سورۃ بنی اسرائیل مکی دور کی سورۃ ہے ،مصحف عثمانی کی ترتیب تلاوت کے لحاظ سےیہ سورۃ17 نمبر پر ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے50 نمبر پر ہے،اس سورۃ میں 111آیات ہیں جو12 رکوع پر مشتمل ہیں۔ سورۃ کا نام آیت نمبر 4 وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآ ئِیْلَ فِی اْلکِتٰبِ سے ماخوذ ہے۔ اسے سورۃ بنی اسرائیل کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی پہلی آیت کے بعد دوسری آیت سے لیکر آٹھ تک بنی اسرائیل کے چند تاریخی ادوار بتائے گئے ہیں جن میں بنی اسرائیل پر اللہ تعالی کی پکڑ آئی۔اسے سورہ کا ایک نام اسراء بھی ہے ۔ اسراء کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی پہلی آیت میں رسول اللہ ﷺکا معجزہ معراج بیان کیا گیا ہے۔
: سورة بنی اسرائیل کا سورۃ النحل سے ربط
نحل یعنی شہد کی مکھی الہام الٰہی سے جس طرح شہد بناتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ کے قادر و متصرف اور کارساز ہونے کا پتہ چلتا ہے اس لیے تم یہ بات مان لو لیکن اگر نہیں مانو گےاور بنی اسرائیل کی طرح شرک کر کے زمین میں فساد کروگے تو عذاب الہیٰ سے ہلاک کردئیے جاؤ گے۔
اس سورت میں معجزہ اسراء کا ذکر کیا گیا ہے۔ معجزہ اسراء چونکہ مسئلہ توحید کی خاطر دکھایا گیا تھا اس لیے اس سورت میں دو قسم کی آیتیں نازل کی گئیں۔ ایک وہ جو مسئلہ توحید سے متعلق ہیں جس کی خاطر یہ معجزہ دکھایا گیا، دوم وہ جن میں معجزات کا ذکر ہے جن سے مقصود تخویف ہے۔ یعنی اگر اس معجزہ کے بعد بھی مسئلہ توحید کو نہ مانوگے تو ہلاک کردئیے جاؤ گے۔ سورت کا دعوی اور مرکزی مضمون جس کی سچائی کے اظہار کے لیے معجزہ اسراء دکھایا گیا۔ اس کی تفصیل سورت کے آخر میں دی گئی ہے۔ قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن تا و کبرہ تکبیرا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو چاہے اللہ کہہ کر پکارو چاہے رحمن کہہ کر جس نام سے چاہو اسے پکارو مگر پکارو صرف اسی کو۔ اس کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔ فلہ الاسماء الحسنی فاء تعلیلیہ ہے کیونکہ اسی کے بہت سے اچھے نام ہیں۔ و لا تجھر بصلاتک ۔۔الخ میں پکار کا طریقہ تعلیم دیا گیا کہ نہ بہت بلند آواز سے پکار تاکہ مشرکین استہزاء نہ کریں اور نہ بالکل آہستہ پکار تاکہ صحابہ کو تعلیم ہوجائے۔ و قل الحمد للہ۔۔ الخ یہ قل ادعوا اللہ۔۔ الخ کی دلیل ہے یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارو، اس لیے کہ تمام صفات کارسازی کا مالک وہی ہے، اس کا کوئی نائب نہیں نہ اس کا کوئی شریک اور مددگار ہے۔ اس سورت میں آیات توحید دس اور آیت معجزہ پانچ ہیں۔
آیاتِ توحید : ایک دلیل وحی۔ تین دلائل نقلیہ۔ چھ دلائل عقلیہ
دلیل وحی: سبحن الذی اسرا بعبدہ۔۔ الخ اللہ پاک ہے ہر طرح کی کمزوریوں سے یہ گمان نہ کرو کہ کیسے لے گیا بلکہ یہ سوچو کہ کیوں لے کر گیا اور اسکا جواب یہ ہے کہ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا تاکہ اپنی توحید کی نشانیاں دیکھائے ۔اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ میرے بندوں سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کو ہر شریک سے پاک سمجھو اور حاجات و مشکلات میں غائبانہ صرف اسی کو پکارو۔ اللہ نے وحی کے ذریعے فرمایا کہ مجھے ہر شریک سے پاک سمجھو۔ تورات میں بھی یہی حکم دیا۔ کہ اللہ کے سوا کسی کو کارساز نہ بناؤ اور عقل سلیم کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شریک سے پاک ہے۔
دلائل نقلیہ: (1) شروع میں موسیٰ (علیہ السلام) سے و اتینا موسیٰ الکتب تا الا تتخذوا من دونی وکیلا (رکوع 1) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر ہم نے کتاب (تورات) نازل کی جسے تمام بنی اسرائیل کے لیے دستور ہدایت مقرر کیا۔ اس میں خاص طور سے بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ میرے سوا کسی اور کو کار ساز نہ بناؤ۔ اور میرے سوا کسی اور کو حاجات میں مت پکارو۔ (2) دلیل نقلی انبیاء (علیہم السلام) اور ملائکہ سے قل ادعو الذین زعمتم تا کان محذورا (رکوع 6) جن انبیاء و ملائکہ (علیہم السلام) کو تم نے اللہ کے سواکارساز اور متصرف سمجھ رکھا ہے وہ نہ موجودہ مصیبت کو دور کرسکتے ہیں نہ آنے والی کو روک سکتے ہیں بلکہ وہ تو خود ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کوشاں اور اس کے عذاب سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ (3) دلیل نقلی از علماء اہل کتاب۔ ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا تتلی علیھم تا و یزیدھم خشوعا (رکوع 12) اے مشرکین مکہ تم قرآن کو مانو یا نہ مانو اہل کتاب میں سے جو لوگ انصاف پسند ہیں اوراللہ سے ڈرنے والے ہیں وہ تو قرآن کو مان چکے اور مسئلہ توحید پر ایمان لا چکے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے آگے سجدہ کرتے اور اسی کے سامنے عاجزی کرتے ہیں تو یہ بھی قرآن، مسئلہ توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے حق ہونے کی ایک زبردست نقلی شہادت ہے۔
دلائل عقلیہ: (1) انہ ھو السمیع البصیر اللہ تعالیٰ کو شریک سے پاک سمجھو اور حاجات میں صرف اسی کو پکارو۔ میرے پاس یہی اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ سب کچھ سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا وہی ہے۔ (2) و جعلنا اللیل والنھار تا وکل شیء فصلنہ تفصیلا (رکوع 2) ۔ یہ توحید باری تعالیٰ پر دوسری عقلی دلیل ہے۔ سارا نظام شمسی جس سے دن اور رات وجود میں آتے ہیں اور جس سے مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جاتا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہے۔ اس سارے نظام کو وہ ایسے تسلسل اور باقاعدگی سے چلا رہا ہے کہ آج تک اس میں کسی قسم کا خلل رونما نہیں ہوا اور نہ رات دن کی آمد و رفت میں کوئی گڑ بڑ پیدا ہوئی ہے وہی قادر و مدبر سب کا کارساز ہے اور ہر قسم کی عبادت اور پکار کے لائق بھی وہی ہے۔ (3) ۔ ان ربک یبسط الرزق تا خبیرا بصیرا (رکوع 3) توحید پر تیسری عقلی دلیل۔ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ زمین و آسمان سے روزی کے اسباب وہی مہیا کرتا ہے اور تمام انواع و اقسام رزق وہی پیدا کرتا ہے۔ روزی کی کمی بیشی بھی اسی کے اختیار میں ہے اور پھر خبیر وبصیر یعنی سب کچھ جاننے اور دیکھنے والا بھی وہی ہے۔ لہٰذا اس کے دئیے ہوئے رزق سے اسی کے نام کی خیرات کرو اور اسی کی رضا جوئی کے لیے نذریں منتیں دو اور حاجات و مصائب میں صرف اسی کو پکارو۔ (4) ۔ وربک اعلم بمن فی السموات والارض (رکوع 6) ۔ توحید پر چوتھی عقلی دلیل۔ زمین و آسمان کی ساری مخلوق سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔ اللہ نے انبیاء (علیہم السلام) اور اپنے نیک بندوں کو بیشک بڑی فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی ہے۔ لیکن سب کچھ جاننا ساری مخلوق کے تمام حالات سے باخبر رہنا، مخلوق سے مصائب و مضرات دفع کرنا اور ان کی حاجات و مشکلات میں کام آنا ان کے بس میں نہیں۔ یہ صفات کارسازی ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ (5) ربکم الذی یزجی تا کان بکم رحیما (رکوع 7) دریاؤں اور سمندروں کی خوفناک لہروں میں سے کشتیوں اور جہازوں کو صحیح سلامت گذار کر کنارے لگانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے یہ اس کی قدرت کاملہ اور رحمت شاملہ کی واضح دلیل ہے۔ لہٰذا اس قادر و رحیم کے سوا کوئی کارساز و حاجت روا نہیں۔ (6) ۔ قل لو انتم تملکون تا و کان الانسان قتورا (رکوع 18) ۔ اس آیت میں خطاب تمام مخلوق سے ہے خواہ انسان ہوں یا فرشتے یا جن۔ اے انسانو، فرشتوں اور جنو ! اگر رحمت الہیٰ کے خزانے تمہارے قبضہ و تصرف میں دے دئیے جائیں تو تم بخل سے کام لینے لگو گے اوراللہ کی مخلوق کو پورا پورا فائدہ نہیں پہنچا سکو گے اس لیے اللہ کے سوا کوئی جگ داتا اور کارساز نہیں۔
آیات معجزہ یا آیات تخویف: ان سے مقصود یہ ہے کہ اگر معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لاؤ گے تو عذاب سے ہلاک کردئیے جاؤ گے۔ آیات معجزہ پانچ ہیں۔
ابتداء: (1) ۔ سبحن الذی اسری۔۔ الخ (رکوع 1) معجزہ اسراء اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بہت بڑا اعجاز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے توحید بیان کرنے والے اپنے بندہ خاص کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور وہاں سے آسمانوں تک رات کے تھوڑے سے حصہ میں سیر کرائی۔ مشرکین مکہ اب اگر یہ معجزہ دیکھ کر بھی مسئلہ توحید نہیں مانیں گے تو انہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ (2) ۔ ان ھذا القراٰن یھدی۔۔ الخ ۔ معجزہ اسراء کی طرح قرآن بھی ایک معجزہ ہے اور یہ قرآن بھی اسی مسئلہ توحید کو بیان کرتا ہے جس کی تائید کے لیے معجزہ اسراء ظاہر کیا گیا۔ (3)۔ و ما منعنا ان نرسل۔۔ الخ (رکوع 6) ہم معاندین کے منہ مانگے معجزے اس لیے ظاہر نہیں کرتے کہ مطلوبہ معجزہ دیکھنے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی بلکہ فوراً عذاب سے منکرین کو ہلاک کردیا جاتا ہے چنانچہ قوم ثمود کو ان کا مطلوبہ معجزہ دیا گیا مگر پھر بھی انہوں نے مسئلہ توحید کو نہ مانا اور فوراً ہلاک کردئیے گئے۔ و ما جعلنا الرویا التی ارینک ۔۔الخ یہ معجزہ معراج بھی ایک آزمائش تھی تاکہ ظاہر ہوجائے کہ کون مانتا ہے اور کون نہیں مانتا۔ (4) ۔ وان کادوا لیفتنونک۔۔ الخ مشرکین کی خواہش تھی کہ آپ ذرا نرمی اختیار کریں، ان کے معبودان باطلہ کی مذمت نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کرلیتے تو وہ آپ کو جان و دل سے دوست بنا لیتے۔ مشرکین نے تو راہ راست سے ہٹانے کے لیے اپنا سارا زور لگادیا مگر ہم نے آپ کو ثابت قدم رکھا اور ان کی باطل آرزو کی طرف آپ کو ذرا سا بھی جھکنے نہیں دیا۔ و ان کادوا لیستفزونک مشرکین مکہ معجزہ اسراء دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے کے بجائے آپ کو مکہ سے نکالنے کے درپے ہیں لیکن یاد رکھیں آپ کے مکہ سے نکل جانے کے بعد وہ بھی زیادہ عرصہ مکہ میں نہیں رہ سکیں گے۔ ہم ان میں بھی اپنی سنت قدیمہ جاری کریں گے۔ سنۃ من قد ارسلنا گزشتہ انبیاء (علیہم السلام) میں ہماری یہی سنت جاری رہی ہے کہ سرکش اور معاند قوموں نے جب بھی انہیں اپنے شہروں سے نکلنے پر مجبور کیا تو ان کے بعد ان قوموں کو بھی وہاں ٹھہرنا نصیب نہ ہوا اور انہیں فوراٍ ہلاک کردیا گیا۔ (5) ۔ و لقد اتینا موسیٰ ۔۔الخ رکوع 12 ۔ جس طرح پہلی قوموں کے پاس انبیاء (علیہم السلام) معجزات لے کر آئے مگر انہوں نے معجزات بظاہرہ دیکھ کر پیغمبروں کی تصدیق نہ کی اور مسئلہ توحید کو تسلیم نہ کیا تو انہیں ہلاک کردیا گیا اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی معجزات دے کر قوم فرعون کے پاس بھیجا۔ قوم فرعون نے معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی موسیٰ (علیہ السلام) کا پیش کردہ پیغام توحید نہ مانا تو انہیں غرق کردیا گیا۔ اب معجزہ اسراء دیکھنے کے بعد بھی مسئلہ توحید نہ ماننے پر چونکہ عذاب کی تخویف سنائی گئی۔ اس لیے رکوع 3 اور 4 میں رفع عذاب کے لیے امور ثلاثہ کا ذکر کیا گیا یعنی شرک نہ کرو، احسان کرو اور ظلم نہ کرو۔ امراول وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ میں ذکر کیا گیا اور و بالوالدین احسانا تا فتقعد ملوما محسورا میں امرثانی کا ذکر کیا گیا اور و لا تقتلوا اولادکم تا عند ربک مکروھا میں امر ثلاثہ کا ذکر کیا گیا۔ مسئلہ توحید کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے امور ثلاثہ کے شروع میں اور پھر آخر میں بڑی شدت کے ساتھ شرک سے منع کیا گیا۔ امور ثلاثہ کے شروع میں فرمایا لا تجعل مع اللہ الھا اخر فتقعد مذموما مخذولا اور آخر میں فرمایا و لا تجعل مع اللہ الھا اٰخر فتلقی فی جھنم ملوما مدحورا درمیان میں طریق تبلیغ کی تعلیم فرما دی کہ تبلیغ میں نرمی اختیار کرو اور سخت کلامی نہ کرو کیونکہ شیطان معمولی باتوں سے لوگوں کو بھڑکا کر ان کے دلوں میں نفرت و عداوت پیدا کردیتا ہے۔ و قل لعبادی یقولوا التیھی احسن شیطان چونکہ انسان کا پرانا دشمن ہے اس لیے و اذ قلنا للملئکۃ اسجدوا الخ میں قصہ آدم و ابلیس بیان کر کے بنی آدم کو اس کے مکر و فریب سے آگاہ کیا گیا۔ معجزہ اسراء اس لیے ظاہر کیا گیا تاکہ اسے دیکھ کر تم مسئلہ توحید مان لو مگر دیکھنا شیطان سے ہوشیار رہنا۔ مبادا وہ مکر و فریب سے تمہارے دلوں میں شبہات ڈال کر تمہیں مسئلہ توحید سے متنفر کردے۔
معجزہ اسراء کے بعد مشرکین ایمان لانے کے بجائے آپ کو مکہ سے نکالیں گے اس لیے اقم الصلوۃ لدلوک الشمس۔۔ الخ میں امر مصلح صلوۃ کا ذکر کیا گیا تاکہ مصائب پر صبر و استقامت کی صفت پیدا ہو کیونکہ صلوۃ سے صبر و استقامت اور رجوع الی اللہ کی صفات پیدا ہوتی ہیں نیز رات کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کریں تاکہ دل مطمئن رہے اور ساتھ ہی ہجرت کے وقت یہ دعا پڑھتے ہوئے مکہ سے نکلنا رب ادخلنی مدخل صدقا۔۔ الخ اس کے علاوہ سورت میں حسب مواقع بشارتیں، تخویفیں، زجریں اور شکوے مذکور ہیں۔
مختصرترین خلاصہ
عذاب قحط ہم نے اٹھا لیا ہے اور اب معجزہ اسراء ظاہر کردیا ہے اب اگر اس معجزہ کے بعد بھی نہ مانوگے تو بنی اسرائیل کی طرح ہلاک کردئیے جاؤ گے۔اور کسی کو یہ اشکال ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات اللہ کو دیکھا ہے ،تو وہ جان لے کہ یہ بات جھوٹ پر مبنی ہے۔
محمد بن یوسف، سفیان، سفیان، اسماعیل، شعبی، مسروق، عائشہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ عائشہ نے کہا کہ تم سے اگر کوئی شخص بیان کرے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تو وہ جھوٹا ہے اللہ فرماتے ہیں کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور جو شخص تم سے کہے کہ آپ غیب جانتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے اللہ فرماتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔(صحیح بخاری:جلد سوم: توحید کا بیان:حدیث نمبر 2279)
Download PDF