحید پر عقلی دلیل، اللہ تعالیٰ جو ساری کائنات کا خالق ہے، وہی قادر مطلق عالم الغیب اور کارساز ہے، اور کوئی نہیں۔
Download PDF