|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  الشوری

سورۃ  الشوری مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 42 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے62نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 53آیات ہیں جو5 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام اس سورۃ کی آیت نمبر38 وَاَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب ہے کہ وہ سورة جس میں لفظ شوریٰ آیا ہے۔ 

 :سورة الشوری  کا حم السجدہ سے ربط

سورة حم السجدہ میں یہ شبہہ دور کیا گیا کہ خواب میں یا بیداری میں بعض دفعہ بزرگوں کی زیارت ہوجاتی ہے تو ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو حاجات میں پکارنا اور ان کی نذریں منتیں ماننا جائز ہے، تو اس کا جواب دیا گیا کہ یہ سب شیاطین کی شرارت ہے وہ خواب میں یا بیداری میں بزرگوں کی شکلوں میں متمثل ہو کر سامنے آتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اب سورة شوری میں ایک دوسرے شبہے کا جواب دیا جائے گا۔ یعنی مشرکین کہتے ہیں کہ ہمیں کتب سابقہ میں ایسی عبارتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے کی اجازت ہے، تو اس کا جواب دیا گیا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) پر جو کتابیں نازل کی گئیں ان میں یہی مضمون تھا، لیکن اب اگر ان کتابوں میں اس کے خلاف کوئی چیز ملتی ہے جس سے شرک کی تائید ہوتی ہو، تو وہ ا للہ کی توحید اور انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات سے باغی علماء اور گمراہ کن پیشواؤں کی تحریف ہے اور انہوں نے خود ہی ایسے مشرکانہ مضامین لکھ کر ان کتابوں میں شامل کردئیے ہیں، اس لیے بعد والے لوگ جو ان کی تحریفات کو دیکھ کر گمراہ ہوئے وہ معذور نہیں ہونگے۔ اس قسم کے تین شبہات کا جواب گزشتہ سورتوں میں گذر چکا ہے۔ اول سلیمان (علیہ السلام) سے ایسے کلمات ملتے ہیں جن میں غیر اللہ کو پکارنا لکھا ہے تو سورة بقرہ رکوع 12 میں اس کا جواب دیا گیا۔  وما کفر سلیمان ولکن الشیاطین کفرو۔۔الخ کہ سلیمان (علیہ السلام) کی طرف غیر اللہ کو پکارنے اور جادو کرنے کی نسبت غلط ہے یہ شیاطین کی شرارت ہے کہ انہوں نے خود کتابیں تصنیف کر کے ان میں اپنی طرف سے سلیمان (علیہ السلام) کے حق میں ایسے کلمات منسوب کردئیے۔ اسی طرح اولیاء کرام کی طرف بعد کے مفسد لوگوں نے گمراہ کرن اور مشرکانہ باتیں منسوب کردی ہیں جن سے وہ بزرگ بری ہیں۔ دوم، عیسائیوں نے کہا تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) خود ہی ہمیں تعلیم دے گئی ہیں کہ حاجات میں مجھے پکارا کرنا۔ اس کا جواب سورة آل عمران (رکوع 8)  ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ الکتب۔۔الخ میں دیا گیا کہ یہ بھی عیسیٰ (علیہ السلام) پر بہتان ہے، وہ تو اللہ کے پیغمبر تھے اور اللہ کے پیغمبر سے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کی توحید کے خلاف لوگوں کو تعلیم دے۔ سوم، عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں انجیل اور قرآن میں جو کلمات ملتے ہیں مثلا ، کلمۃ اللہ، روح اللہ ان سے شبہہ ہوتا ہے کہ ان کو اللہ کی بارگاہ میں ایسا قرب حاصل ہے کہ شاید ان کو نظام کائنات میں کچھ اختیارات بھی دئیے گئے ہوں۔ اس کا جواب سورة آل عمران (رکوع 1)  ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ ایت محکمت ھن ام الکتب واخر متشبہت میں دیا گیا کہ یہ کلمات متشابہات میں سے ہیں اور دین و شریعت کے احکام کی بنیاد محکمات ہیں، نہ کہ متشابہات اور متشابہات کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان جوابات کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر گذر چکی ہے۔

 کذلک یوحی الیک  تا  وھو العلی العظیم  (رکوع 1) ۔ انبیاء (علیہم السلام) کی طرف یہی وحی بھیجی گئی کہ اس سارے جہان میں اللہ تعالیٰ ہی متصرف و مختار اور کارساز ہے۔  تکاد السموت یتفطرن  تا  ھو الغفور الرحیم ۔ فرشتے بھی شرک سے اللہ تعالیٰ کی تقدیس کرتے ہیں اور اہل توحید کیلئے اللہ سے استغفار کرتے ہیں۔  والذین اتخذوا من دونہ  مشرکین پر زجر مع تخویف ہے۔  وکذلک اوحینا الیک ۔۔الخ  ترغیب الی القرآن و بشارت تخویف اخروی۔  ام اتخذوا من دونہ اولیاء ۔۔الخ  اعادہ زجر۔  فاطر السموت والارض  تا  انہ بکل شیء علیم لہ ما فی السموات وما فی الارض  سے متعلق ہے یعنی یہ مضامین بھی تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرف وحی کیے گئے کہ اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب اور مالک و مختار ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔  شرع لکم من الدین  تا  ویھدی الیہ من ینیب  (رکوع 2) تمام انبیاء (علیہم السلام) کو ایک ہی دین کو قائم کرنے یعنی اللہ کی توحید کی تبلیغ کرنے اور غیر اللہ کی پکار سے روکنے کا حکم دیا گیا۔ تمام پیغمبر اللہ کی توحید پر متفق تھے۔مگر ہر فرقے نے اپنا ایک شرعیت ساز بنا لیا،جو انہیں شرعیت گھڑ گھڑ کر دیتا ہے جسکی اجازت اللہ نے نہیں دی۔  وما تفرقوا الا من بعد۔۔ الخ  یہ اس سورت کے مرکزی شبہہ کا جواب ہے۔ شبہہ یہ ہے کہ جب تمام انبیاء (علیہم السلام) مسئلہ توحید پر متفق تھے، تو پھر کتب سابقہ میں اس کے خلاف لکھا ہوا کیوں ملتا ہے تو اس کا جواب دیا گیا کہ یہ بعد کے باغی پیشواؤں کی تحریف ہے، انہوں نے مسئلہ توحید کو سمجھنے اور جاننے کے بعد ضد وعناد کی وجہ سے توحید میں اختلاف ڈالا۔  ولولا کلمۃ سبقت ۔۔الخ  یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ ان باغیوں اور سرکشوں پر عذاب کیوں نہیں آتا جو توحید کا انکار کرتے ہیں۔ جواب دیا گیا کہ عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر آئیگا۔  وان الذین اور ثوا الکتب۔۔ الخ  ان گمراہ کن اور باغی علماء کے بعد جو لوگ آئے وہ ان کی محرف کتابوں کو دیکھ کر توحید کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے۔  فلذلک فادع  تا  والیہ المصیر  یہ ماقبل پر چار امور متفرعہ ہیں (1)  فلذلک فادع  آپ اسی حکمنامہ کی دعوت دیتے رہیں (2)  واستقم کما امرت، اسی پر قائم رہیں۔ (3)  ولاتتبع اھواءھم  ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ (4)  قل امنت الخ  میرا اسی پر ایمان ہے جو اللہ نے نازل فرمایا۔ باغیوں کی تحریفات کو نہیں مانوں گا۔  وامرت لاعدل بینکم  مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں۔ حاصل یہ ہے کہ وہ لوگ شکوک میں پڑے رہیں اور باغیوں کی تحریرات کو مانتے رہیں، لیکن آپ مسئلہ توحید کی دعوت کو جاری رکھیں اور اسی پر قائم رہیں اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو حاجات میں پکاریں اور اسی کی تبلیغ کریں اور اعلان کردیں کہ میں اسی چیز کو مانوں گا جو اللہ نے نازل فرمائی ہے اور مجھے انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ والذین یحاجون فی اللہ۔۔ الخ  باغی اور گمراہ علماء کی تحریفات کی پیروی کرتے ہوئے جن لوگوں نے اللہ کی توحید کو چھوڑا وہ اس بارے میں معذور نہیں ہیں، کیونکہ اول تو اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل فرما دی ہے جو حق و باطل کے درمیان میزان ہے۔ دوم اس مسئلہ کو انبیاء (علیہم السلام) اور علماء حق تسلیم کرچکے ہیں اس لیے ان مشرکین کا عذر قابل قبول نہیں جیسا کہ گوسالہ سامری کا آواز نکالنا گوسالہ پرستوں کے لیے معذوف ہونے کا سبب نہ بن سکا۔  وما یدریک لعل الساعۃ قریب  تا  لفی ضلل بعید ۔ یہ مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے۔  اللہ لطیف بعبادہ  یہ آیت پہلے دعوے سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے، اس لیے غائبانہ اسی کو پکارو  من کان یرید۔۔ الخ  (رکوع 3) ۔ یہ ترغیب فی الاخرۃ و تزہید فی الدنیا ہے۔  ام لہم شرکاء ۔۔الخ  یہ دوسرے دعوے سے متعلق ہے۔ اللہ کی شریعت میں تو یہی تھا کہ صرف اللہ ہی کو کارو، کیا تمہارے پیشواؤں اور معبودوں نے اس کی شریعت کے خلاف کوئی نئی شریعت بنا لی ہے ؟  ولولا کلمۃ الفصل  تا  وھو واقع بھم  تخویف اخروی ہے۔  والذین امنوا  تا  ان اللہ غفور شکور  یہ بشارت اخرویہ ہے اور درمیان میں  قل لا اسئلکم الخ  سے ترغیب ہے۔یعنی انبیاء کی پیروی میں تم بھی کہو کہ میں اس دین پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا،میرا اجر اللہ کے ذمے ہے۔یہ دلیل ہے کہ تبلیغ دین کے زریعے دنیا کے فائدے حاصل کرنا ناجائز ہے۔   ام یقولون افتری  یہ شکوی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گزشتہ انبیاء (علیہم السلام) اور کتب سابقہ کے مطابق دعوت پیش کرتے ہیں، لیکن معاندین پھر بھی آپ کو مفتری کہتے ہیں۔  وھو الذی یقبل التوبۃ  یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کنندہ اور غیب داں ہے، اسی سے گناہ بخشواؤ اور اسی کو پکارو۔  ویستجیب الذین امنوا ۔۔الخ  بشارت اخرویہ۔  والکفرون لہم عذاب شدید  تخویف اخروی۔  لو بسط اللہ الرزق  یہ ایک سوال کا جواب ہے، وہ ایسا مہربان ہے تو سب کو فراخی سے رزق کیوں نہیں دیتا ؟ اگر وہ سب کو فراخی سے رزق دیتا تو سب ہی اس کے احکام سے باغ ہوجاتے، اسلیے وہ اپنی حکمت سے ہر ایک کو ایک خاص اندازے سے دیتا ہے۔  وھو الذی ینزل الغیث  تا  اذا یشاء قدیر  یہ پہلے دعوے سے متعلق ہے۔ کارساز اور متصرف و مختار وہی ہے، اس لیے حاجات میں اسی کو پکارو یہ پہلے دعوی پر پہلی عقلی دلیل ہے۔  وما اصابکم من مصیبۃ  تا  فمتاع الحیوۃ الدنیا  (رکوع 4) ۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔  وما عنداللہ  تا  فاولئک ما علیہم من سبیل  یہ ایمان والوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ اور اس میں دفع عذاب کے لیے اور ثلاثہ کا بیان بھی ہے (١) شرک نہ کرو۔  للذین امنوا وعلی ربہم یتوکلون ۔ (2) ظلم نہ کرو  الذین یجتنبون الخ  اور (3) احسان کرو  اذا ماغضبوا ھم یغفرو۔ انما السبیل علی الظین یظلمون ۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ ومن یضلل اللہ۔۔ الخ (رکوع 5) یہ دوسرے دعوے سے متعلق ہے یعنی جو شخص محض ضد وعناد کی وجہ سے باطل پرست علماء کی تحریفات کو مان کر گمراہ ہوگیا، اسے راہ راست پر کوئی نہیں لاسکتا۔  وتری الظلمین  تا  فما لہ من سبیل  یہ تخویف اخروی ہے۔  استجیبوا لربکم   وما لکم من نکیر ۔ یہ دوسرے دعوے سے متعلق ہے اور تخویف اخروی بھی ہے۔ یعنی باغیوں اور گمراہوں کی تحریفات کی پیروی نہ کرو اور صرف اللہ ہی کو پکارو۔  فان اعرضوا ۔۔الخ  یہ زجر مع تسلیہ ہے۔ اگر معاندین اعراض کرتے ہیں، تو آپ غم نہ کریں آپ کا کام سنانا اور سمجھانا ہے نہ کہ منوانا۔  وانا اذا اذقنا  یہ زجر ہے۔  للہ ملک السموت۔ تا  انہ علیم قدیر  یہ پہلے دعوی پر عقلی دلیل ہے اور پہلے دعوی سے متعلق ہے۔ ساری کائنات میں وہی متصرف و مختار ہے اور اولاد دینا بھی اسی کے اختیار میں ہے۔ اس لیے حاجات میں اسی کو پکارو۔  ومان کان لبشر  یہ ہی طریقوں سے کلام کیا گیا۔ جو چیز اس وحی کے خلاف ہوگی وہ مفسد اور گمراہ کن پیشواؤں کی ایجاد اور تحریف ہوگی۔ وکذلک اوحینا الیک الخ  یہ دلیل وحی ہے۔ ان ہی تین طریقوں سے ہم نے آپ کی طرح وحی بھیجی ہے اور انبیاء سابقین (علیہم السلام) کی طرح آپ کو بھی توحید ہی کے لیے مبعوث کیا ہے۔  صراط اللہ الذی لہ ما فی السموات دلیل عقلی کی طرف اشارہ ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

 ازالۃ شبہہ اور اس کے بعد اس سے متعلق دونوں دعو وں کے بارے میں آیات۔ پہلا دعوی تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرف یہی وحی کی گئی تھی کہ عالم الغیب اور کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے صرف اسی کو پکارو۔ دوسرا دعوی انبیاء (علیہم السلام) کی اس متفق علیہ تعلیم کے خلاف جو کچھ ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ باغی اور گمراہ علماء کا کارنامہ ہے۔ یہ تحریفات بعد کے لوگوں کے لیے قابل عذر نہیں ہیں جس طرح گوسالہ سامری کا آواز نکالنا گو سالہ پرستوں کے لیے قابل معذرت نہیں تھا پھر دونوں دعو وں کے متعلق آیات ہوں گی اور دمیان میں دفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا بیان ہوگا آخر سورت میں تینوں دلائل عقلی، نقلی اور وحی مذکور ہے۔