|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  فاطر 

سورۃ  فاطر  مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 35 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے42 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 45آیات ہیں جو5 رکوع پر مشتمل ہیں۔ سورۃ کی پہلی ہی آیت کا لفظ  فاطر  کوسورۃ کا نام  قرار دیا گیا ہے۔اس سورۃ  میں اللہ تعالی کی ذات و صفات اس کی قدرتیں حکمتیں نعمتیں بیان کی گئی ہیں قرآن  کی حقانیت پر زور دیا گیا  محمد ﷺکی رسالت پر روشنی ڈالی گئی کی امت کے احوال بتائے گئے اہل جنت کو دی جانے والی نعمتوں اور اہل جہنم کے عذابات کا تذکرہ ہوا ۔

 :سورة فاطر کا سورۃ سبا سے ربط

سورة سبا میں نفی شفاعتِ قہری کا مسئلہ ذکر کیا گیا اور شبہات کا جواب دیا گیا اور بتایا گیا کہ قوم سبا کو انکار و اکفران  نعمت کی دنیا ہی میں سزا دی گئی۔ اب سورة فاطر میں دلائل مذکور ہونگے۔ الحمد للہ فاطر السموات۔۔ الخ تمام صفات کارسازی اللہ کے ساتھ خاص ہیں جو زمین و آسمان کا فاطر (خالق) ہے جس کے نہ ماننے سے عذاب دیا گیا۔یعنی(جب اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں تو) ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کے لیے بجا لؤ۔ اور حاجات میں مافوق الاسباب صرف اسی ہی کو پکارو۔

پہلی عقلی دلیل : الحمد للہ فاطر السموات۔ تا۔ علی کل شیء قدیر۔ تمام صفات کارسازی اللہ کے ساتھ مختص ہیں۔ زمین و آسمان کا خالق بھی وہی ہے۔ فرشتوں کو بھی اسی نے پیدا فرمایا اور مختلف خدمات ان کے ذمے لگا دیں۔ تو فرشتے خدام ہوئے نہ کہ کارساز، کارساز وہی ہے جو تمام صفات کارسازی کا مالک اور ساری کائنات اور فرشتوں کا خالق ہے جو خدام ہیں۔

دوسری عقلی دلیل : ما یفتح اللہ للناس۔ تا۔ وھو العزیز الحکیم۔ رحمت و برکت کا دروازہ کھولنا اور بند کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے اس لیے وہی کارساز ہے اور حاجات میں اسی کو پکارو۔ یا ایہالناس اذکروا۔۔ الخ : یہ ترغیب الی التوحید ہے۔ ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں۔ اس کی نعمتوں کو یاد رکھو اور اللہ کا شکر ادا کرو اور اللہ کو وحدہ لا شریک مانو۔

تیسری عقلی دلیل : ھل من خالق۔ تا۔ فانی توفکون۔ یہ پہلا اور مختصر ثمرہ بھی ہے جو پہلی دونوں دلیلوں پر مرتب ہے۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی رازق نہیں لہٰذا اس کے سوا کارساز اور حاجت روا بھی کوئی نہیں۔ پہلی اور دوسری دلیل سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا خالق ہے اور رحمت و برکت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے تو اس کا نتیجہ وثمرہ یہ ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی خالق و رازق نہیں۔ و ان یکذبوان۔۔ الخ  تسلی برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ یا ایہا الناس ان وعد اللہ حق۔ تا۔ لھم عذاب شدید، تخویف اخروی ہے۔ والذین امنوا۔۔ الخ : یہ مومنوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ افمن زین لہ۔ تا۔ یصنعون (رکوع 3) زجر ہے۔ جن لوگوں کو اپنی بد اعمالیاں بھی اچھی معلوم ہوتی ہیں ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس لیے آپ ان کی وجہ سے اپنی جان کو دکھ میں نہ ڈالیں۔

چوتھی عقلی دلیل : واللہ الذی ارسل۔ تا۔ کذالک النشور، اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے مینہ برسا کر بنجر اور ناکارہ زمین کو زرخیز اور شاداب بناتا ہے لہٰذا وہی کارساز ہے۔ من کان یرید العزۃ۔۔ الخ : یہ ایک شبہ کا ازالہ ہے، مشرکین اس خیال سے معبودانِ باطلہ کو پکارتے ہیں کہ انہیں عزت و شوکت حاصل ہوجائے۔ فرمایا جو لوگ عزت و عظمت چاہتے ہیں ان کو لازم ہے کہ وہ خالصۃً اللہ ہی کو حاجات میں پکارا کریں کیونکہ عزت و ذلت اللہ کے اختیار میں ہے والذین یمکرون السیئات ۔۔الخ : یہ منکرین کے لیے تخویف اخروی ہے۔

پانچویں عقلی دلیل : واللہ خلقکم۔ تا۔ علی اللہ یسیر، اللہ تعالیٰ نے کمال قدرت سے تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔ اور پھر قطرہ آب سے اس کی نسل کا سلسلہ جاری کیا۔ شکم مادر میں بچہ پر جو کچھ گذرتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر ایک کی عمر کا انداز بھی اسے معلوم ہے۔ سب کا خالق بھی وہی اور عالم الغیب بھی وہی اس لیے کارساز بھی وہی ہے لہٰذا حاجات میں مافوق الاسباب اسی کو پکارو۔

چھٹی عقلی دلیل : وما یستوی البحران۔ تا۔ و لعلکم تشکرون۔ شیریں اور کھاری پانی کے سمندر بھی اسی نے پیدا کیے پھر ان میں تمہاری خوراک کے لیے مچھلیاں اور زینت و آرائش کے لیے قیمتی جواہرات پیدا کیے اور وہی سمندروں میں چلنے والی کشتیوں کو سہارا دیتا ہے تاکہ تم ان کے ذریعے تجارت سے نفع کماؤ۔ جس نے یہ ساری نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہی سب کا حاجت روا اور کارساز ہے۔

ساتویں عقلی دلیل : یولج الیل فی النہار۔ تا۔ یجری لاجل مسمی۔ رات دن کی آمد و رفت، ان کا گھٹنا اور بڑھنا، سورج اور چاند دوسرے لفظوں میں سارا نظام شمسی جو ساری کائنات سے عبارت ہے۔ اللہ کے اختیار و تصرف میں ہے۔ ذلکم اللہ ربکم۔ تا۔ ولا ینبئک مثل خبیر۔ یہ دلائل سابقہ کا دوسرا اور تفصیلی ثمرہ مذکورہ دلائل میں جو اوصاف ذکر کیے گئے ہیں ان سے جو ذات متصف ہے حقیقت میں وہی تم سب کی مالک اور کارساز ہے۔ ساری کائنات میں اسی کا تصرف و سلطان ہے اور وہی ہر چیز کا مالک ہے۔ اے مشرکین ! اللہ کے سوا تم جن خود ساختہ معبودوں کو پکارتے ہو۔ وہ تو ایک تنکے کے بھی مالک نہیں۔ اور پھر تمہاری دعا اور پکار کو سن بھی نہیں سکتے اور اگر بفرض محال سن بھی لیں تو تمہاری مقصد برآری نہیں کرسکتے۔ کیونکہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ تمہاری دعا اور پکار سے ان کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ قیامت کے دن وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں تو ان کے اس مشرکانہ فعل کی خبر تک نہ تھی۔ جن کے عجز اور بے خبری کا یہ حال ہو وہ کس طرح کارساز بن سکتے ہیں۔

آٹھویں عقلی دلیل : یا ایہا الناس انتم الفقراء۔ تا۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز (رکوع 3) جن و بشر اور فرشتے سب اللہ کے محتاج ہیں۔ لیکن اللہ سب سے بےنیاز ہے۔ وہ چاہے تو سب انسانوں کو یکدم ختم کر کے ان کی جگہ اور انسان پیدا کرلے۔ یہ اس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ اس لیے وہی متصرف و مختار اور سب کا کارساز ہے۔ ولا تزر و ازرۃ ۔۔الخ : یہ تخویف اخروی ہے۔ انما تنذر الذین یخشون ربھم۔۔ الخ : یہ بشارت اخروی ہے۔ وما یستوی الاعمی والبصیر۔ تا۔ من فی القبور۔ یہ مومن و کافر اور توحید و شرک کی تمثیلات ہیں۔ ان انت الا نذیر۔ تا۔ خلا فیہا نذیر : تسلیہ برائے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وان یکذبونک۔ تا۔ فکیف کان نکیر : تسلیہ مع تخویف دنیوی۔

نوی عقلی دلیل : الم تر ان اللہ۔ تا۔ مختلف الوانہ کذلک (رکوع 4) : آسمان سے مینہ برسانا اور زمین سے مختلف الوان و اقسام کے پھل اور میوں پیدا کرنا پہاڑوں میں سفید، سرخ اور سیاہ وغیرہ مختلف رنگوں کے پتھر، انسانوں اور چوپاؤں میں رنگوں کا اختلاف۔ یہ سب اس کے کمال قدرت و صنعت کی نشانیاں ہیں۔ اس قادر و توانا کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ انما یخشی اللہ ۔۔الخ : یہ زجر ہے۔ ان الذین یتلون۔ تا۔ انہ غفور و شکور : بشارت اخروی ہے۔ دلیل وحی : والذی اوحینا۔ تا۔ لخبیر بصیر۔ قرآن کی صورت میں ہم نے آپ کے پاس جو وحی بھیجی ہے اس میں جو مسئلہ توحید بیان کیا ہے وہ سراپا حق ہے۔ ثم اور ثنا الکتاب۔ تا ولا یمسنا فیہا لغوب : اہل ایمان کتاب اللہ کی خدمت کرنے والوں میں تین قسم کے لوگوں کا بیان  اور سب کے لیے بشارت اخروی ہے۔ والذین کفرو۔ تا۔ من نصیر۔ منکرین کے لیے تخویف اخروی۔

دسویں عقلی دلیل : ان اللہ علم غیب السموات۔۔ الخ (رکوع 5) : زمین و آسمان کی ہر پوشیدہ چیز کو اور دلوں میں چھپے ہوئے رازوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اس لیے وہی کارساز اور حاجت روا ہے۔ ھو الذی جعلکم۔ تا۔ ولا یزید الکفرین کفرھم الا خسارا : ترغیب الی شلکر مع تخویف اخروی۔ قل ارایتم شرکاء کم۔ تا۔ الا غرورا۔ یہ دلائل سابقہ کا دوسرا تفصیلی ثمرہ ہے گزشتہ دلائل سے واضح ہوگیا ہے کہ ساری کائنات کا خالق ومالک بل شرکت غیرے اللہ تعالیٰ ہی ہے لہٰذا اس کے سوا کوئی کارساز اور پکارے جاننے کے لائق نہیں۔ اب جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ کیا زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ اور اگر خالق ہوئے بغیر ہی وہ کارساز اور دعا پکارے کے مستحق ہوگئے ہیں۔ تو اس کی کیا دلیل ہے ؟ مشرکین سے دلیل عقلی اور نقلی کا مطالبہ کیا گیا اور وحی کا چونکہ امکان ہی نہیں ہے اس لیے اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

گیارہویں عقلی دلیل : ان اللہ یمسک السموات۔ تا۔ انہ کان حلیما غفورا۔ زمین کو اور آسمانوں کو اپنی اپنی جگہ اللہ ہی نے روک رکھا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی ان کو روک نہیں سکتا۔ اس لیے ساری کائنات کا سہارا اور کارساز بھی وہی ہے۔ پہلی دلیل میں فرمایا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے اور آخری دلیل میں فرمایا زمین اور آسمان کا نگہبان اور ان کو قائم رکھنے والا بھی وہی ہے۔ واقسموا باللہ۔ تا۔ ولن تجد لسنت اللہ تحویلا : زجر مع تخویف دنیوی۔ اولم یسیروا فی الارض۔۔ الخ : یہ تخویف دنیوی ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

اس سورت میں نفی شرک اعتقادی (شرک فی التصرف) کا مضمون ذکر کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا مالک اور خالق اور سارے عالم میں متصرف و مختار اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس لیے حاجات و مشکلات میں صرف اسی ہی کو پکارو۔ اس دعوئے پر بارہ دلائل ذکر کیے گئے گیارہ عقلی اور ایک دلیل وحی۔ دلائل کے ساتھ ساتھ تین جگہ دلائل کا ثمرہ بھی ذکر کیا گیا ہے ایک جگہ اجمالاً اور دو جگہ تفصیلاً اور ساتھ ہی موقع بموقع تخویفیں، بشارتیں اور زجریں بھی مذکور ہیں۔