اسلام میں بیعت کا اصل حکم نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ صحابہ کرامؓ نے نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی، جیسا کہ قرآن میں فرمایا
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ
یقیناً جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
(الفتح 10)
بیعت کا مقصد اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت تھا، کسی پیر یا مزار والے سے بیعت کا کوئی حکم قرآن و سنت میں نہیں۔ صحابہؓ کے بعد خلفائے راشدینؓ کے ساتھ بیعت اجتماعی قیادت کے لیے تھی، نہ کہ ذاتی وظیفوں یا ذکر کے لیے۔
نبی ﷺ نے فرمایا
جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔
(صحیح بخاری، حدیث 2957)
اس میں واضح ہے کہ اصل بیعت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اطاعت کے لیے تھی۔
لہٰذا کسی مسلمان کے لیے کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت ہونا واجب یا ضروری نہیں۔ آج کل پیر حضرات کے ہاتھ پر بیعت کو لازم سمجھنا دین میں اضافہ اور بدعت ہے۔