سورۃ یس مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 36 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے41 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 83آیات ہیں جو5 رکوع پر مشتمل ہیں۔کلام کا مدعا کفار قریش کو نبوت محمدی پر ایمان نہ لانے اور ظلم و استہزاء سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرانا ہے۔ اس میں انذار کا پہلو غالب اور نمایاں ہے مگر بار بار انذار کے ساتھ استدلال سے تفہیم بھی کی گئی ہے۔
:سورة یس کا ماقبل سے ربط
سورة سبا میں نفی شفاعتِ قہری کا مضمون مذکور ہوا۔ سورة یسین، الصافات، ص اور زمر کا کچھ حصہ سورة سبا پر مرتب ہے یعنی مضمون (نفی شفاعت قہری) ان سورتوں میں بطریق ترقی ذکر گیا ہے۔ سورة سبا میں اس دعوے کے بارے میں شبہات کا ازالہ کیا گیا اب سورة یسین میں فرمایا کہ یہ مزعومہ سفارشی جب مشرکین کو اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے تو وہ شفیع غالب کس طرح بن سکتے ہیں۔
یس۔ تا فبشرہ بمغفرۃ و اجر کریم، تمہید مع ترغیب۔ قرآن حکیم ایسی عظیم الشان کتاب آپ کی صداقت پر شاہد ہے لیکن اکثر لوگ بوجہ مہر جباریت ایمان نہیں لائیں گے۔ انا نحن نحی الموتی۔۔ الخ۔ تخویف اخروی ہے۔ واضرب لہم۔ تا۔ فاذاھم خامدون (رکوع 2) ۔ اصحاب القریہ کا قصہ کس قدر عبرت آموز ہے انہوں نے ہمارے پیغمبروں کو جھٹلایا اور ایک مومن کو شہید کر ڈالا۔ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑ لیا۔ لیکن ان کے سفارشی ان کو ہماری گرفت سے نہ چھڑا سکے۔تنبیہ :اِس مرد مومن نے بھی اپنی قوم کے سامنے اہل ایمان کی ایک صفت جلی کا ذکر کیاکہ اتباع کرو انکی جو تم سے اجرت بھی نہیں لیتے اور ہیں بھی ہدایت یافتہ۔یعنی اہل ایمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ دینی امور پر اجرت نہیں لیتے۔ اس قصے کے ضمن میں دعوی سورت بھی آگیا۔ ء اتخذ من دونہ الھۃ ان یردن الرحمن بضر لا تغن عنی شفاعتھم شیئا ولا ینقذون، یعنی اللہ کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں جو کسی کو اس کی گرفت سے بچا سکے۔ یحسرۃ علی العباد۔۔ الخ : یہ شکوہ ہے۔ الم یروا۔ تا۔ محضرون، یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ ہم نے کتنی ہی سرکش اور مشرک قوموں کو ہلاک کیا اور ان کے شفعاء نے ان کو ہلاکت سے نہ بچایا۔ وایۃ لھم الارض۔ تا۔ ومما لا یعلمون (رکوع 3) ، یہ دوسری عقلی دلیل ہے۔ مردہ زمین کو زندہ کر کے اس سے غلہ پیدا کرنا کھجور اور انگور اور پھلوں کے باغات پیدا کرنا۔ زمین سے پانی کے چشمے جاری کرنا۔ یہ ہمارا کام ہے ان کے شفعاء اس میں شریک نہیں ہیں۔ تمہارے مزعومہ شفعاء اور معبود (فرشتے، جن، انبیاء علیہم السلام) ان کاموں میں سے ایک کام بھی نہیں کرسکتے۔ پھر وہ شفیع اور معبود کیسے بن سکتے ہیں۔ وایۃ لہم الیل۔ تا۔ وکل فی فلک یسبحون، یہ تیسری عقلی دلیل ہے یہ سارا نظام شمسی اللہ تعالیٰ کے تصرف سے چل رہا ہے۔ اس کائنات کے نظم و نسق میں آج تک سر مو فرق نہیں آیا۔ اگر کوئی شفیع غالب ہے تو اس نظام میں ادنی سے ادنی تبدیلی کر کے دکھا دے۔ وایۃ لہم انا حملنا۔ تا۔ ومتاعا الی حین، یہ چوتھی عقلی دلیل ہے ہم ان کو کشتیوں اور بحری جہازوں میں صحیح سلامت پار اتارتے ہیں۔ اور جب چاہیں غرق کردیں لیکن ان کے مزعومہ سفارشہ اور کارساز انہیں غرق ہونے سے نہ بچا سکیں۔ واذا قیل لہم اتقوا۔ تا۔ فی ضلل مبین، شکوہ ہے۔ ویقولون متی ھذا الوعد۔ تا ما کنتم تعملون (رکوع 4) ، یہ تخویف اخروی ہے۔ ان اصحب الجنۃ۔ تا۔ سلم قولا من رب رحیم، یہ بشارت اخروی ہے۔ وامتازوا الیوم۔ تا۔ بما کانوا یکسبون، یہ بھی تخویف اخروی ہے۔ ولو نشاء لطمسنا۔ تا۔ افلا یعقلون، یہ تخویف دنیوی ہے۔ وما علمنہ الشعر۔ تا۔ و یحق القول علی الکفرین (رکوع 5) یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے۔ مشرکین کہتے ہیں یہ (پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر ہے اور یہ قرآن شعر ہے، فرمایا قرآن شعر نہیں اور نہ ہم نے پیغمبر (علیہ السلام) کو شاعری کی استعداد ہی عطا فرمائی ہے۔ کیونکہ شاعری آپ کی شان کے لائق ہی نہیں۔ اولم یروا۔ تا۔ افلا یشکرون۔ یہ پانچویں عقلی دلیل ہے یہ انواع و اقسام کے چوپائے جن میں سے کچھ تو سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کا وہ گوشت کھاتے اور دودھ پیتے ہیں۔ یہ سب ہم ہی نے پیدا کیے ہیں ان کے مزعومہ معبودوں کا ان کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں۔ اس لیے وہ معبود اور شفیع نہیں ہوسکتے۔ واتخذوا من دون اللہ۔۔ الخ، جن کو ان مشرکین نے اپنا کارساز بنا رکھا ہے تاکہ بوقت حاجت ان کے کام آئیں وہ سب مل کر بھی ان کی مدد نہیں کرسکتے۔ فلا یحزنک قولہم۔۔ الخ، یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی اور مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ اولم یر الانسان۔ تا۔ وھی رمیم، یہ شکوی ہے۔ انسان کس قدر احسان فراموش ہے۔ ہم نے اس کو ایک ناچیز قطرہ آب سے پیدا کیا۔ لیکن بڑا ہو کر وہ ہماری توحید اور قدرت میں جھگڑنے لگا اور کہنے لگا بھلا ان بوسیدہ ہڈیوں کو بھی کوئی زندہ کرسکتا ہے اس موقع پر اس نے اپنی پیدائش بھلا دی۔ قل یحییہا الذی انشاھا اول مرۃ۔ تا۔ کن فیکون، یہ جواب شکوی اور قیامت کا ثبوت ہے۔ جس ذات پاک نے پہلی بار ہر چیز کو نیست سے ہست کرلیا۔ مردہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ جس کی قدرت کا ایک ادنی کرشمہ یہ ہے کہ وہ سر سبز درخت سے آگ پیدا کرسکتا ہے پھر جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرما لیا وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ؟ حالانکہ اس کے لیے کوئی کام دشوار اور مشکل نہیں کسی کام کے پایہ تکمیل کو پہنچنے کے لیے صرف اس کا ارادہ ہی کافی ہے۔ فسبحن الذی بیدہ ۔۔الخ، یہ سورت کا لب لباب ہے۔ ساری کائنات کا مکمل نظم و نسق صرف اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں، اور قیامت ضرور آئے گی جس میں سب اللہ کے سامنے حاضر ہونگے۔
مختصر ترین خلاصہ
تمہید مع ترغیب کے بعد بعض انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہے کہ وہ اپنی قوم کے پاس آئے۔ قوم کو پیغام حق سنایا انہوں نے انکار کیا تب وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آگئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی ہے تاکہ وہ جانیں کہ اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و صداقت اور قرآن کی حقانیت واضح کی گئی ہے۔موقع بموقع شکوے ،زجریں ،تخویفیں اور بشارتیں مذکور ہیں ۔
Download PDF