|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ المومن

سورۃ المومن مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 40 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سےبھی 60نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 85آیات ہیں جو9 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کی ابتداء حروف مقطعات سے ہوئی ہے جسکا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

سورۃ کا نام آیت نمبر 28 وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ سورة جس میں اس خاص مومن کا ذکر آیا ہے۔سورۃ کا ایک نام غافر بھی ہے کو آیت نمبر3 غَافِرِ الذَّنْۢبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيْدِ الْعِقَابِ سے ماخوذ ہے۔

:سورة المومن کا سورۃ زمر سے ربط

سورة زمر میں دو زمروں (گروہوں) کا ذکر کیا گیا ہے فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر ا یک جنتی گروہ اور دوسرا جہنمی اور سورة مومن میں، مومن آل فرعون کی زبان سے وہ مسئلہ ذکر کیا گیا ہے یعنی مسئلہ توحید جسے ماننے والا گروہ جنتی ہے اور نہ ماننے والا جہنمی۔

سورة زمر کا دعوی تھا  فاعبداللہ مخلصا لہ الدین  (رکوع 1) ۔ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو اور سورة مومن، حم السجدہ اور شوریٰ میں جزو اعلی اور مغز عبادت یعنی دعاء اور پکار کا مسئلہ مفصل و مدلل بیان کیا گیا ہے۔ نیز سورة زمر نفی شفاعت قہری کا بیان بھی ہے  ام اتخذوا من دون اللہ شفعاء (رکوع 5) جسے مومن، سجدہ اور شوری کے بعد زخرف میں بیان کیا گیا ہے۔

پہلا حصہ: حم  تا  فالحکم للہ العلی الکبیر ۔ تمہید ہے جو چار عنوانوں پر مشتمل ہے۔ عنوان اول  تنزیل الکتب  تا  الیہ امصیر ۔ یہ حکمنامہ اس شہنشاہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ مہربان ایسا کہ ہر توبہ کرنے والے کو معافی دے دے اور زبردست ایسا کہ سرکشوں کو سخت عذاب میں گرفتار کردے۔ عنوان دوم :  ما یجادل  تا  انہم اصحب النار  اس واضح حکمنامے کا انکار صرف معاندین ہی کریں گے، اور اقوام گزشتہ کی طرح اس جدال و انکار کی سزا دنیا ہی میں پالیں گے۔ عنوان سوم :  الذین یحملون  تا  وذلک ھو الفوز العظیم  جو لوگ اس حکمنامے کو مان لیں گے، ان کو یہ شرف حاصل ہوگا کہ عرش الٰہی کو اٹھانے والے اور عرش کے گرد تسبیح و تقدیس کرنے والے فرشتے ان کے لیے اللہ سے دعائیں کرتے رہیں گے۔ عنوان چہارم :  ان الذین کفروا  تا  العلی الکبیر  (رکوع 2) ۔ جو لوگ اس حکمنامے کو نہیں مانیں گے وہ آخرت میں غضب الہیٰ کے حقداربنیں گے۔  ھو الذی یریکم ایتہ (الایۃ) یہ حکم نامہ ماننے کی ترغیب ہے۔

 ذکر دعوی : سورت کا مرکزی دعوی تین بار ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی بار  فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکفرون (رکوع 2) ۔ مصائب و حاجات میں غائبانہ صرف اللہ ہی کو پکارو اگرچہ مشرکین کو یہ بات ناگوار گذرے اور وہ غیظ و غضب سے جل جائیں۔  رفیع الدرجات  تا  سریع الحساب  دعوی کی اہمیت کا ذکر ہے۔ یہ حکمنامہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ بلند شان والے عرش عظیم کے مالک کی طرف سے ہے، جو ہمیشہ سے اپنے پیغمبروں پر اپنا حکمنامہ نازل فرماتا رہا ہے۔  وانذرھم یوم الازفۃ الخ  تخویف اخروی ہے۔  واللہ یقضی بالحق  (الایۃ) متعلق بدعوی ہے۔  واللہ یقضی بالھق  یہ امر اول ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ہر ارادے کے مطابق فیصلہ کرلیتا ہے۔  والذین یدعون من دونہ ۔۔الخ  یہ امر دوم ہے یعنی معبودانِ باطلہ ایسا نہیں کرسکتے۔  ان اللہ ھو السمیع البصیر  یہ ماقبل کی دونوں باتوں کی دلیل ہے۔

 ذکر دعوی دوسری بار :  وقال ربکم ادعونی استجب لکم الایۃ  (رکوع 6) ۔ اپنے مالک اور پروردگار کا حکم ہے کہ حاجات میں غائبانہ صرف مجھ ہی کو پکارو، جو لوگ صرف مجھے ہی پکارنے کے پابند نہیں، بلکہ میرے سوا اوروں کو بھی پکارتے ہیں، میں انہیں ذلیل و رسوا کر کے جہنم میں داخل کروں گا۔

 ذکر دعوی تیسری بار :  ھو الحی لا الہ الا ھو فادعوہ مخلصین لہ الدین الایۃ  (رکوع 7) ۔ اللہ تعالیٰ ہی زندہ جاوید ہے، اس پر کبھی موت نہیں آئیگی، اس لیے مصائب و آفات اور حاجات و مشکلات میں خالصۃً اسی کو پکارو، تمام صفات الوہیت اسی کی ذات پاک کے ساتھ مختص ہیں۔

 دلیل وحی :  تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم  (رکوع 1) ۔ یہ حکمنامہ جو دعوائے توحید پر مشتمل ہے کسی انسان کا خودساختہ نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ دلیل نقلی :  ولقد اتینا موسیٰ الھدی ۔۔الخ (رکوع 6) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم نے جو کتاب دی تھی، جو بنی اسرائیل کے لیے ضابطہ ہدایت تھی، اس میں بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ میرے سوا کوئی کارساز نہیں، اس لیے مصائب و حاجات میں صرف مجھے ہی پکارو۔ دلیل نقلی کے بعد  فاصبر ان وعد اللہ حق الایۃ  میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور اس سے پہلے  انا لننصر رسلنا۔۔ الخ  میں بھی تسلیہ ہے۔  ان الذین یجادلون ۔۔الخ  زجر برائے معاندین۔

 پہلی عقلی دلیل :  اللہ الذی جعل لکم الیل  رکوع 7 ۔ رات اور دن ایسی نعمتیں اور ان کے علاوہ دیگر انعامات سب اللہ کی طرف سے ہیں۔  ذللکم اللہ ربکم الخ  یہ ثمرہ دلیل ہے۔ وہی منعم و محسن اللہ تم سب کا مالک و خالق ہے اس کے سوا کوئی کارساز نہیں، اس لیے حاجات میں مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو۔  کذلک یؤفک ۔۔الخ  یہ زجر ہے۔ دوسری عقلی دلیل :  اللہ الذی جعل لکم الارض۔۔ الخ  (رکوع 7) ۔ اللہ نے تمہاری خاطر زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، تمہیں خوبصورت شکلیں عطا کیں اور تمہارے لیے حلال اور پکایزہ روزی کا انتظام فرمایا۔  ذلکم اللہ ربکم  یہ دوسری عقلی دلیل کا ثمرہ ہے۔ مذکورہ بالا صفتوں والا اللہ ہی تمہارا رب اور کارساز ہے اور وہی سب کا پروردگار ہے اس لیے غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔ تخویف دنیوی :  اولم یسیروا فی الارض  تا  انہ قوی شدیدالعقاب  (رکوع 3) ۔ یہ مشرکین زمین میں چل پھر کر ان سرکش قوموں کا انجام نہیں دیکھتے جو ان سے قوت اور کارناموں میں بہت زیادہ تھے، جب ہم نے گناہوں کی پاداش میں ان کو پکڑا تو ان کے وہ معبود انہیں ہمارے عذاب سے نہ چھڑا سکے جنہیں وہ دنیا میں کارساز سمجھ کر پکارا کرتے تھے۔ اس کے بعد  ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا  (رکوع 3)  تا  وحاق بال فرعون سوء العذاب  (رکوع 5) ، تخویف دنیوی کا ایک مفصل نمونہ ذکر کیا گیا ہے۔  النار یعرضون علیہا  تا  و ما دعاء الکفرین الا فی ضلل  (رکوع 5) ۔  انا لننصر رسلنا  (رکوع 6) ۔ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پہلی بار تسلی کا ذکر ہے۔ اس کے بعد  فاصبر ان وعداللہ حق  میں دوبارہ تسلی ہے۔

 دوسرا حصہ : دوسرے حصے میں پہلے حصے کے مضامین کا اعادہ ہے۔ اعادہ دلیل وحی :  قل انی نہیت ان اعبد الذین تدعون من دون اللہ  (رکوع 7) غیر اللہ کی دعا اور عبادت کو میں نے از خود شرک نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے مجھے منع کردیا ہے کہ میں معبودان باطلہ کو پکاروں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فرماں بردار بندہ ہو کر رہوں جو ساری کائنات کا مالک اور کارساز ہے۔ اعادہ پہلی نقلی دلیل :  الذین کذبوا بالکتب وبما ارسلنا بہ رسلنا (رکوع 8) ، یہ دلیل نقلی اجمالی کی طرف اشارہ ہے اور  ما ارسلنا بہ  سے مسئلہ توحید مراد ہے۔ دوسری نقلی دلیل :  ولقد ارسلنا رسلا من قبلک، الایۃ  (رکوع 8) ۔ یہ بھی دلیل نقلی اجمالی کی طرف اشارہ ہے۔ اعادہ دلیل عقلی اول :  ھو الذی خلقکم  تا  کن فیکون  (رکوع 7) ۔ اللہ تعالیٰ ہی نے تمام انسانوں کو پیدا کیا۔ رحم مادر میں تخلیق کے تمام مدارج سے گذار کر احسن تقویم میں پیدا کیا اور دنیا کی زندگی میں تمام ضروریات مہیا کیں۔ زندگی اور موت اسی کے قبضہ میں ہے۔ اس لیے وہی کارساز اور حاجت روا ہے، حاجات میں غائبانہ اسی کو پکارنا چاہیے۔ دلیل عقلی دوم :  اللہ الذی جعل لکم الانعام  تا  فای ایت اللہ تنکرن  (رکوع 9) ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے چوپائے پیدا فرمائے جن میں سے کچھ تو سواری اور بار بردراری کے کام آتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو جن کا گوشت کھایا اور ددھ پیا جاتا ہے۔ جس محسن حقیقی نے یہ سب نعمتیں عطا فرما دیں وہی مالک و معوبد اور متصرف و کارساز ہے، مصائب و حاجات میں صرف اسی کو پکارنا چاہیے۔ اعادہ تخویف دنیوی : مشرکین مکہ نے ان سرکش قوموں کا انجام نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ طاقتور اور زیادہ دولتمند تھے۔ انہوں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو دنیا ہی میں پکڑ لیا۔ سرکش لوگوں کے لیے ہمارا یہی دستور ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

سورت کے دو حصے ہیں۔ پہا حصہ از ابتدائے سورت تا  الحمد للہ رب العالمین  (رکوع 7) اور دوسرا حصہ از  قل ان نھیت ان اعبدالذین تدعون من دون اللہ (رکوع 7) ۔ تا آخر سورت۔ پہلا حصہ :۔ چار عنوانوں پر مشتمل تمہید، اس کے بعد ترغیب، دعوائے سورت کا تین بار ذکر، اثبات دعوی کیلئے ایک دلیل وحی، ایک دلیل نقلی اور دو عقلی دلیلیں۔ ہر عقلی دلیل کے بعد ایک ایک ثمرہ، تخویف دنیوی کا مفصل نمونہ اور دو بار تسلی برائےرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ دوسرا حصہ :۔ پہلے حصے کے مضامین کا اعادہ۔