|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ الدخان

سورۃ  الدخان مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 44 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے64نمبر پر ہے،اس سورۃ میں آیات ہیں جو3 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام آیت نمبر 10، یَوْمَ تَأتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍ کے لفظ دخان کو اس سورة کا عنوان بنایا گیا ہے، یعنی یہ وہ سورة ہے جس میں لفظ دخان وارد ہوا ہے۔ اس میں قیامت کی ہولناکیاں اور اس دن کی شدید پکڑ پر روشنی ڈالی گئی ہے پھر موسی علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ اور فرعونیوں کی آپ سے مخالفت اور بالآخر ان کی ہلاکت کا حال بتایا گیا ہے اور سورت کے آخر میں جنتی نعمتوں کی خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔

 :سورة الدخان کا سورۃ الزخرف سے ربط

سورة زخرف میں مشرکین کے اس شبہے کو دور کیا گیا ہے کہ ان کے معبودان باطلہ نہ اللہ کے نائب ہیں اورنہ اس کی بارگاہ میں شفیع غالب ہیں وہاں دلائل عقل و نقل اور وحی سے ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا خالق ومالک اور وہی ساری کائنات میں متصرف و کارساز ہے ۔اب سورة دخان میں مشرکین کے ایک اور شبہے کا جواب دیا گیا ہے۔ہمارے معبود اللہ کے نائب اور شفیع غالب نہیں ہیں، لیکن وہ ہماری دعائیں پکاریں سنتے اور ہمارے حالات کو جانتے ہیں اس لیے اگر وہ ہماری پکاریں سن کر اللہ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کر ڈالیں، خواہ وہ قبول کرے یا نہ کرے، تو اس میں کیا حرج ہے ؟ تو اس کا جواب دیا گیا۔  انہ ھو السمیع العلیم  (رکوع 1) ۔ کہ سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے اور کوئی نہیں۔

 حم والکتب المبین  تا  رحمۃ من ربک ۔ تمہید مع ترغیب۔ یہ ایک عظیم الشان حکمنامہ ہے جسے ہم نے برکت والی رات میں دعوی ہے اور مشرکین کے ایک شب ہے کا جواب ہے۔  فارتقب  تا  انا منتقمون  تخویف دنیوی ہے۔ مشرکین مکہ پر عنقریب قحط سالی کی صورت میں عذاب الٰہی آنے والا ہے، اس وقت اللہ کو پکاریں گے کہ یہ عذاب دور کردے تو ہم ایمان لے آئیں گے، لیکن جب ہم عذاب دور کردیں گے تو وہ پھر سرکشی کریں گے آخر میدان بدر میں ہم ان کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے۔ ولقد فتنا قبلھم۔۔ تا۔۔ وما کانوا منظرین۔ تخویف دنیوی کا نمونہ۔ فرعون اور اس کی قوم کا انجام دیکھ لو انہیں تکذیب، غرور و استکبار اور سرکشی کی کیا سزا ملی۔ جب ہمارا عذاب آیاتو کوئی چیز کا نہ آئی۔ دولت وسلطنت نہ لاؤ لشکر۔ ولقد نجینا بنی اسرائیل ۔۔تا ۔۔بلؤمبین (رکوع 2) ۔ بشارت دنیویہ کا نمونہ۔ بنی اسرائیل کو صبر و استقلال کا پھل ملا فرعون کے عذاب سے نجات ملی اور اپنے زمانے کے لوگوں پر اللہ نے ان کو فضیلت عطاء فرمائی۔  ان ھؤلاء لیقولون  تا  ان کنتم صدقین یہ شکوی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ توحید کا انکار کرتے ہیں، بلکہ قیامت اور دوبارہ جی اٹھنے کو بھی نہیں مانتے۔  اھم خیر ام قوم تبع  تخویف دنیوی کا دوسرا نمونہ۔ مشرکین مکہ قوم تبع سے زیادہ طاقتور اور دولتمند نہیں ہیں۔ جب انہیں شرک اور استکبار کے جرم میں ہلاک کردیا، تو یہ  کس کھیت کی مولی ہیں۔  وما خلقنا السموت  تا  لایعلمون  یہ توحید پر دلیل عقلی ہے۔ زمین و آسمان اور اس سارے جہان کو ہم نے یونہی بیکار پیدا نہیں کیا، بلکہ ہر چیز کو اظہار حق کیلئے پیدا کیا ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ ہماری وحدانیت اور قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔  ان یوم الفصل تخویف و بشارت اخرویہ ہے۔  ان شجرت الزقوم  تا  ان ھذا ماکنتم بہ تمترون  (رجوع 3) ۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ کفار کو جہنم میں کھانے کو زقوم اور پینے کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا ۔  ان المتقین فی مقام امین  تا  ذلک ھو الفوز العظیم  یہ بشارت اخرویہ ہے۔ متقی لوگ جنت میں ہوں گے جو ایک پرامن مقام ہوگا۔ پہننے کے لیے اعلی درجہ کا لباس ہوگا۔ حوران بہشتی رفاقت میں ہوں گی، ہر میوہ میسر ہوگا اور یہ تمام نعمتیں دائمی اور غیر فانی ہوں گی۔  فانما یسرناہ  یہ تمام سورت سے متعلق ہے۔  فارتقب انہم مرتقبون  یہ تخویف دنیوی۔  فارتقب یوم تاتی السماء ۔۔الخ  کے ساتھ متعلق ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

پکار کو سننے والا،حاجات کو پوری کرنے والا صرف وہی ہے انہ ھو السمیع العلیم  تمہارے معبود نہ تو اللہ کے نائب  ہیں اور نہ شفیع غالب ہیںسورۃ کی ابتداءتمہید مع ترغیب کے بعد، دعوائے سورت (انہ ھو السمیع العلیم)، تخویف دنیوی، تخویف اخروی، بشارت اخرویہ اور درمیان میں توحید پر ایک دلیل عقلی وما خلقنا السموات۔ تا۔ الا بالحق ۔مذکور ہے۔