قرآن مجید کا مطالعہ یہ حقیقت واضح کرتا ہے کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس پر تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام قائم تھے اور اسی کی طرف انہوں نے اپنی امتوں کو دعوت دی۔ ملتِ ابراہیم دراصل وہی حقیقی ملت ہے جس کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مسلم قرار دیا۔ چنانچہ ہر دور اور ہر قوم کے سچے ماننے والے ہمیشہ مسلم ہی رہے۔
ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ علیہم السلام کے پیروکار مسلم تھے۔ موسیٰؑ پر ایمان لانے والے حقیقی ماننے والے مسلم تھے۔ دورِ موسی ؑ میں سحر و جادو کے پیشہ ور جب حق کے سامنے جھک کر سجدے میں گرے تو قرآن نے انہیں بھی مسلم کہا۔ عیسیٰؑ کے حواریوں نے خود اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے کہا
اَشْهَدُ بِأَنَّا مُسْلِمُوْنَ
اس طرح وہ بھی مسلم ہی کہلائے۔ سلیمانؑ کی پیروی کرنے والے، قوم سبا کے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے حکم کو قبول کیا، اور بالآخر خود ملکہ بلقیس اپنے تمام کمانڈروں کے ساتھ اللہ کے حضور جھک کر مسلمہ قرار پائی۔
اہل کتاب میں جو اپنے اصل دین پر قائم رہے، وہ بھی مسلم ہی تھے، کیونکہ اسلام کی حقیقت ہر دور میں اللہ کی توحید اور اس کی بندگی پر قائم رہی۔ قومِ لوطؑ پر جب عذابِ الہی نازل ہوا تو قرآن نے تصریح کی کہ صرف ایک گھرانہ نجات پایا اور وہ مسلمین کا گھر تھا۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ کی دعوت کا مرکزی پیغام یہی تھا
اِنَّمَآ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (الانبیاء: 108)۔
آپ جن کے لیے بشیر و نذیر بنائے گئے وہ بھی مسلم تھے۔ سابقہ کتب کے جو حقیقی وارث تھے، قرآن انہیں
الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا
کہہ کر یاد کرتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے اعلان کیا کہ یہ کتاب دراصل انہی لوگوں کے لیے ہدایت و نور ہے جو مسلم ہیں۔ اور قیامت کے دن بھی جن پر نہ خوف ہوگا نہ غم، وہ دراصل مسلمین ہی ہوں گے۔
یوں قرآن مجید کے نصوص سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ تمام انبیاء، ان کے حقیقی پیروکار، سابقہ امتوں کے مخلص مومنین، اور اسلام کو قبول کرنے والے ہر شخص کی مشترک شناخت مسلم ہے۔ اسلام کوئی نیا دین نہیں بلکہ وہی آفاقی اور ابدی دین ہے جو آغازِ آفرینش سے جاری ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔
:مسلم محض ایک لفظ یا لقب نہیں، بلکہ ایک عہد ہے جو اللہ نے لیا ہے
مِلَّـةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ ۭهُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ ڏ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ
یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی ملت ہے۔ اللہ نے تمہارا نام پہلے ہی سے اور اس (قرآن) میں بھی مسلمان رکھا ہے تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔ (الحج:۷۸)
اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت عظیم حقیقت بیان فرمائی ہے کہ ملتِ ابراہیمؑ نام ہی فرمانبرداری اور اطاعت شعاری کا نام ہے۔ یہ وہی ملت ہے جسے اللہ نے تمام باطل ادیان سے جدا اور ممتاز کیا، اور اسی کی بنیاد پر تمہیں مسلم پہچان کا شرف عطا کیا ہے۔ یہ نام نہ تمہاری اپنی ایجاد ہے، نہ کسی قوم یا نسل کی پہچان، بلکہ خود ربّ العالمین نے تمہیں یہ لقب مرحمت فرمایا، پہلے صحائف میں بھی اور اب قرآن مجید میں بھی۔ اس شرف کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامت کے دن تم پر گواہ ہوں اور تم باقی انسانیت پر گواہ بنو۔ گویا امتِ مسلمہ کو اس نسبت کے ذریعے ایک دوہری ذمہ داری دی گئی ہے۔ ایک طرف نبی کریم ﷺ کی اطاعت و اتباع کا حق ادا کرنا، اور دوسری طرف دنیا کی اقوام کے سامنے حق کا گواہ بن کر کھڑا ہونا۔
:ابراہیم علیہ السلام خود بھی مسلم تھے
اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
جب( ابراہیمؑ کو) اس کے رب نے سے فرمایا:مسلم ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: میں رب العالمین کا مسلم ہوں۔(البقرہ-۱۳۱)
ابراہیمؑ کی زندگی کا بنیادی جوہر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا تھا۔ یہی اسلام کی اصل حقیقت ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے سراپا اطاعت ہو۔ جیسے ابراہیمؑ نےسب سے پہلے اپنی ذات کو مکمل طور پر اللہ کا مسلم قرار دیا۔
وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ ۭ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ
اور جب ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو دعا کر رہے تھے،اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی امت اٹھا جو تیرے لیے مسلم ہو۔(البقرہ-۱۲۸)
خانہ کعبہ کی تعمیر کے ساتھ ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ وہ اور ان کی اولاد اللہ کے مسلم رہیں۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی نعمت مسلم ہونا ہے۔
:ابراہیم علیہ السلام کی اولادبھی (مسلم )تھی
وَوَصّٰى بِهَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُ ۭيٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
اور ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو اور یعقوبؑ نے بھی یہی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے تمہارے لیے یہ دین منتخب کیا ہے، لہٰذا موت نہ آنا مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔(البقرہ-۱۳۲)
ابراہیمؑ اور یعقوبؑ دونوں کی وصیت امت کے لیے رہنمائی ہے کہ اصل دین وہی ہے جو اسلام کے نام سے موسوم ہے۔ ایمان کا خاتمہ بھی اسی حالت پر ہونا چاہیے۔ یہ سبق ہے کہ اسلام صرف ظاہری پہچان کا نہیں بلکہ عملاً بھی زندگی اور موت تک کی وصیت ہے۔
اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاۗءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ ۙ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِيْ ۭ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاۗىِٕكَ اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا وَّنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
کیا تم موجود تھے جب یعقوبؑ کی موت کا وقت آیا؟ جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا،تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا، ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کے معبود، ایک ہی معبود کی عبادت کریں گے اور ہم اسی کے مسلم ہیں۔(البقرہ-۱۳۳)
یعقوبؑ کی اولاد کا جواب اصل ملت کا تعارف ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی بندگی کرنے والے اور اس کے مسلم تھے۔ نہ یعقوبی کہلائے،نہ اسحاقی پہچان بتائی، نہ اسمائیلی اور ابراہیمی شناخت بتائی ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ انبیاء کی نسلیں اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کی پیروکار نہ تھیں بلکہ مسلم تھیں۔
:فرقوں کی موجودگی میں بھی پہچان مسلم
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
کہہ دو: اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہ بنائے۔ پھر اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم مسلم ہیں۔(آل عمران-۶۴)
اہل کتاب کو بھی اسی بات کی طرف بلایا گیا ،اور پہچا ن مسلم کروائی گئی۔ اس کے باوجود وہ سرکشی سے اپنے لیے یہودی و نصرانی، کی شناخت کو پسند کرتے تھے ۔جیسے موجودہ دور میں شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث یا دیگر فرقہ وارانہ ناموں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ براہِ راست قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے متبعین کی مشترکہ پہچان مسلم بتائی ہے۔
:اپنے فرقہ ورانہ ناموں کی دلیل پیش کرو
یہودی کہتے ہیں ابراہیمؑ یہودی تھے،نصاری کہتے ہیں ابراہیم ؑ نصرانی تھے۔
آج کے فرقے بھی اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لیے انبیاء اور صالحین کی نسبتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جیسے یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ موسیٰؑ اور ان کے پیروکار دراصل یہودی تھے، نصرانی یہ باور کراتے ہیں کہ عیسیٰؑ اور ان کے حواری عیسائی تھے، اور اسی طرح امتِ محمد ﷺ میں بعض گروہ اپنے مسلکی ناموں کو انبیاء و اولیاء کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں،کوئی اپنے آپ کو بریلوی کہتا ہے، کوئی دیوبندی، کوئی اہلحدیث، اور کوئی شیعہ۔ یہ کوئی اپنی اپنی پہچان کو نبی کی پہچان کروا رہا ہے۔ حالانکہ قرآن صاف اعلان کرتا ہے کہ تمام انبیاء اور ان کے سچے پیروکار صرف اور صرف مسلم تھے۔یہود و نصاری اور مشرکین مکہ نے جب اپنی اپنی گمراہی کی نسبت ابراہیمؑ کی طرف کی تو انہیں یہی جواب دیا گیا کہ
مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
ابراہیمؑ نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی، بلکہ وہ خالص اللہ کے تابع فرمان (مسلم) تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔(آل عمران-۶۷)
پیغمبر کفر کا کیسے حکم دے سکتا ہے ؟
اَيَاْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
کیا کوئی نبی تمہیں کفر کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم مسلم ہو چکے ہو؟ (آل عمران-۸۰)
:آئیں قرآن کی سیر کریں
:موسی علیہ اسلام اپنی قوم کو موسوی نہیں بلکہ مسلم کہلوانا چاہتے تھے
وَقَالَ مُوْسٰى يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ
اور موسیٰؑ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم مسلم ہو۔(یونس:۸۴)
:جادوگروں کے ایمان کے اعلان میں مسلم کہلوانے کا ذکر
وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا ۭرَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ
اور تم ہمیں (کس بات پر) برا سمجھتے ہو اور ستاتے ہو، سوائے اس کے کہ ہم نے اپنے رب کی آیات پر ایمان لے لیا ہے جب وہ ہمارے پاس آگئیں۔ اے ہمارے رب! ہم پر صبر کے دریچے کھول دے اور ہمیں مسلم ہی اٹھا۔(الاعراف:۱۲۶)
:فرعون بھی جان گیاتھا ایمان لانے کے بعدمسلم ہی کہلوانا ہے
حَتّٰٓى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
یہاں تک کہ جب فرعون کو غرق (ڈوبنے) نے آ لیا تو اس نے کہا: میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر وہی جس پر بنی اسرائیل
ایمان لائے اور میں (بھی) مسلمانوں میں سے ہوں۔(یونس:۹۰)
:موت اس حال میں آئے کہ تم مسلم ہو
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔(آل عمران:۱۰۲)
:عیسیٰ علیہ اسلام عیسائی یا نصرانی نہیں بلکہ مسلم کہلوانا چاہتے تھے
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
پس جب عیسیٰؑ نے ان کی طرف سے کفر محسوس کیا تو کہا: کون ہیں میرے مددگار اللہ کی طرف؟ حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار، ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔(آل عمران:۵۲)
:تمام انبیاء کے پیروکار خود کو مسلم ہی کہلواتے ہیں
قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
کہو: ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولادِ یعقوب پر اتارا گیا، اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا، اور جو دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی کے فرمانبردار (مسلم) ہیں۔(البقرۃ:۱۳۶)
:نبی ﷺ کی دعوت کا مرکز و محور یہی تھا
قُلْ اِنَّمَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّـمَآ اِلٰــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
کہہ دو: مجھے یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود ہے، تو کیا تم مسلمان (فرمانبردار) ہوتے ہو؟(الانبیاء-108)
وَاُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ربِّ العالمین کے مسلم بنیں۔(الانعام:۷۱)
لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ
اس کا کوئی شریک نہیں، اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔(الانعام:۱۶۳)
وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ (یونس:۷۲)
وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں رب العالمین کے آگے سر جھکا دوں (یعنی مسلم بنوں)۔(الغافر:۶۶)
اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ۔۔۔
بیشک ہم نے تورات نازل کی، اس میں ہدایت اور نور تھا۔ اس کے مطابق فیصلے کرتے تھے وہ نبی جو (اللہ کے حکم کے آگے) جھکے ہوئے تھے، ان لوگوں کے لئے جو یہودی ہوئے۔ اور اسی طرح ربانی اور علما بھی، اس وجہ سے کہ انہیں اللہ کی کتاب کا نگہبان بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے۔(المائدہ-44)
:ہر نبی نے مسلم کہلوانے والے کو بشارت دی جو اپنے دعویٰ میں سچے تھے
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيْدًا عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ ۭوَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ
ور (یاد کرو) جس دن ہم ہر امت میں سے انہی میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے جو ان پر گواہ ہوگا، اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی جو ہر چیز کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہے، اور ہدایت اور رحمت اور فرمانبرداروں (مسلمانوں) کے لیے خوشخبری ہے۔(النحل:۸۹)
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ
یہ (قرآن) ان لوگوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے جو ایمان لائے اور جو مسلم ہیں۔(النحل:۱۰۲)
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
ور اس شخص سے کس کا قول بہتر ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(فصلت:۳۳)
:ہمیشہ میدان جنگ اسی لیے سجائے گئے
۔۔۔تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ۚ۔۔۔
تم ان سے قتال کرو یہاں تک کہ وہ مسلم ہو جائیں۔(الفتح:۱۶)
:ایک گھرعذاب سے بچا وہ صرف مسلمین کا تھا
فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ
پس ہم نے اس بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا اور کوئی گھر نہ پایا۔(الذاریات:۳۶)
:روز قیامت جن کے لئے کوئی خوف غم نہیں ہوگا وہ صرف مسلم ہی ہونگے
(دل ،عقائد ، نظریات،اعمال و پہچان سب مسلم ہونے چاہیں)
يٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا مُسْلِمِيْنَ
(حکم ہوگا) اے میرے بندو! آج تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہوگے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور پورے کے پورے مسلمان تھے۔(الزخرف:۶۸، ۶۹)
:روز قیامت انکار کرنے والے شدید آرزو کریں گے کاش وہ مسلم ہوتے
رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ
عنقریب کافر آرزو کریں گے کہ کاش وہ مسلم ہوتے۔(الحجر-2)
(یعنی وہ کہیں گے کہ :کاش ہمارا دل ،عقائد ، نظریات،اعمال و پہچان سب مسلم ہوتی۔)
:یوسف علیہ اسلام بھی دعا میں مسلم ہی کا ذکرکرتے ہیں
فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۣ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ
(یوسفؑ کی دعا:) اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے، میرا خاتمہ مسلمان کی حیثیت سے کر اور مجھے صالحین کے ساتھ ملا دے۔(یوسف-101)
:اہلِ کتاب کے علماء حق جب ایمان لائے تو وہ مسلم ہی تھے
اہلِ کتاب جو پچھلی کتب پر ایمان رکھتے تھے، نبی ﷺ پر ایمان لانے کے بعد بھی مسلم ہی کہلائے۔
وَاِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖٓ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ
اور جب ان پر (یہ قرآن) پڑھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے، یہ تو ہمارے رب کی طرف سے حق ہے، بے شک ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔(القصص:۵۳)
:سُلیمان علیہ السلام بھی اپنے ماننے والوں کو مسلم ہی کہلوانا چاہتے تھے
اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ
(ملکہ سبا کے نام خط میں تھا)میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو، اور میرے پاس فرمانبردار (مسلم) بن کر آجاؤ۔(النمل:۳۱)
قَالَ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ
سلیمانؑ نے کہا: اے سردارو! تم میں سے کون ہے جو اس (ملکہ سبا) کا تخت میرے پاس لے آئے، اس سے پہلے کہ وہ لوگ میرے پاس فرمانبردار (مسلم) ہو کر آجائیں؟(النمل:۳۸)
فَلَمَّا جَاۗءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِ ۭ قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَ ۚ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ
پھر جب وہ آئی تو اس سے کہا گیا: کیا تمہارا تخت ایسا ہی ہے؟ اس نے کہا: گویا کہ یہ وہی ہے۔ اور ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم (اللہ کے آگے) فرمانبردار (مسلم) تھے۔(النمل :۴۲)
:ملکہ بلقیس جب ایمان لائی اس نے بھی خود کو سُلیمانی نہیں بلکہ مسلم کہلوایا
۔۔۔قَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
(ملکہ سبا نے کہا) اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اور اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ، جو تمام جہانوں کا رب ہے، کے آگے فرمانبرداری اختیار کرتی ہوں۔(النمل:۴۴)
:جنوں میں بھی جو ایمان والے ہیں وہ مسلم ہیں
وَّاَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَ ۭ فَمَنْ اَسْلَمَ فَاُولٰۗىِٕكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا
اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لوگ مسلم (فرمانبردار) ہیں اور کچھ ظالم و بےانصاف ہیں، پس جنہوں نے فرمانبرداری اختیار کی، انہوں نے سیدھی راہ اختیار کرلی۔(الجن:۱۴)
تعارف کے لئے اللہ نے قوم ،قبیلے بنائے ہیں:(فرقہ ورانہ نام رکھنے کی گنجائش نہیں ہے)
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ سب کچھ
جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔(الحجرات:۱۳)
:مسلک پرست کا اعتراض کہ اللہ نے اور ناموں کا بھی ذکر کیا ہے
اعتراض نمبرا : یہ ایک آیت میں دس نام ہیں لہذا الگ شناخت رکھنا جائز ہے۔
اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا
بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی اختیار کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں، اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور عورتیں۔ اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔(الاحزاب-35)
جواب: اس آیت میں کہیں اجازت نہیں دی گئی بلکہ مسلمین کو اس اعمال کرنے والوں کے لئے مغفرت و بڑے اجر کا اعلان کیا گیا ہے ،نیز اللہ نے سَمّٰىكُمُ صرف المُسْلِـمِيْن کے ساتھ بیان کیا ہے اور کسی کے ساتھ نہیں لہذا نام صرف مسلم ہے،باقی سب صفات کا تذکرہ ہے۔
اعتراض نمبر 2:ابراہیمؑ شیعہ تھے۔
وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ
اور بے شک اس (نوحؑ) کےشیعہ (گروہ) میں سے ابراہیم بھی تھے۔(الصافات:۸۳)
جواب: یہ تو محض سابقہ کفار کی نقالی ہے جیسے یہودی کہتے ہیں ابراہیمؑ یہودی تھے۔نصاری کہتے ہیں ابراہیم ؑ نصرانی تھے۔آج شیعہ کہتا ہے ابراہیمؑ شیعہ تھے ۔۔۔ان میں کیا فرق رہا؟ جبکہ ابراہیم ؑ کے بارے میں اللہ نے جواب دیا ،وہی جواب آج شیعہ کے لئے بھی کافی و شافی ہوجاتا ہے۔الحمدللہ۔ فرمایا کہ
مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی، بلکہ وہ یکسو مسلمان تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔(آل عمران:٦۷)
شیعہ کا معنی گروہ کرو ورنہ اگر ایک مسلک کا نام سمجھا تو یہ مسئلہ بہت مہنگا پڑے گا! جیسا کہ
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ
کہہ دو: وہی قادر ہے کہ تم پر عذاب بھیجے اوپر سے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس طرح مختلف طریقوں سے آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔(الانعام:٦۵)
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۔۔۔
یقیناً جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔(الانعام:۱۵۹)
اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا
بیشک فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں بانٹ دیا۔(القصص:۴)
وَلَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا
اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔ ان لوگوں میں سے جو اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر بیٹھے اور گروہ گروہ ہو گئے۔(الروم:۳۱، ۳۲)
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ وَمَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ
اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے پچھلے گروہوں میں بھی رسول بھیجے۔ اور ان کے پاس کوئی رسول نہ آیا مگر وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔(الحجر:۱۰، ۱۱)
:کھانے کے بعد کی دعا میں مسلم کا ذکر
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَکَلَ طَعَامًا قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ
ابوسعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کھانا تناول فرماتے تو یہ دعا پڑھتے:تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور ہمیں مسلم بنایا۔(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 457)
:رسول اللہ ﷺ کی پیشنگوئی میں بھی صحابہ کی پہچان مسلم تھی
عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْحَسَنَ فَصَعِدَ بِهِ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے حسن (رضی اللہ عنہ) کو (گود میں لے کر) منبر پر چڑھایا اور فرمایامیرا یہ بیٹا سردار ہے، اور قریب ہے کہ اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرا دے۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 877)
!فتنے جتنے بھی نمودار ہو جائیں ایمان والوں کی پہچان مسلم ہی رہے گی
رسول اللہ ﷺ نے حذیفہ بن یمانؓ کو فتنوں کے ظہور کے وقت ان سے بچنے کی تلقین کی ۔۔۔۔۔۔۔
قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ فَقُلْتُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَی أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّی يُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَی ذَلِکَ۔۔۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے فتنوں کے بارے میں پوچھا تو) آپ ﷺ نے فرمایا تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے ساتھ جڑے رہو۔میں نے عرض کیا: اگر ان کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ کوئی امام ہو تو کیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ان تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ، چاہے اس حالت میں رہنا پڑے کہ تم کسی درخت کی جڑ کو (بھوک سے) دانتوں سے پکڑے رہو، یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے اور تم اسی حالت میں رہو۔
(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 287)
ایمان لانے کے بعد مسلم ہی کہلوانا ضروری ہے ،فرقہ ورانہ ناموں کی گنجائش نہیں ہے
سارے نبی مسلم،موسی ؑ کے ماننے والے مسلم،سجدے میں گرنے والے سارے جادو گر مسلم،عیسیؑ کےحواری مسلم،ابراہیمؑ کے ماننے والے مسلم،یعقوبؑ کے ماننے والے مسلم،سُلیمانؑ کے ماننے والے مسلم،ملکہ سبا مسلمہ، ملکہ بلقیس کے سارے کمانڈر مسلم،ملکہ بلقیس مسلمہ، اہل کتاب جوپہلے بھی ایمان والے تھے وہ پہلے بھی مسلم ہی تھے،قوم لوط پر جب عذاب آیا صرف ایک گھر عذاب سے بچا وہ گھر مسلمین کا،نبی ﷺ کی دعوت کا محور یہی تھا، نبی ﷺجن کے بشیر ثابت ہوئے وہ مسلم ،سابقہ کُتب کے جو صحیح وارث تھے وہ مسلم،قرآن جن کے لئے ہدایت و نور ہے وہ مسلم،قیامت کے دن جن کے لئے کوئی خوف و غم نہیں ،وہ مسلم ہیں، اور فرمایا
وَمَنْ يَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ ۭ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا ۚ وَاِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ اِذْ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اور ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے روگردانی کون کرسکتا ہے سوائے اس کے جس نے اپنی جان کو بیوقوفی اور حماقت میں ڈال دیا ہو؟ اور بے شک ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں منتخب کیا تھا، اور آخرت میں بھی وہ یقیناً صالحین میں سے ہوں گے۔(البقرہ:۱۳۰، ۱۳۱)
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(فصلت:۳۳)
وماعلینا الا البلاغ المبین
Download PDF