نبی ﷺ ہر جگہ بنفسِ نفیس حاضر نہیں ہو سکتے، کیونکہ وہ اللہ کے ایک برگزیدہ بشر و رسول ہیں، جنہیں الوہیت یا ماوراء البشر صفات نہیں دی گئیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ
کہہ دو: میں تو تمہاری ہی طرح کا ایک بشر ہوں، مجھ پر وحی کی جاتی ہےـ
(الکہف: 110)
اگر نبی ﷺ ہر جگہ بنفسِ نفیس حاضر ہوتے تو یہ صفت الوہیت کی ہوتی، نہ کہ عبد و رسول کی۔ اسی لیے نبی ﷺ نے اپنی بشریت کو ہمیشہ واضح فرمایا۔
آپ ﷺ نے فرمایا
إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ
میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، میں بھی بھول جاتا ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو۔
(صحیح البخاری: 401)
لہٰذا اصل عقیدہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کی حیات اللہ کی اعلی جنتوں میں ہے، ایسا نہیں کہ بنفسِ نفیس ہر جگہ حاضر ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ غلو اور شرک کی جڑ ہے، جبکہ توحید کا تقاضا ہے کہ یہ صفت صرف اللہ کے لیے مانی جائے
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہوـ
(الحدید: 4)
یعنی حاضر و ناظر اور ہر جگہ بنفسِ نفیس موجود ہونے کی صفت صرف اللہ کے لیے ہے، نبی ﷺ کے لیے نہیں۔