یہ روایت ضعیف ہے اور محدثین نے اس کی سند پر جرح کی ہے، اس لیے اس سے کسی عقیدے یا عبادتی قاعدے کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا اُبْلِغْتُہ
جو آدمی میری قبر کے پاس کھڑا ہو کر مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو آدمی دور سے مجھے پر بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔(مشکوۃ بحوالہ بہقی)
اسکی سند میں محمد بن مروان سدی صغیر ہے جسکے بارے میں درج ہے کہ
اعلہ البھقی بابن مروان وقال العقیلی : لا اصل لہ، وقال ابن دحیہ :موضوع، تفردبہ محمد بن مروان وکان کذابا، واوردہ ابن جوزی فی الموضوع، وفی المیزان :محمد بن مروان السدی ترک واتھم بالکذاب واوردہ لہ ھذا الخبر۔
حدیث من صلی علی عند القبری سمتہ:بہیقی نے ابن مروان کی وجہ سے اس پر جرح کی ہے ۔
عقیلی کہتے ہیں : اسکی کوئی اصل نہیں ۔
ابن دحیہ کہتے ہیں : یہ روایت موضوع ہے اسے روایت کرنے میں محمد ابن مروان اکیلا ہے اور وہ کذاب تھا۔
ابن جوزی :اسے موضوعات میں لائے ہیں ۔
میزان الاعتدال میں ہے : محمد بن مروان سدی ، اسے ترک کیا گیا اور اس پر جھوٹا ہونے کی جرح ہے ۔ اور بطور ثبوت یہی روایت پیش کی ہے۔
(اسنی المطالب-صفحہ نمبر216)
لہذا اس قدر ضعیف روایت سے قبر کے پاس درود پڑھنے یا دور سے بھیجا درود فلاں بن فلاں کے نام سے رسول اللہ ﷺ تک پہنچانے کے سلسلے میں اس سے کسی عقیدتی حکم کا استدلال درست نہیں۔