سورۃ المنافقون مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 63 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے104نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 11آیات ہیں جو2 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام پہلی آیت اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ سے ماخوذ ہے۔ یہ اس سورة کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں منافقین ہی کے طرز عمل پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ سورۃکے پہلے رکوع میں منافقین کی منافقانہ کارروائیوں اور خفیہ اسلام دشمن چالوں سے پردہ اٹھایا گیا کہ وہ کس طرح جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنے نفاق کو مخفی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی مجالس میں رسول اللہ کی شان میں گستاخی اور بے باکیاں کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جائے کہ اور رسول اللہ تمہاری بخشش کی دعا فرمائیں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں گویا ان کے نزدیک دعا رسول کی کوئی اہمیت نہیں ہے اللہ تعالی نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لیے کوئی بخشش نہیں ہے اور ساتھ ہی اللہ رب العزت نے فرمایا کہ عزت کے حقدار اللہ کے اورپھر اسکا نبیﷺ پھر اہل ایمان ہیں ۔جبکہ دوسرے رکوع میں فرمایا گیا کہ اے مومنو !اموال و اولاد کی محبت میں کھو کر ذکر الہی سے غافل نہ ہو جاؤ اور موت کی گھڑی آنے سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو کیونکہ جب موت آتی ہے تو اس وقت انسان چاہتا ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے کی مہلت دی جائے مگر اس وقت مہلت نہیں ملتی ۔
: سورة المنافقون کا سورۃ الجمعہ سے ربط
سورة جمعہ میں فرمایا تھا کہ خطبہ جمعہ میں حاضر ہو کر اللہ کے نازل کردہ مسائل سنو۔ اب سورة منافقون میں ان منافقوں کا شکوی کیا گیا جو کہتے تھے پیغمبر کے ساتھیوں پر خرچ نہ کرو اور جو عزت والے ہیں وہ ذلت والوں کو مدینہ سے نکال دیں گے نیز مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ خود خرچ کریں اور منافقوں کے محتاج نہ ہوں۔
اذا جاءک المنافقون۔۔الخ منافقوں پر شکویٰ، ان کا دعوائے ایمان زبانی ہے اور وہ سراسر جھوٹے ہیں۔ اتخذوا ایمانہم جنۃ۔ تا۔ فہم لایفقہون منافقوں پر زجر اور ان کی خباثت کا بیان۔ وہ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا یقین دلاتے اور اپنے بن کر لوگوں کو اللہ کے دین سے روکتے ہیں۔ واذا رایتہم تعجبک اجسامہم۔۔الخ یہ بھی زجر ہے۔ وہ بظاہر تندرست و توانا اور خیر خواہ معلوم ہوتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ بدترین دشمن ہیں ان سے بچ کر رہیے۔ واذا قیل لہم تعالوا۔ ۔۔الخ جب ان سے کہا جاتا ہے آؤ توبہ کرلو، اللہ کا پیغمبر بھی تمہارے لیے استغفار کرے گا۔ تو غرور و استکبار سے سر ہلاتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہ کہو۔ ھم الذین یقولون لا تنفقوا۔ تا۔ لیخرجن الاعز منہا الاذل یہی وہ باتیں ہیں جو انہوں نے کہی تھی اور پھر ان سے صاف مکر گئے تھے جس کی وجہ سے اللہ نے سورت کی ابتداء میں فرمایا واللہ یشہد ان المنافقین لکذبون تمہید کے بعد اصل مقصود کا بیان یعنی منافقین پر دو شکوے ہیں۔ پہلا شکوی یہ ہے کہ منافقین کا خیال ہے کہ یہ مسلمان ہمارے دست نگر ہیں، اگر ہم ان کی مالی امداد بند کردیں گے تو وہ خود بخود پیغمبر (علیہ السلام) کو چھوڑ دیں گے۔ دوسرا شکوی یہ ہے کہ ان منافقین کی خباثت اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ وہ مسلمانوں کو نہایت حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ان کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ وللہ خزائن السموات والارض۔ وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین منافقین کی ان باتوں کا جواب ہے۔ دولت کے خزانے اللہ کے تصرف میں ہیں۔ اگر منافقین، مومنوں پر خرچ کرنا بند کردیں، تو اللہ تعالیٰ مومنوں کو دیگر وسائل سے دولت عطا فرما دے گا۔ اور عزت و ذلت بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور اللہ کے یہاں معزز اس کا رسول اور مومنین ہی ہیں۔ یا ایہا الذین امنوا لا تلہکم اموالکم الی آخر السورۃ۔ مومنوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور ضمنًا زجر ہے۔
:مختصر ترین خلاصہ
منافقوں پر زجریں اور شکوے اور ان کے احوال خبیثہ کا بیان۔ مومنوں کو زجر کہ تم اپنے بھائی پر خود کیوں خرچ نہیں کرتے ہو اور منافقوں کے کیوں محتاج ہوتے ہو۔
Download PDF