سورۃ القمرمکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 54 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے36نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 62آیات ہیں جو3رکوع پر مشتمل ہیں۔ پہلی ہی آیت کے جملے وانْشَقَّ الْقَمَر سے ماخوذ ہے۔اس سورۃ کے پہلے رکوع میں معجزہ شق القمر کا بیان ہے اور بتایا گیا ہے کہ معجزہ شق القمر قرب قیامت کی نشانی ہے، مگر کفار اسے دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے پھر قیام قیامت کی منظر کشی ہے کہ کس طرح لوگ قبروں سے نکل کرمیدان حشر کی طرف چلیں گے کسی کو رکنے کی مجال نہیں ہوگی پھر قوم نوح کے انکار اور ان کی تباہی کا بیان ہے کہ کس طرح انہوں نے نوح علیہ السلام کی گستاخی کی تو ان پر اللہ تعالی کی پکڑا گی اور ان کو پانی میں غرق کردیا گیا۔پھر قوم عاد کا ذکر ہے کہ وہ کیسے تباہ کیے گئے۔ دوسرے رکوع میں قوم ثمود اور قوم لوط کی ہلاکت کا ذکر ہے اور بار بار بتایا گیا ہے کہ اللہ نےقرآن کو آسان کر دیا ،ہے کوئی نصحیت حاصل کرنے والا۔ جبکہ آخری رکوع میں فرعون کی سرکشی اور تباہی کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح و نصرت کی بشارت دی گئی ہے جو میدان بدر میں پوری ہوئی۔
: سورة القمر کا سورۃ النجم سے ربط
سورة النجم میں یہ مذکور تھا کہ اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو اور کسی کو اس کی بارگاہ میں شفیع غالب نہ سمجھو اب سورة القمر میں اس کی علت اور دلیل ذکر کی گئی ہے یعنی اس لیے کہ کارساز اور ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ سورة قمر کا یہ دعوی سورت کے آخر میں انا کل شیء خلقناہ بقدر میں مذکور ہے۔ سورة قمر سے لے کر سورٔ حدید تک ہر سورت کا دعوی اس کے آخر میں مذکور ہے۔
اقتربت الساعۃ وانشق القمر تمہید برائے تخویف اخروی مع زجر۔ وان یروا۔ تا۔ فما تغن النذر یہ شکوی ہے۔ معجزہ شق قمر ظاہر ہوچکا ہے جو قرب قیامت کی دلیل ہے لیکن مشرکین سرکشی میں سرگرداں ہیں معجزات کو جادو کہتے ہیں اور اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں حالانکہ ان کے پاس قرآن ایسی حکمت وہدایت سے لبریز کتاب آچکی ہے اور وہ گزشتہ سرکش قوموں کے عبرتناک انجام کے قصے بھی سن چکے ہیں۔ فتول عنہم تسلی برائے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ان منکرین پر حجت الہیٰ قائم ہوچکی ہے اب انذار و تبلیغ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں، اس لیے آپ ان سے اعراض فرمائیں۔ یوم یدع الداع۔ تا۔ ھذا یوم عسر یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن جب صورت پھونکا جائے گا تو سب لوگ قبروں سے نکل کر خوف و ہراس کے عالم میں ٹڈی دل کی طرف بلانے والے کی طرف دوڑیں گے۔ اس دن کفار کہیں گے آج کا دن بہت ہی کٹھن اور دشوار ہے۔ کذبت قبلہم قوم نوح۔ تا۔ فھل من مد کر ۔ یہ تخویف دنیوی کا پہلا نمونہ ہے۔ مشرکین قریش سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) نے ہمارے پیغمبر نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان کو طرح طرح سے مطعون کیا۔ آکر اس سرکش اور طاغی قوم کو طوفان سے ہلاک کردیا گیا۔ یہ قصہ پچھلوں کے لیے باعث عبرت ہے۔ اس لیے قرآن کی نصیحت پر عمل کرو تاکہ ان جیسے انجام سے بچ جاؤ۔ کذبت عاد۔ تا۔ فھل من مد کر یہ تخویف دنیوی کا دوسرا نمونہ ہے۔ قوم عاد نے بھی ہمارے پیغمبر ہود (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو دیکھا ہم نے ان پر کیسا دردناک عذاب مسلط کیا۔ ہوا کے ایک تند و تیز طوفان سے ان کا صفایا کردیا گیا اور آنے والی نسلوں کیلئے ان کو عبرت بنا دیا۔ کذبت ثمود۔ تا۔ فھل من مد کر یہ تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ۔ قوم ثمود نے بھی پیغمبروں کا انکار کیا ہماری ہدایت کے لیے بشر ہی رہ گئے تھے کہ ہم ان کی پیروی کریں۔ یہ تو دیوانگی اور حماقت ہوگی۔ آخر کار انہیں پتھر سے اونٹنی کے نکلنے کا معجزہ بھی دکھایا گیا، لیکن پھر بھی عناد اور انکار پر قائم رہے اور اونٹنی کو قتل کردیا اور اللہ کے عذاب سے تباہ و برباد کردئیے گئے۔ کذبت قوم لوط۔ تا فھل من مد کر ۔ یہ تخویف دنیوی کا چوتھا نمونہ ہے۔ قوم لوط نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی اور لوط (علیہ السلام) کو ان کے مہمانوں کے بارے میں پریشان کیا تو ان کو بھی ایک ہولناک عذاب سے ختم کردیا گیا۔ ولقد جاء ال فرعون۔ تا۔ عزیز مقتدر یہ پانچواں نمونہ ہے۔ فرعون اور اس کی قوم نے بھی تکذیب کی اور تمام معجزات کو جھٹلایا تو ان پر بھی شدید گرفت آئی اور ان کو دریا میں غرق کردیا گیا۔ اکفارکم خیر۔۔الخ یہ زجر ہے۔ مشرکین مکہ نہ تو پہلے کفار سے اچھے ہیں اور نہ ان کے لیے عذاب سے کوئی برأت نامہ ہے اس لیے ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو پہلی سرکش قوموں کا ہوچکا ہے۔ ام یقولون۔ تا۔ امر یہ شکوی ہے۔ مشرکین کہتے ہیں کہ ہمارا جتھا انتقام لے گا لیکن بہت جلد شکست کھا کر بھاگیں گے۔ یہ تو معمولی عذاب ہے اصل عذاب تو قیامت کے دن ہوگا جو نہایت ہی ہولناک ہے۔ ان المجرمین۔ تا۔ مس سقر یہ تخویف اخروی ہے۔ مجرمین جو دنیا میں گمراہی اور سرکشی کے نشہ میں گم رہے جب انہیں جہنم میں گھسیٹا جائے گا اس وقت ان سے کہا جائے گا ، اب ذرا یہ بھڑکتی آگ بھی تاپ لو۔ انا کل شیء خلقناہ۔ تا۔ بالبصر یہ سورت کا دعوی ہے۔ یعنی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ساری کائنات میں وہی متصرف ومختار اور کارساز ہے۔ لہٰذا اس کے سوا حاجات میں کسی اور کو مت پکارو اور نہ کسی کو اس کے آگے شفیع قاہر سمجھو۔ ولقد اھلکنا۔ تا مستطر یہ تخویف دنیوی واخروی ہے۔ تم جیسے سرکشوں اور طاغیوں کو ہم پہلے ہلاک کرچکے ہیں، ان کے انجام بد سے عبرت حاصل کرو اور تمہاری ہر بات لکھی جارہی ہے، قیامت کے دن ہر عمل کی پوری پوری جزاء و سزا ملے گی۔ ان المتقین۔ تا ملیک مقتدر یہ بشارت اخرویہ ہے۔ متقی اور پرہیز گار لوگ جنت کی نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کے پاس خوش و خرم ہونگے۔
:مختصر ترین خلاصہ
معجزہ شق قمر ظاہر ہوچکا ہے جو قرب قیامت کی دلیل ہے لیکن مشرکین سرکشی میں سرگرداں ہیں حالانکہ ان کے پاس قرآن ایسی حکمت وہدایت سے لبریز کتاب آچکی ہے اور وہ گزشتہ سرکش قوموں کے عبرتناک انجام کے قصے بھی سن چکے ہیں۔ماننے والوں کا انجام بھی واضح ہےمتقی اور پرہیز گار لوگ جنت کی نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کے پاس خوش و خرم ہونگے۔لہذا ایمان لے آؤ یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا۔
Download PDF