|

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

سورۃ  الاحزاب

سورۃ  الاحزاب مدنی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ 33 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے88 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 73آیات ہیں جو9 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورۃ کا نام اسی سورۃ کی آیت نمبر20 یَحْسَبُونَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْھَبُوْا سے ماخوذ ہے۔بطور علامت یعنی وہ سورۃ جس میں جنگ الاحزاب کا ذکر ہے۔ سورہ کے ابتدا میں منہ بولے بیٹوں کا شرعی حکم اور ظہار کی شرعی حیثیت واضح کی گئی ہے پھر رسول اللہﷺ کا اپنی امت پر اختیار اور آپ کی ازواج مطہرات کی عظمت بتائی گئی ہے پھر غزوہ الاحزاب اور غزوہ بنو قریظہ کا ذکر شروع ہوتا ہے پھررسول اللہ کی ازواج مطہرات کی عظمتوں پر بیان ہے اوررسول اللہ کی زینب بنت حجش سے نکاح پر منافقین ویہودکے اعتراضات کا جواب ہے اور رسول اللہ کی شان ختم نبوت بیان فرمائی گئی ہے اور نکاح کے بارے میں آپ کے لئے خصوصی اختیارات بیان کیے گئے ہیں پھررسول اللہ کی خدمت میں حاضری کے آداب بیان کیے گئے ہیں اور آپ پر یہ درود و سلام بھیجنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اورخواتین اسلام کو پردہ کے احکام بتائے گئے اور منافقین کے کردار پر رد  ّکر دیا گیا ہے اور آخررسول اللہﷺسے گفتگو کا ادب اور اطاعت کا حکم  دیا گیا ہے۔

 :سورة احزاب کا سورۃ السجدہ سے ربط

 سورة سجدہ میں فرمایا مالکم من دونہ من ولی ولا شفیع یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی کارساز نہیں اس کے سوا کسی کو مت پکارو اور نہ اللہ کے یہاں کوئی شفیع غالب ہے تم اس عقیدے پر قائم رہو اور اس کی تبلیغ کرو۔ اگرچہ عرب کے تمام قبائل (احزاب) مل کر تمہارے مقابلے میں آجائیں۔ معنی ربط یہ ہے کہ سورة سجدہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی شفیع غالب نہیں لہٰذا کسی کو شفیع غالب سمجھ کر حاجات میں غائبانہ مت پکارو۔ اب سورة احزاب میں مذکور ہوگا کہ اس معاملے میں مشرکین کی بات نہ ماننا کیونکہ اب وہ خود بخود نرم ہو کر صلح کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے معبودانِ باطلہ کو کم از کم عنداللہ شفیع غالب مان لیا جائے اس لیے سورة احزاب میں حکم دیا گیا کہ مشرکین کی اس پیشکش کو ٹھکرا دینا اور اس معاملے میں نرمی اختیار کر کے کسی کو بھی شفیع غالب تسلیم نہ کرنا اور صاف کہ دینا کہ جو معبود عنداللہ شفیع نہیں ہیں وہ تمہارے بنانے سے شفیع نہیں بن سکتے۔

 اس سورة میں مشرکین کی تین خرابیوں کو دور کرنا مقصود ہے جن میں سے ایک اصول میں تھی اور دو فروع میں اصولی خرابی یہ تھی کہ وہ اپنے معبودوں کو عنداللہ شفیع غالب سمجھتے تھے فروعی خرابیاں یہ تھیں۔ اول، وہ اپنی بیوی سے ظہار کے بعد اسے بالکل ماں کی طرح سمجھتے اور کفارہ کے بعد بھی اسے اپنی بیوی نہ بناتے۔ دوم اپنے متبنی یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی بیوی کا درجہ دیتے اور متبنی کی وفات یا تطلیق کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کو حرام سمجھتے تھے، اصل مقصود تو عقیدہ شرکیہ یعنی شفاعت قہری کا ابطال ہے باقی دو جاہلانہ رسموں کا ذکر بطور نظیر ہے۔ حاصل یہ ہے کہ تمہارے زعم اور خیال سے تمہارے معبود شفیع غالب نہیں بن جاتے جس طرح ظہار سے بیوی حقیقی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کو بیٹا بنا لینے سے وہ حقیقت میں بیٹا نہیں بن جاتا۔ شروع میں یا ایہا النبی التقی اللہ ۔۔الخ میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کی پیشکش ٹھکرانے اور وحی ربانی کے اتباع کا حکم دیا گیا۔ وما جعل ازواجکم ۔۔الخ میں نظیر اول مذکور ہے اور وما جعل ادعیاء کم ابناء کم میں دوسری نظیر کا ذکر ہے اس کے بعد تمام سورة میں دوسری نظیر سے متعلق تفصیلات مذکور ہیں اللہ تعالیٰ کو خود رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے عمل سے اس رسم کو توڑنا منظور تھا اس لیے اس کے اسباب مہیا فرمادئیے۔ پہلے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قریبی رشتہ دار زینب کا نکاح آپ کے متبنی زید بن حارثہ کے ساتھ کرایا۔ خاوند بیوی کی آپس مین بن نہ آئی۔ زید نے طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زینب کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی نکاح کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے خود آپ کے عمل سے اس جاہلانہ رسم کا خاتمہ کردیا۔ یہ رسم چونکہ لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوچکی تھی اس لیے اس کے خلاف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل مشرکین اور منافقین کے لیے آپ کے خلاف پروپیگنڈے کا باعث بن سکتا تھا۔ ممکن تھا کہ اس مخالفانہ پروپیگنڈے سے بتقاضائے بشریت بعض مسلمان اور خود آپ کی ازواج مطہرات بھی متاثر ہوجائیں اس بات کا بھی امکان تھا کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں بھی کوئی خیال آجائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے دوسری رسم ختم کرنے کے بعد اس سورة میں انیس احکام نازل فرما دئیے۔ سات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے، دس مومنین کے لیے اور دو ازواج مطہرات کے لیے۔ مقصد یہ ہے کہ اے ایمان والو ! اس رسم کو توڑنے کی وجہ سے مشرکین اور منافقین میرے پیغمبر کی مخالفت اور آپ کی عزت پر حملے کریں گے۔ تم ان کی مخالفت سے مت دبنا۔ ہر حال میں پیغمبر (علیہ السلام) کا ساتھ دینا اور ان کی عزت و ناموس کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز سمجھنا۔ اے ازواج پیغمبر ! اس معاملے میں تم بھی نرمی اختیار نہ کرنا۔ اور ایسی بات زبان پر نہ لانا جس سے پیغمبر (علیہ السلام) کی عزت پر حرف آئے اور اے پیغمبر اس معاملے میں مشرکین سے نرمی کا معاہدہ ہرگز نہ کرنا اور ہمارے عہد و پیماں کے مطابق شرک اور رسوم جاہلیہ کے خلاف پوری قوت کے ساتھ آواز بلند کرنا۔ ساتھ ساتھ فتنہ پھیلانے والے مشرکین اور منافقین کے لیے تخویفیں اور زجریں بھی مذکور ہیں۔ النبی اولی بالمومنین۔۔ الخ، یہ مومنین کے لیے پہلا حکم۔ اے ایمان والو ! میرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جاہلیت کی رسم کو توڑا ہے، مشرکین اور منافقین آپ کی مخالفت کریں گے تم میرے پیغمبر کا ہر حال میں ساتھ دینا اور آپ کی عزت و آبروا کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کردینا اور آپ کی ازواج مطہرات کو اپنی مائیں سمجھنا۔ دیکھو ان کی عزت و حرمت پر حرف نہ آنے پائے۔ واذ اخذنا من النبیین ۔۔الخ، یہ رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلا خطاب ہے۔ مشرکین اور منافقین ان برائیوں کو ختم کرنے کی وجہ سے ضرور آپ کی مخالفت کریں گے لیکن آپ اس معاملے میں نرمی سے ہرگز کام نہ لیں اور حسب عہد و میثاق میرے احکام کی تبلیغ کریں۔ یا ایہا الذین امنوا ۔۔الخ، (رکوع 2) یہ مومنوں کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اے ایمان والو ! دشمنوں کی مخالفت سے خائف نہ ہونا اور ہمت نہ ہارنا اور میرے پیغمبر کا ساتھ ہرگز نہ چھوڑنا میں تمہارا ناصر اور مددگار ہوں جیسا کہ تمہاری بےسرو سامانی کے باوجود کوئی موقعوں پر میں نے تمہاری مدد کی۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب (غزوہ خندق) کا واقعہ بطور مثال ذکر فرمایا کہ دیکھو ناساز گا ری اسباب اور منافقین کے مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود میں نے تمہاری مدد کی جب وہ چڑھ آئے تھے تم پر تمہارے اوپر کی طرف سے اور تمہارے نیچے سے اور جب پتھرا گئی تھیں آنکھیں اور آگئے تھے کلیجے مونہوں کو اور گمان کرنے لگے تھے تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے ۔۔ اس واقعہ کی تفصیلات اذا جاء تکم جنود (رکوع 2) سے وکان اللہ علی کل شیء قدیرا (رکوع 3) میں مذکور ہیں۔ یا ایہا النبی قل لازواجک۔۔ الخ (رکوع 4) یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوسرا خطاب ہے کہ آپ اپنی بیویوں کو صاف لفظوں میں آگاہ فرما دیں کہ اگر تم دنیا کی دولت یا زینت چاہتی ہو تو میں تمہیں اپنے حبالہ نکاح سے آزاد کرنے کو تیار ہوں لیکن اگر تم اللہ کو اس کے رسول کو اور آخرت کو چاہتی ہو اور رسم جاہلیت کو توڑنے میں پیغمبر (علیہ السلام) کا ساتھ دینا چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی بہت عمدہ جزا عطا فرمائے گا۔ یا نساء النبی۔۔ الخ یہ ازواج مطہرات سے پہلا خطاب ہے۔ اے ازواج پیغمبر ! اگر تم میں سے کسی نے منافقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر پیغمبر (علیہ السلام) کے خلاف کوئی بات کہہ دی تو میں اسے دوگنی سزا دوں گا۔ اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گی۔ اور اس رسم جاہلییت کو توڑنے میں میرے پیغمبر کی حمایت کریں گی۔ اسے دوہرا اجر دوں گا۔ ینساء النبی لستن۔۔ الخ یہ ازواج مطہرات سے دوسرا خطاب ہے اے ازواج پیغمبر! اگر تم تقوی اختیار کرو تو تم دوسری عام عورتوں جیسی نہیں ہو۔ اس لیے تم اس معاملے میں نرم بات نہ کرنا کہ پیغمبر (علیہ السلام) اپنی مرضی والے ہیں جو چاہیں کریں۔ اگر یہ بات منافقوں تک پہنچ گئی تو وہ خوش ہوں گے کہ اس بارے میں پیغمبر کے اپنے گھر میں بھی اختلاف موجود ہے بلکہ صاف صاف کہو۔ پیغمبر (علیہ السلام) نے اپنے متبنی کی مطلقہ کے ساتھ اللہ کے حکم سے نکاح کیا ہے۔ اپنے گھروں میں رہو اور رسوم جاہلیت سے اپنا دامن بچاؤ۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری عزت و ناموس کو ہر بدنما داغ سے پاک صاف رکھنا چاہتا ہے۔

 ان المسلمین والمسلمات۔۔ الخ (رکوع 5) یہ مومنوں کے لیے تیسرا حکم ہے ہر مومن مرد اور عورت جو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے اور جو اللہ و رسول کا نافرمان ہوگا وہ صریح گمراہ ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔

 واذ تقول ۔۔الخ۔ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تیسرا خطاب ہے آپ کی خواہش تھی کہ زید زینب کو اپنے نکاح میں باقی رکھے اور اسے طلاق نہ دے کیونکہ اب صورت حال یہ تھی اگر زید طلاق دے دیتے ہیں تو اب زینب کی دلجوئی صرف اسی طرح ممکن تھی کہ آپ خود اس سے نکاح کرلیں لیکن آپ ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے کہ منافقین اعتراض کریں گے کہ اپنے متبنی کی مطلقہ سے نکاح کرلیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ خود آپ کے عمل سے اس رسم کو توڑا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس خطاب میں آپ کو تنبیہ فرمائی اور آپ کو حکم دیا کہ زید کی طلاق کے بعد زینب آپ کی بیوی ہے۔

 ماکان علی النبی ۔۔الخ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چوتھا خطاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرما دیا ہے۔ پیغمبر (علیہ السلام) اس بارے میں اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔ کیونکہ میرے پیغمبروں کی شان یہی ہے کہ وہ صرف اللہ سے ڈریں۔ اور دین میں لوگوں کی ملامت کا خیال نہ کریں۔

 ماکان محمد ۔۔الخ، یہ مومنوں کے لیے چوتھا حکم ہے۔ اے ایمان والو ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں۔ لہٰذا آپ زید کے بھی باپ نہیں اس لیے زید کی مطلقہ سے آپ کے نکاح کرلینے میں کوئی برائی اور قباحت نہیں۔ اس بارے میں تم اپنے دلوں کو صاف رکھنا۔ اور منافقین و مشرکین کی باتوں میں سے متاثر ہو کر پیغمبر (علیہ السلام) کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی نہ کرنا۔ یا ایہا الذین امنوا۔۔ الخ (رکوع 6) ۔ یہ مومنوں کے لیے پانچواں حکم ہے۔ اے ایمان والو ! اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح وشام اس کی حمد وثناء اور تسبیح و تقدیس میں مصروف رہو اگر بتقاضائے بشریت تمہارے دلوں میں پیغمبر (علیہ السلام) کے بارے میں کوئی بد گمانی پیدا ہونے کا کوئی اندیشہ یا وسوسہ ظاہر ہو تو اللہ کی یاد سے اسے دفع کرلو۔

 یا ایہا النبی انا ارسلنک۔۔ الخ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پانچواں خطاب ہے۔ میرے پیغمبر ! میں نے تجھے حق بیان کرنے کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اس لیے آپ صاف صاف اعلان فرما دیں کہ متبنی کی مطلقہ سے نکاح حلال ہے اور لوگوں کی مخالفت کی پرواہ نہ کریں۔ ولا تطع الکفرین ۔۔الخ یہ سورت کے ابتدائی مضمون کا اعادہ ہے۔ اس لیے ہم نے زید کے طلاق دینے کے فورا بعد زینب کے ساتھ پیغمبر (علیہ السلام) کا نکاح کردیا کیونکہ وہ غیر مدخول بہا تھیں۔

 یا ایہا النبی انا احللنا ۔۔الخ۔ یہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چھٹا خطاب ہے۔ حسب ذیل عورتوں کے ساتھ آپ کے لیے نکاح کرنا حلال ہے ان کے سوا اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔ یا ایہا الذین امنوا ۔۔الخ، یہ مومنوں سے چھٹا خطاب ہے۔ اے ایمان والو ! تم جب مومن عورتوں سے نکاح کرو۔ اور پھر صحبت سے قبل ہی ان کو طلاق دیدو تو ان پر کوئی عدت نہیں۔یا ایہا الذین امنوا لا تدخلوا ۔۔الخ (رکوع 7) ساتواں حکم برائے مومنین۔ ایمان والوں کو پیغمبر (علیہ السلام) کے گھر کے بارے میں کچھ آداب سکھائے گئے تاکہ منافقین اور کفار کے لیے غلط پروپیگنڈے کی گنجائش باقی نہ رہے۔

 ان اللہ وملئکتہ۔۔ الخ آٹھواں حکم برائے مومنین۔ اے ایمان والو ! میرے پیغمبر (علیہ السلام) نے مشرکین و منافقین کی شدید مخالفت کے باوجود جاہلیت کی رسم کو توڑ دیا اور مسئلہ حق کو واضح کردیا ہے۔ اس لیے تم آپ پر صلوۃ وسلام بھیجو۔ اور اللہ سے آپ کے لیے رحمت کی دعا مانگو۔ ان الذین یوذون اللہ۔۔ الخ یہ مشرکین و منافقین کے لیے تخویف اخروی ہے۔

 یا ایہا النبی قل لا زواجک ۔۔الخ (رکوع 8) ۔ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ساتواں خطاب۔ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں، آپ کی بیٹیوں اور تمام مومن عورتوں کو حکم دیا گیا کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو پردہ کر کے نکلیں تاکہ ان کی عزت و ناموس محفوظ رہے اور بدقماش لوگوں کو اتہام کا موقع نہ مل سکے۔ لئن لم ینتہ المنفقون۔۔ الخ۔ یہ منافقین پر زجر اور تخویف دنیوی ہے۔ اگر منافق اور بدقماش لوگ اس کے باوجود اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو انہیں قتل کرنے کے احکام صادر کر دئیے جائیں گے۔ یسئلک الناس ۔۔الخ یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن ان کفار و مشرکین کا حال بہت برا ہوگا اور وہ اللہ کے عذاب سے کسی صورت بچ نہیں سکیں گے۔ یا ایہا الذین امنوا لا تکونوا۔۔ الخ (رکوع 9) یہ مومنین کے لیے نواں حکم ہے۔ ایمان والوں کو حکم دیا گیا کہ وہ پیغمبر (علیہ السلام) کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی نہ کریں۔ اور نہ کوئی خلاف شان بات آپ کی طرف منسوب کر کے آپ کو ایذاء پہنچائیں۔ بلکہ اللہ سے ڈریں اور سچائی کو اپنا شعار بنائیں۔ انا عرضنا الامانۃ ۔۔الخ منافقین و مشرکین کے لیے زجر و تخویف اور ایمان والوں کے لیے بشارت اخروی۔ یا ایہا الذین امنوا۔۔ الخ، یہ مومنین کے لیے دسواں حکم ہے۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو۔ غلط بیانی اور اتہام تراشی سے دور رہو۔ اور ہمیشہ صدق اور راست گوئی کو اپنا شعار بناؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو قبول فرمائے گا اور ان کا اجر عطا کرے گا۔تنبیہ: يوم تقلب وجوههم۔۔الخ  جنہوں نے کفر و شرک کیااور  اکابرین کی اقتداء میں غیر شرعی رسومات کے پابند ہوئے وہ دن قیامت کے جب ان کے چہروں کو آگ پر الٹ پلٹ کیا جائے گا تو وہ حسرت و ندامت سے کہیں گے۔ کاش ! ہم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ اس کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر بطور معذرت کہیں گے۔ ربنا انا اطعنا۔۔ الخ، اے ہمارے پروردگار ! ہم اس معاملے میں بےقصور ہیں۔ ہم دنیا میں پیر و مولویوں اور سرداروں ہی کی اطاعت اور پیروی کرتے رہے مگر ان ظالموں نے ہمیں ہدایت اور توحید کی راہ دکھانے کے بجائے توحید سے گمراہ کردیا اور شرک و کفر کی راہ پر لگا دیا۔ سادۃ اور کبراء سے علماء سوء اور پیشوایانِ دین مراد ہیں جو کفر و شرک کی تبْلیغ کرتے تھے۔یادرکھیں ! اس وقت بلک بلک کر رونے کا اور حسرت و بیزاری سے بھری التجاؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔کہ ہم نے اکابر و پیشواؤں کی اندھی تقلید نہ کی ہوتی  تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔یادرکھیں اس وقت کفر و شرک سے ،فرقہ و مسلک پرستی بیزاری کوئی فائدہ نہ گیاسکا ذکر (البقرہ-166-167)میں بھی ہوا ہے۔ لہذا دنیا ہی میں مذکورہ ظلالت بھری سب باتوں سے خود کو بری کرکے خالص اللہ کے مسلم بن جائیں۔ انا عرضنا الخ، یہ منافقین و مشرکین پر زجر اور ان کے لیے تخویف اخروی ہے۔کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بےفکری کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے۔

مختصر ترین خلاصہ

جس طرح ظہار سے بیوی حقیقی ماں نہیں بن جاتی اور کسی کو بیٹا بنا لینے سے وہ حقیقت میں بیٹا نہیں بن جاتااسی طرح تمہارے زعم اور خیال سے تمہارے معبود جنہیں تم شفیع غالب سمجھتے ہو حقیقت میں تمہارے لئے اللہ کے آگے ہر گز شفیع غالب نہیں بن سکتے۔لہذا اپنی حاجات و مشکلات میں اللہ کی سوا کسی کو مت پکارو ،کوئی نہیں ہے جو اللہ کے اذن کے بغیر شفیع بننے کے لائق ہو۔جب مشرکین کی رسموں کو توڑ دیا گیا تو اللہ کی مخلوق کو اسکا شریک بنانا اللہ کو کیسے گوارا ہو گا۔