سورۃ الصافات مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 37 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے56 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 182آیات ہیں جو5 رکوع پر مشتمل ہیں۔سورۃ کا نام پہلی ہی آیت کے لفظ والصافات سے ماخوذ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا، اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقہ سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کردیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو، تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آجائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اترا ہوا پاؤ گے (آیت نمبر 171 تا 179) ۔ یہ نوٹس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔ مسلمان (جن کو ان آیات میں اللہ کا لشکر کہا گیا ہے) بری طرح ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ ان کی تین چوتھائی تعداد ملک چھوڑ کر نکل گئی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بمشکل 40 ۔ 50 صحابہ مکہ میں رہ گئے تھا اور انتہائی بےبسی کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں برداشت کر رہے تھے۔ ان حالات میں ظاہر اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ باور نہ کرسکتا تھا کہ غلبہ آخر کار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی مٹھی بھر بےسرو سامان جماعت کو نصیب ہوگا۔ بلکہ دیکھنے والے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تحریک مکہ کی گھاٹیوں ہی میں دفن ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی کچھ پیش آگیا جس سے کفار کو خبردار کیا گیا تھا۔
تنبیہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس سورة میں تفہیم اور ترغیب کا حق بھی پورے توازن کے ساتھ ادا فرمایا ہے۔ توحید اور آخرت کے عقیدے کی صحت پر منحصر دل نشین دلائل دیے ہیں، مشرکین کے عقائد پر تنقید کر کے بتایا ہے کہ وہ کیسی لغو باتوں پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، ان گمراہیوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ایمان و عمل صالح کے نتائج کس قدر شاندار ہیں۔ پھر اسی سلسلے میں پچھلی تاریخ کی مثالیں دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے، کس کس طرح اس نے اپنے وفادار بندوں کو نوازا ہے اور کس طرح ان کے جھٹلانے والوں کو سزا دی ہے۔
جو تاریخی قصے اس سورة میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ سبق آموز ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات کا یہ اہم واقعہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اس میں صرف ان کفار قریش ہی کے لیے سبق نہ تھا جو ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنے نسبی تعلق پر فخر کرتے پھرتے تھے، بلکہ ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق تھا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے۔ یہ واقعہ سنا کر انہیں بتادیا گیا کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی اصلی روح کیا ہے، اور اسے اپنا دین بنا لینے کے بعد ایک مومن صادق کو کس طرح اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔
سورة کی آخری آیات محض کفار کے لیے تنبیہ ہی نہ تھیں بلکہ ان اہل ایمان کے لیے بشارت بھی تھیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید و حمایت میں انتہائی حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ انہیں یہ آیات سنا کر خوشخبری دے دی گئی کہ آغاز کار میں جن مصائب سے انہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ان پر گھبرائیں نہیں، آخر کار غلبہ ان ہی کو نصیب ہوگا، اور باطل کے وہ علمبردار جو اس وقت غالب نظر آ رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں مغلوب و مفتوح ہو کر رہیں گے۔ چند ہی سال بعد واقعات نے بتادیا کہ یہ محض خالی تسلی نہ تھی بلکہ ایک ہونے والا واقعہ تھا جس کی پیشگی خبر دے کر ان کے دل مضبوط کیے گئے تھے۔
:سورة الصافات کا ماقبل سے ربط
سورة یسین کے بعد الصافات بھی سورة سبا پر مرتب ہے اور اس سورت میں سورة یسین کی نسبت بطور ترقی شفاعت قہری کی نفی کی گئی ہے۔ سورة یسین میں فرمایا ہم نے ان مشرکین کو پکڑا لیکن ان کے مزعومہ شفعاء ان کو ہماری گرفت سے نہ چھڑا سکے اور الصافات میں مذکور ہوگا چھڑا تو درکنار وہ (ملائکہ، جن اور انبیاء (علیہم السلام) جن کو مشرکین عنداللہ شفیع غالب سمجھتے تھے) ۔ تو اللہ کے سامنے نہایت ہی عاجز ہیں اور اپنی عاجزی اور بےبسی کا برملا اعتراف کر رہے ہیں اس لیے وہ شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔
سورة سبا میں تھا کہ جو لوگ ان معبودوں کو شفیع غالب سمجھتے ہیں وہ قوم سبا کے عبرتناک انجام سے سبق سیکھیں اور الصافات میں فرمایا خود فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں کہ تم سب کا معبود ایک ہے۔
والصفت صفا۔ تا۔ ورب المشارق۔ فرشتوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں اوراللہ کی بارگاہ میں خدام ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ اے زمین والو ! تم سب کا الٰہ ایک ہے بھلا وہ کس طرح معبود اور شفیع غالب بن سکتے ہیں اللہ تعالیٰ جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے وہی سب کا کارساز ہے۔ انا زینا السماء۔ تا۔ فاتبعہ شہاب ثاقب۔ جنات کا حال یہ ہے کہ وہ چوری چھپے ملا اعلی کی باتیں سننے کے لیے جاتے ہیں تو آگ کے شعلے ان کا پیچھا کر کے اسکو واپس کردیتے ہیں اور ان کیلئے عذاب لازم ہے بھلا وہ کس طرح شفیع بن سکتے ہیں۔ فاستفتہم اھم اشد۔ تا۔ او اباءنا الاولون۔ یہ مشرکین کے لیے زجر ہے جو توحید کے ساتھ ساتھ حشر و نشر کا بھی انکار کرتے تھے۔ فرمایا ان سے پوچھو تو کہ ان کی پیدائش مشکل ہے یا ان کے علاوہ دوسری مخلوقات کی۔ مثلاً فرشتے، آسمان، زمین، ستارے وغیرہ۔ انا خلقنہم من طین لازب۔ ان کو تو ہم چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا ہے اور ان کی پیدائش فرشتوں اور زمین و آسمان کی پیدائش کے مقابلے میں بہت معمولی بات ہے تو جو ذات پاک ایسی اہم اور غیر معمولی مخلوقات کو پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ قل نعم۔ تا۔ انا کذلک نفعل بالمجرمین (رکوع 2) ۔ یہ محض تخویف اخروی ہے۔ انہم کانوا اذا قیل لہم وصدق المرسلین، یہ شکویٰ ہے مع جواب شکوی۔ انکم لذائقوا العذاب۔ تا۔ الا عباد اللہ المخلصین، تخویف اخروی اولئک لہم رزق معلوم۔ تا۔ لمثل ھذا فلیعمل العملون، بشارت اخروی۔ اذلک خیر۔ تا۔ الا عباد اللہ المخلصین، تخویف اخروی۔ ولقد نادانا نوح۔ تا۔ ثم اغرقنا الاخرین (رکوع 3) یہ نفی شفاعت قہری کیلئے پہلا قصہ ہے۔ نوح (علیہ السلام) تو بصد عجز و نیاز ہمیں پکار رہے ہیں اور ہم ہی نے ان کو اور ان کے ماننے والوں کو غرق سے بچایا اور ان کے دشمنوں کو ہم ہی نے غرق کیا۔ پھر وہ کس طرح معبود اور شفیع غالب بن سکتے ہیں۔ وان من شیعتہ لابراہیم۔ تا۔ و ظالم لنفسہ مبین (رکوع 3) ، یہ دوسرا قصہ ہے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ہم ہی نے آگ سے بچایا، وہ اللہ کے فرماں بردار تھے کہ اللہ کے حکم سے اپنے پیارے فرزند کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے پر تیار ہوگئے۔ اسلیے وہ بھی کارساز اور شفیع غالب نہیں ہوسکتے۔
ولقد مننا علی موسیٰ وھارون۔ تا۔ انہما من عبادنا المومنین (رکوع 4) یہ تیسرا اور چوتھا قصہ ہے۔ موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو ہم ہی نے محض اپنے فضل و احسان سے سختیوں سے بچایا وہ تو خود محتاج و عاجز تھے، اس لیے کارساز اور شفیع غالب نہ تھے۔
وان الیاس لمن المرسلین۔ تا۔ انہ من عبادنا المومنین۔ یہ پانچواں واقعہ ہے۔ الیاس (علیہ السلام) کو قوم کے ہاتھوں قتل اور رسوائی سے ہم ہی نے بچایا۔ وان لوطا لمن المرسلین۔ تا۔ وبالیل افلا تعقلون، یہ چھٹا قصہ ہے۔ لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے ماننے والوں کو ہم ہی نے بچایا اور ان کے دشمنوں کو ہم ہی نے ہلاک کیا۔ الیاس اور لوط (علیہما السلام) ہماری مدد کے محتاج تھے اس لیے شفیع غالب نہ تھے۔ وان یونس لمن المرسلین۔ تا۔ فمتنعہم الی حین (رکوع 5) ، یہ ساتواں قصہ ہے یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں ہمیں پکارا اور پھر ہم ہی نے ان کو مچھلی کے پیٹ سے صحیح سلامت باہر نکالا، لہٰذا وہ بھی کارساز اور شفیع غالب نہیں تھے۔
فاستفتہم الربک البنات ۔۔الخ، یہ پہلے فاستفتہم کا اعادہ ہے برائے تنویر و توضیح۔ ام خلقنا الملئکۃ اناثا۔ تا۔ الا من ھو صال الجحیم میں فرشتوں اور جنوں کے ذکر کا لف و نشر مرتب کے طور پر پہلی بار اعادہ ہے اور وما منا الا لہ مقام معلوم۔ تا۔ وانا لنحن المسبحون میں فرشتوں کے ذکر کا دوسری بار یہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذکر کا اعادہ ہے اور ان کے لیے بشارت دنیوی ہے۔ فتول عنہم حتی حین۔ تا۔ وابصر فسوف یبصرون، یہ تخویف دنیوی ہے۔ سبحن ربک رب العزۃ عما یصفون۔۔ الخ، یہ سورت کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی شریک یا اس کی بارگاہ میں کوئی شفیع غالب ہو۔ انبیاء (علیہم السلام) کو سلامتی ہی عطا فرماتا ہے۔ اور وہ پروردگار عالم ہی تمام صفات کارسازی کا مالک ہے۔
مختصر ترین خلاصہ
سورة کی ابتداء میں فرشتوں اور اس کے بعد جنوں کے عجز کا ذکر ہے اس کے شکوے، زجریں، تخویفیں اور بشارتیں مذکور ہیں۔ پھر سات انبیاء (علیہم السلام) کا اس انداز میں ذکر ہے کہ وہ تو خود مصائب و آفات میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور نیاز مندی کا اقرار و اعتراف کر رہے ہیں۔ اس کے بعد دو بار فرشتوں کے ذکر کا اور ایک بار جنوں کے ذکر کا اعادہ ہے اور پھر انبیاء (علیہم السلام) کے ذکر کا ایک بار اجمالی اعادہ ہے اور آخر میں پوری سورت کا خلاصہ مذکور ہے۔
Download PDF