سورۃ سبا مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 34 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے58 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 54آیات ہیں جو6 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام اس سورۃ کی آیت نمبر15 لقد کان لسبا في مسکنهم سے ماخوذ ہے۔اس سورة میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید و آخرت پر اور خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر زیادہ تر طنز و تمسخر اور بیہودہ الزامات کی شکل میں پیش کرتے تھے۔جوابات اکثر و بیشتر تفہیم و تذکیر اور استدلال کے انداز میں ہیں، لیکن کہیں کفار کو ان کی ہٹ دھرمی کے برے انجام سے ڈرایا بھی گیا ہے۔ اسی سلسلہ میں داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) اور قوم سبا کے قصے اس غرض کے لیے بیان کیے گئے ہیں کہ تمہارے سامنے تاریخ کی یہ دونوں مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی طاقتیں بخشیں اور وہ شوکت و حشمت عطا کی جو پہلے کم ہی کسی کو ملی ہے، مگر یہ سب کچھ پا کر وہ کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوئے بلکہ اپنے رب کے خلاف بغاوت کرنے کے بجائے اس کے شکر گزار بندے ہی بنے رہے۔ اور دوسری طرف سبا کی قوم ہے جسے اللہ نے جب اپنی نعمتوں سے نوازا تو وہ پھول گئی اور آخر کار اس طرح پارہ پارہ ہوئی کہ اس کے بس افسانے ہی اب دنیا میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھ کر خود رائے قائم کرلو کہ توحید و آخرت کے یقین اور شکر نعمت کے جذبے سے جو زندگی بنتی ہے وہ زیادہ بہتر یا وہ زندگی جو کفر و شرک اور انکار آخرت اور دنیا پرستی کی بنیاد پر بنتی ہے۔
:سورة سبا کا سورۃ الاحزاب سے ربط
سورة احزاب میں بیان کیا گیا تھا کہ تم توحید پر قائم رہو۔ اگرچہ احزاب (مشرکین کے تجھے) تمہارے مقابلہ میں آجائیں فتح اور کامیابی تمہاری ہی ہوگی۔ جیسا کہ غزوہ احزاب میں مشرکین کے مقابلہ میں تمہیں فتح دی اب سورة سبا میں فرمایا۔ مشرکین اگر مسئلہ توحید کو مان لیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔ ورنہ انہیں انکار وعناد پر وہی سزا دی جائے گی جو قوم سبا کو دی گئی۔
سورة احزاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ اپنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ اور منہ بولے بیٹے کو بیٹا کہہ دینے سے وہ بیٹا نہیں وہ بیٹا نہیں جاتا۔ اور کسی کو شفیع غالب کہہ دینے سے وہ فی الواقع شفیع غالب نہیں جاتا۔ اب سورة سبا میں انبیاء، ملائکہ اور جنات کے بارے میں مشرکین شبہات کا جواب دیا جائے گا کہ وہ شفیع غالب نہیں ہیں۔
الحمد للہ۔۔ الخ، یہ پہلی عقلی دلیل ہے۔ تمام صفات کارسازی اس ذات پاک کے ساتھ مختص ہیں جو سارے جہاں کی خالق ومالک اور ساری کائنات میں متصرف و مختار ہے دنیا میں بھی وہی کارساز ہے اور آخرت میں بھی یعلم ما یلج فی الارض ۔۔الخ، یہ پہلی دلیل کا دوسرا حصہ ہے۔ وہ عالم الغیب ہے اور کائنات کے ذرے ذرے سے باخبر ہے۔ اس لیے ایسے حکیم وخبیر اور ایسی قدرت و سلطنت کے مالک کی بارگاہ میں سب عاجز و درماندہ ہیں اور کوئی اس کے یہاں شفیع غالب نہیں۔ وقال الذین کفروا ۔۔الخ، یہ شکوہ ہے۔ کفار نہ صرف غیر اللہ کو اللہ کے یہاں شفیع غالب سمجھتے ہیں بلکہ قیامت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ قل بلی و ربی ۔۔الخ، یہ جواب شکوی اور توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے۔ قیامت ضرور آئے گی۔ اور ہر آدمی کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا ملے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ جواب کو رب کی قسم کے ساتھ موکد کیا گیا۔ قسم کے ایسے اوصاف ذکر کیے گئے ہیں جو توحید کی عقلی دلیل ہیں۔ یعنی وہ عالم الغیب ہے۔ کوئی ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں۔ لیجزی الذین امنوا ۔۔الخ، یہ مومنوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ والذین سعو الخ، یہ معاندین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ ویری الذین ۔۔الخ، یہ مومنین اہل کتاب سے نقلی دلیل ہے یعنی اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دعوت توحید پیش کی ہے وہ سراپا حق ہے۔ وقال الذین ۔۔الخ، یہ شکوی ہے۔ بل الذین لا یومنون ۔۔الخ، جواب شکوی۔ افلم یسیروا۔۔ الخ، یہ منکرین توحید اور جاحدین بعث کے لیے تخویف دنیوی ہے۔ ولقد اتینا داؤد ۔۔الخ، یہ شبہ اولیٰ کا جواب ہے۔ شبہ اولیٰ یہ تھا کہ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح پڑھتے تھے۔ اور لوہا ان کے ہاتھوں میں موم کی طرح نرم تھا جب انہیں اس قدر تصرف حاصل تھا تو کیا وہ اللہ کے یہاں شفیع غالب نہ ہوں گے ؟ تو اس کا جواب فرمایا کہ یہ تمام فضیلت و بزرگی ہم نے ان کو دی تھی یہ ان کے اختیار میں نہیں تھی اس لیے وہ شفیع غالب نہیں بن سکتے۔ ولسلیمن الریح۔۔ الخ، یہ دوسرے شبہ کا جواب ہے شبہ یہ تھا کہ ہوا اور جن سلیمان (علیہ السلام) کے تابع فرمان تھے اور یہ چیزیں ان کے اپنے اختیار میں تھیں اور وہ شفیع غالب تھے۔ فرمایا سلیمان (علیہ السلام) بیشک بڑے مرتبہ کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ لیکن یہ چیزیں ان کے اپنے اختیار و تصرف میں نہ تھیں بلکہ ان کو ہم نے اپنے حکم سے ان کے ماتحت کردیا تھا اور وہ انسان کے فائدے کے لیے ہمارے حکم سے کام کرتے تھے۔ فلما قضینا ۔۔الخ، یہ تیسرے شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین کا جنات کے بارے میں بھی گمان ہے کہ وہ غیب جانتے ہیں ۔سلیمان (علیہ السلام) جنوں کو کام لگا کر خود لاٹھی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے، اسی حال میں ان کی روح رفیق اعلی سے جا ملی۔ لیکن لاٹھی کے سہارے کی وجہ سے ان کا بدن اسی طرح کھڑا رہا اور جن بھی ان کو زندہ سمجھ کر کام میں لگے رہے۔ عرصہ کے بعد جب لاٹھی کو دیمک لگ گئی اور وہ ٹوٹ گئی تو سلیمان (علیہ السلام) کا بدن مبارک زمین پر گر پڑا تو جنوں کو معلوم ہوا کہ وہ تو وفات پا چکے ہیں۔ اب جنوں کی حقیقت ظاہر ہوگئی کہ وہ غیب نہیں جانتے۔ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اتنا عرصہ اس محنت شاقہ میں کیوں مبتلا رہتے۔ لقد کان ۔۔الخ، یہ تخویف دنیوی ہے۔ قوم سبا کو دنیا میں کس قدر آرام و راحت اور عیش و عشرت کی زندگی سے ہمکنار کیا گیا۔ لیکن جب انہوں نے ناشکری کی تو ان کے لہلاتے کھیتوں اور سرسبز و شاداب باغوں کو تباہ و ویران کردیا گیا۔ قل ادعوا۔۔ الخ (رکوع 3) چوتھے شبہ کا جواب ہے۔ مشرکین فرشتوں کو بھی عنداللہ شفیع غالب مانتے تھے۔ فرمایا ان کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے وہ شفیع غالب نہیں بن سکتے۔
تنبیہ: و لقد صدق عليهم۔۔الخ ابلیس کا گمان سچا کر دیکھایا۔ ابلیس نے کہا تھا۔ ولا تجد اکثرہم شاکرین (اعراف رکوع 2) ۔ اے اللہ ! تو اولاد آدم میں سے بہتوں کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ میں ان کو سبز باغ دکھا کر اپنے پیچھے لگا لوں گا۔ چنانچہ اہل سبا بھی ابلیس کے ورغلانے میں آگئے اور اس کے پیچھے لگ گئے۔ البتہ مومنوں کی ایک جماعت نے ابلیس کی پیروی نہ کی اور حق پر ثابت قدم رہے۔آج بھی بیشمار فرقوں میں صرف ایک ہی گروہ حق پر قائم ہے باقی سب فرقے ابلیس کے پیروکار ہیں۔ ولا تنفع الشفاعۃ ۔۔الخ، یہ نفی شفاعت قہری ہے۔ یعنی اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب نہیں۔ قیامت کے دن جب ملائکہ سے پوچھا جائے گا تو وہ صحیح صحیح بیان دے دیں گے۔ قل من یرزقکم ۔۔الخ۔ یہ دوسری عقلی دلیل ہے لیکن علی سبیل الاعتراف من الخصم، جب تم مانتے ہو کہ سارے جہاں کا رازق اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ ساری کائنات میں متصرف و مختار بھی وہی ہے۔ وانا او ایاکم ۔۔الخ، یہ پہلا طریق تبلیغ ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مشرکین سے خطاب میں لب و لہجہ نرم اختیار کیا جائے۔ قل لا اسئلکم ۔۔الخ، یہ دوسرا طریق تبلیغ ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ قل یجمع بیننا و بینکم۔۔ الخ، یہ تیسرا طریق تبلیغ ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہم سب کو جمع کر کے فیصلہ فرمائے گا۔ اور ہر ایک اپنے اعمال کی جزاء و سزا پالے گا۔ ویقولون متی۔۔ الخ، یہ شکوی ہے۔ یہ وعدہ کب پورا ہوگا اس کا معین وقت بتایا جائے۔ قل لکم میعاد ۔۔الخ، یہ جواب شکوی ہے۔ اس کا وقت مقرر ہے۔ وہ اپنے وقت پر ضرور آئے گا۔ اور اس میں ہرگز کمی بیشی نہ ہوگی۔ وقال الذین کفروا ۔۔الخ (رکوع 2) ، یہ شکوی ہے۔ ولو تری ۔۔الخ، یہ تخویف اخروی ہے۔ جن لوگوں نے دنیا میں گمراہی اختیار کی اور دوسروں کو گمراہ کیا، قیامت کے دن جب عذاب کو دیکھیں گے تو سخت نادم ہونگے۔ مگر بےسود، وما ارسلنا۔۔ الخ، یہ تخویف دنیوی ہے۔ قل ان ربی یہ تیسری عقلی دلیل ہے۔ روزی کی فراخی اور تنگی اللہ کے اختیار میں ہے۔ اور وہی سارے جہاں میں متصرف و مکتار ہے۔ وما اموالکم۔۔ الخ، یہ زجر ہے۔ من امن و عمل۔۔ الخ، بشارت اخروی۔ والذین یسعون ۔۔الخ، زجر مع تخویف اخروی، قل ان ربی ۔۔الخ، اعادہ دلیل ثالث۔ و یوم یحشرھم۔۔ الخ، تخویف اخروی۔ واذا تتلی علیہم۔۔ الخ، شکوی۔ وکذب الذین ۔۔الخ، تخویف دنیوی ہے۔ قل انما اعظکم۔۔ الخ (رکوع 5) ، یہ ترغیب الی التوحید اور چوتھا طریق تبلیغ ہے۔ قل ما سالتکم ۔۔الخ، پانچواں طریق تبلیغ۔ تبلیغ حق پر میں تم سے کچھ معاوضہ نہیں مانگتا۔ قل ان ربی۔۔ الخ، یہ چھٹا طریق تبلیغ ہے۔ میرا رب حق کھول کر بیان فرماتا ہے۔ اور وہی علام الغیوب ہے۔ قل جاء الحق ۔۔الخ، یہ ساتواں طریق تبلیغ ہے۔ دین حق کو غلبہ حاصل ہوچکا ہے۔ دلائل حق کے سامنے باطل ہمیشہ مغلوب رہے گا۔ قل ان ضللت۔۔ الخ، یہ آٹھواں طریق تبلیغ ہے۔ تمہیں اپنے اعمال درست کرنے کی کوشش کرنا چاہیے میرے اعمال کے تم ذمہ دار نہیں ہو۔ ولو تری اذ فزعوا۔ تا۔ تا آخر تخویف اخروی ہے۔
مختصر ترین خلاصہ
سورة سبا میں مرکزی مضمون شفاعت قہری ہے۔ جسے چھ دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔ جن میں سے ایک دلیل نقلی اور ایک دلیل وحی ہے۔ اور چار عقلی دلیلیں ہیں۔ جن میں سے ایک علی سبیل الاعترات من الخصم ہے۔ اور اصل مضمون کے بارے میں چار شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ پہلا شبہ داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں۔ دوسرا سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں۔ اور تیسرا جنات کے بارے میں اور چوتھا ملائکہ کے بارے میں ہے۔ آٹھ طریقہائے تبلیغ، تین درمیان میں اور پانچ آخر میں مذکور ہیں۔ موقع بموقع تخویفات اور زجریں وغیرہ بھی ہیں۔
Download PDF