سورۃ الکھف مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ18 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے69 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 110آیات ہیں جو12 رکوع پر مشتمل ہیں۔اس سورة کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔ مشرکین مکہ نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو علماء یہود کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ وہ ان کے پاس جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے ان کو آگاہ کریں۔ اور اس کے بارے میں ان سے پوچھیں کہ کیا واقعی وہ اللہ کا پیغمبر ہے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں۔ اور ان کو انبیاء کی پہچان ہے وہ مدینہ میں احبار یہود کے پاس پہنچے۔ اوررسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض احوال واقوال سے ان کو آگاہ کیا۔ علماء یہود نے ان سے کہا۔ تم واپس جا کر تین باتیں اس سے پوچھو۔ اگر اس نے صحیح جواب دے دیا۔ تو وہ سچا پیغمبر ہے۔ اور اگر وہ ان کا صحیح جواب نہ دے سکا۔ تو جھوٹا ہے۔ اول اس سے یہ پوچھو کہ گزشتہ زمانے جو چند نوجوان لاپتہ ہوگئے تھے ان کے ساتھ کیا بیتی ؟ دوم اس سے اس شخص کا حال دریافت کرو جو گزشتہ زمانے میں زمین کے مشارق و مغارب تک پہنچا تھا۔ سوم اس سے روح کی حقیقت دریافت کرو۔ نضر اور عقبہ واپس مکہ مکرمہ پہنچے اور قریش سے سارا ماجرا بیان کیا۔ چنانچہ وہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ اور احبار یہود کے بتائے ہوئے تینوں سوال آپ کے سامنے پیش کیے۔ آپ نے فرمایا تمہارے سوالوں کا جواب میں کل دوں گا۔ مگر اس کے ساتھ آپ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔ مشرکین واپس چلے گئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ پر پورا اعتماد اور کامل بھروسہ تھا اور آپ کو یقین تھا کہ کل تک اس بارے میں ضرور وحی سے اطلاع مل جائے گی۔ اس لیے کل کا وعدہ فرما دیا۔ مگر متواتر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی۔ جس سے آپ کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔ اور مشرکین کے غلط پروپیگنڈے اور ان کی بیہودہ باتوں سے آپ کو سخت اذیت پہنچی۔ آخر پندرہ یوم کے بعد سورة کہف نازل ہوئی جس میں مشرکین کے سوالوں کا جواب مذکور ہے اور ساتھ ہی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وعدہ کے ساتھ ان شاء اللہ نہ کہنے پر تنبیہ فرمائی۔
فضائل سورۃ الکھف
براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص رات کو گھر میں یہ سورت پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا گھوڑا بدکنے لگا۔ اس نے اوپر جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا جو بادل کی طرح سایہ کیے ہوئے تھا صبح اس نے یہ واقعہ رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوئی تھی۔ (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة کہف) اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔
ابو الدرداء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اس سورة کی ابتدائی تین آیات پڑھتا رہے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا ۔(ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الکہف) اور مسلم میں اس طرح ہے کہ جو شخص سورة کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔(مسلم بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب فضائل القرآن)
: سورة کہف کا ماقبل سے ربط
مشرکین مسئلہ توحید کا انکار کرنے کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو مطالبے بھی پیش کرتے تھے۔ اول فاتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین یعنی جس عذاب کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے۔ اگر سچا ہے۔ تو وہ عذاب ہم پر لے آ۔ ان کا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ اپنی صداقت کی کوئی نشانی یا معجزہ ہمیں دکھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو قول نقل فرمایا ہے و قالوا لولا یاتینا بایۃ من ربہ (اور انہوں نے کہا وہ پیغمبر ہمارے پاس اپنے رب سے اپنی صداقت کا) کوئی نشان کیوں نہیں لاتا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے مطالبہ کے جواب میں سورة نحل کے ابتداء میں فرمایا۔ اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ اللہ کا عذاب آ کر رہے گا۔ تم اس کی آمد کا عجلت سے مطالبہ نہ کرو۔
پھر مشرکین مکہ کے دوسرے مطالبہ کے جواب میں سورة بنی اسرائیل کی ابتداء میں فرمایا۔ سبحن الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی۔ یہ تو میرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا آسمانی نشان بھی دیکھ لو۔ میں نے اپنے بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کے تھوڑے سے حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک (اور مسجد اقصی سے جہاں تک میں نے چاہا) سیر کرائی۔ مذکورہ عذاب اور اس معجزہ معراج کے بعد بھی اگر تم ایمان نہ لائے تو تمہیں سخت عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا جائے گا (جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا) لیکن اللہ تعالیٰ نے ان منکرین کی مکمل تباہی اور ہلاکت سے پہلے محض اپنی مہربانی اور رحمت سے ان کو سنبھلنے کا ایک اور موقع دے دیا۔ اور سورة کہف نازل فرما کر ان شبہات کا جواب دے دیا۔ جن کی وجہ سے وہ شرک میں مبتلا تھے۔ گویا کہ سورة کہف میں مشرکین کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ ان کےشبہات اصحاب کہف،موسی ؑوخضرؑ، فرشتوں اور جنوں سےمتعلق تھے۔
:ابتداء
ام حسبت ان اصحب الکہف تا احصی لما لبثوا امدا (رکوع 1) میں ایک شبہ کا بالاختصار جواب دیا گیا ہے یعنی اصحاب کہف کا واقعہ تو ہماری قدرت کے نشانات میں سے ہے اس میں اصحاب کہف کے اپنے تصرف و اختیار کو کوئی دخل نہیں۔ مشرک بادشاہ سے بھاگ کر انہوں نے ایک غار میں چھپ کر اپنی جان بچائی اور وہاں پہنچ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رحمت اور درستی معاملہ کی دعا مانگی ہم نے غار میں انہیں مدت دراز تک سلا دیا۔ اور مدت دراز کے بعد انہیں بیدار کیا۔ یہ تمام باتیں اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ اصحاب کہف متصرف و کارساز نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے عاجز اور موحد بندے تھے۔ اس کے بعد نحن نقص علیک تا و کذلک اعثرنا علیھم (رکوع 2) میں پہلے شبہ کا جواب تفصیل سے دیا گیا ہے۔ اس کے بعد واقعہ اصحاب کہف کے کچھ متعلقات مذکور ہیں اور آخر میں اس کا ثمرہ اور چھ امور متفرعہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد منکرین کی اصلاح کے لیے امور ثلاثہ کا ذکر کیا گیا۔ امر اول واضرب لھم مثلا تا ھو خیر ثوابا و خیر عقبا (رکوع 5) ۔ یعنی جس دنیا پر مغرور ہو کر تم اللہ کی توحید اور اس کے احکام سے منہ موڑ رہے ہو وہ فانی ہے اور تم سے چھین لی جائے گی۔ اور دنیا میں اس کی وجہ سے عذاب پاؤ گے۔ امر دوم واضرب لھم مثل الحیوۃ تا خیر عند ربک ثوابا و خیر املا (رکوع 6) ۔ جس دنیا پر تمہیں ناز ہے وہ نہایت ہی حقیر ہے اور اس لائق نہیں کہ اسے آخرت پر ترجیح دیجائے۔ امر سوم و یوم نسیر الجبال تا ولا یظلم ربک احدا (رکوع 6) ۔ جس حقیر اور فانی دنیا کو تم آخرت پر ترجیح دے رہو ہو یہی آخرت میں تمہارے عذاب کا باعث ہوگی۔
و اذ قلنا للملئیکۃ اسجدوا لادم تا ولم یجدوا عنھا مصرفا (رکوع 7) ۔ جو اولیاء اللہ کو متصرف و مختار سمجھ کر حاجات و مشکلات میں پکارتے ہیں۔ ان کی نذریں منتیں اور ان کے مقابر سے درخت اور گھاس نہیں کاٹتے۔ اس ڈر سے کہ وہ نقصان پہنچائیں گے۔ دراصل یہ لوگ جنوں کو پکارتے ہیں۔ حالانکہ شیطان اور جنات انسان کے روز ازل سے دشمن ہیں۔ پھر وہ کس طرح دوست اور کارساز بن سکتے ہیں۔ اس کے بعد ولقد صرفنا فی ھذا القران تا و جعلنا لمھلکھم موعدا (رکوع 8) میں زجر اور تخویفیں ہیں۔
و اذ قال موسیٰ لفتہ سے موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا گیا اور آخر میں وما فعلتہ عن امری (رکوع 10) سے شبہ کا جواب دیا گیا کہ خضر (علیہ السلام) غیب داں اور متصرف نہیں تھے۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا تھا یا موسیٰ (علیہ السلام) کو بتایا تھا۔ وہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کہا اور اس کی تعلیم سے بتایا تھا۔
و یسئلونک عن ذی القرنین تا وکان وعد ربی حقا (رکوع 11) ۔ ذو القرنین کو اگرچہ بقدر ضرورت ظاہری اسباب دئیے گئے تھے۔ مگر مافوق الاسباب امور میں سے کسی ایک امر پر بھی اس کو قدرت نہیں دی گئی تھی۔ اور پھر ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی وہ ہر طرح سے عاجز رہا۔ مشرق میں گرمی کی وجہ سے اور مغرب میں دلدل کی وجہ سے اور شمال میں یاجوج ماجوج کی وجہ سے۔
چاروں شبہوں کا جواب دینے کے بعد آخری رکوع کی آیتوں کو لف و نشر مرتب کے طور پر چاروں جوابوں پر متفرع کیا گیا ہے۔ افحسب الذین کفروا تا لا یبغون عنھا حولا (رکوع 12)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک بندے غیب داں اور کارساز نہیں تو جنات میں یہ صفت کیونکر پائی جاسکتی ہے۔ قل لو کان البحر۔۔ الخ یعنی اللہ تعالیٰ ہی غیب داں ہے۔ جب اس کے سوا کوئی غیب داں نہیں تو متصرف فی الامور بھی کوئی نہیں۔ آخر میں قل انما انا بشر الخ سےرسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کیا کہ آپ اپنے متعلق بھی اعلان فرمادیں کہ میں بھی غیب داں اور کارساز نہیں ہوں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اور میرے پاس وحی کے ذریعے یہی مضمون بھیجا گیا ہے کہ غیب داں اور کارساز حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ سورۃ کے آخری جملے فمن کان یرجوا لقاء ربہ۔۔ الخ میں پوری سورۃکا خلاصہ بیان فرمایا کہ جو شخص آخرت میں لقاء ربانی اور رحمت الہیٰ کا امیدوار ہے۔ اس پر لازم ہے کہ وہ نیک عمل کرے لیکن اس کے ساتھ اللہ کی توحید کو مانے۔ اصحاب کہف، خضر، فرشتوں اور جنوں کو کارساز سمجھ کر نہ پکارے اور شرک جلی اور خفی سے دور رہے۔
:مختصر ترین خلاصہ
یہ سورة مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کے جوابات میں انہی پر پوری طرح الٹ دینے کے بعد خاتمہ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد فرمائیں تھیں ، یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اوراللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہوگی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔